سلور کے تار گرتے ہیں

266

زاہد عباس
’’تیز بارش نے شہر کا نظام درہم برہم کرڈالا… ہر طرف پانی ہی پانی تھا… گلیاں، محلے اور سڑکیں سنسان تھیں… بجلی گئے خاصی دیر ہوچکی تھی… خوف برساتی فضا میں کوئی اپنے گھر سے باہر نکلنے کو تیار نہ تھا۔ آسیب زدہ ماحول کے پیچھے اگر کچھ تھا تو سڑک پر گرے بجلی کے وہ تار، جن میں دوڑتے کرنٹ نے لوگوں کو ان کے گھروں میں محصور کرکے رکھ دیا تھا۔ ایسے میں ’’بچاؤ… بچاؤ‘‘ کی آوازوں نے اہلِ محلہ کی تو جیسے سانسیں ہی روک دی ہوں۔ آوازیں سن کرکچھ لوگ ہمت کرکے گھروں سے باہر نکلے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس سڑک پر لوگوں کا جم غفیر لگ گیا، جہاں چند نوجوان اپنی جان پر کھیل کر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا مدد کو پکارتے بچے کو ہائی ٹینشن لائن سے اگلتے شعلوں سے آزاد کروانے کی بھرپور کوشش کررہے تھے۔ آخرکار ان نوجوانوں کی کوششیں رنگ لاتی ہیں اور وہ اس بچے کو لے کر اسپتال کی جانب دوڑنے لگتے ہیں۔ زخمی بچہ اسپتال پہنچا دیا جاتا ہے جہاں پہلے ہی اہلِ محلہ کی خاصی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے… ڈاکٹروں کی جانب سے کی جانے والی کوششوں اور اہلِ محلہ کی دعاؤں کے نتیجے میں معصوم بچے کو نئی زندگی تو مل جاتی ہے لیکن اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے محروم ہوجاتا ہے۔ بچے کی حالت دیکھ کر ہر آنکھ اشک بار تھی۔ یہ کمسن جس کی عمر ابھی کھیلنے کودنے کی تھی، جو پڑھ لکھ کر ملک وقوم کی خدمت کرنے کے سپنے دیکھا کرتا تھا، اس کی جانب سے بُنے گئے سارے خوابوں کو سڑک پر گرے گیارہ ہزار وولٹ کی ہائی ٹینشن لائن کے تاروں سے نکلتی چنگاریوں نے جلا کر راکھ کرڈالا، اس کے بعد…‘‘
’’ٹھیریے ٹھیریے!‘‘ بشیر بھائی کی جانب سے سنائی جانے والی کہانی پر مزمل آگ بگولا ہوگیا۔
’’انکل یہ کوئی کہانی وہانی نہیں ہے جسے آپ رات کے اندھیرے اور بارش کے اضافے کے ساتھ کہانی کا روپ دے کر سنا رہے ہیں، یہ تو حقیقی واقعہ ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں کیا ہم بچے ہیں؟ انکل! آج کا بچہ معاشرے میں ہونے والے واقعات پر گہری نظر رکھتا ہے، اسے اپنے اطراف کی خوب خبر ہوتی ہے، اور ویسے بھی ہم اب اتنے بڑے ہوچکے ہیں کہ اچھے برے میں تمیز کرسکیں۔ یہ انٹرنیٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا دور ہے، اور سب سے بڑھ کر ہر دوسرے بچے کے پاس موبائل فون بھی ہے۔ آج سوشل میڈیا سرگرم ہے، ایسی صورتِ حال میں بھلا کس طرح ایسی گھڑی گئی کہانیوں کو سنا جا سکتا ہے! سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جسے آپ کہانی کہہ کر سنا رہے ہیں وہ ’کے۔ الیکٹرک‘ کی نااہلی اور ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے، جس نے مختلف مقامات پر ایک نہیں بلکہ دو بچوں کو بازوؤں سے محروم کرڈالا۔ میں نہ صرف ان خبروں سے واقف ہوں بلکہ مجھے یہ بھی علم ہے کہ اس حادثے کے فوری بعد مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قائدین سمیت جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن بھی سول اسپتال کراچی کے برنس وارڈ گئے تھے جہاں انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ ’کے۔ الیکٹرک‘ ملک کے مستقبل کے معماروں کی جان کی دشمن بن گئی ہے، کے۔ الیکٹرک کے مالکان اور چیئر مین کی مجرمانہ غفلت کے باعث عمر اور حارث جسمانی طور پر معذور ہوگئے ہیں، جو ناقابلِ تلافی نقصان ہے، حکومت کے۔ الیکٹرک کو فوری طور پر قومی تحویل میں لے، چیف جسٹس معاملے کا فوری نوٹس لیں، کے۔ الیکٹرک کو بچوں کا مکمل علاج معالجہ کرانے کا پابند کریں اور ان بچوں کو فی کس 5، 5 کروڑ روپے دلوائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بچے کے۔ الیکٹرک کی مجرمانہ غفلت کے باعث جسمانی طور پر معذور ہوئے۔ حافظ نعیم الرحمن کا مزید کہنا تھا کہ جماعت اسلامی متاثرہ بچوں کی ہر ممکن معاونت کرے گی، جماعت اسلامی کے۔ الیکٹرک کے خلاف اپنی تحریک مطالبات پورے ہونے تک جاری رکھے گی، کے۔ الیکٹرک اپنی مجرمانہ غفلت سے، بازو گنوانے والے بچوں کو مصنوعی اعضا لگوائے۔ انہوں نے بچوں کے والدین کو یقین دلایا کہ وہ اس سلسلے میں انصاف کی فراہمی تک ان کے ساتھ ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن نے مزید کہا کہ کے۔ الیکٹرک ایک دو مہینے کا بل وقت پر ادا نہ کرنے پر کنکشن کاٹ دیتی ہے، جبکہ وہ خود کئی اداروں کی اربوں روپے کی نادہندہ ہے، کے۔ الیکٹرک کا سسٹم فلاپ ہوچکا ہے، کے۔ الیکٹرک سالانہ 35 سے 40 ارب کماتی ہے اور ادارے کی ترقی کے لیے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرتی، اس ادارے کی نااہلی کے باعث معصوم بچوں پر 11 ہزار وولٹ کے تار گرے اور وہ جسمانی طور پر معذور ہوگئے۔ انہوں نے نہ صرف کے۔ الیکٹرک بلکہ ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی جماعتوں کے بارے میں کہا کہ وہ دبئی میں بیٹھے ابراج گروپ سے بھتہ لے رہی ہیں، کے۔ الیکٹرک سے بھتہ لینے والی سیاسی جماعتیں بتائیں کہ اس حادثے کا ذمہ دار کون ہے، صرف کے۔ الیکٹرک، یا پھر ان کی مجرمانہ خاموشی؟ انہوں نے حکومتی نمائندوں کو دوٹوک الفاظ میں مشورہ دیا کہ صرف دورے کرنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا، اس سلسلے میں حکومت کو عملی اقدامات بھی کرنے ہوں گے۔‘‘
ایک زمانہ تھا جب گھر کے بڑے کسی واقعے یا اپنی جانب سے گھڑی گئی باتوں کو کہانیوں کا نام دے کر بچوں کوسنا دیاکرتے اور کسی کو خبر تک نہ ہوتی اس وقت اصل مسئلہ گھر کے بچوں کو باتوں میں لگاکر ان کے بستروں تک لانے کا ہوتا تاکہ جلد سونے اور صبح جلداٹھنے کی عادت ڈالی جاسکے۔ اب وقت بدل چکا ہے آج کا بچہ اپنے اطراف ہونے والی تبدیلیوں اور واقعات پر خوب نظر رکھتا ہے ہر چیز پر اس کی نظر ہوتی ہے۔
خیر ان ساری باتوں میں قابل ذکر کے۔ الیکٹرک کی کارکردگی ہے جس سے کسی کو بھی اختلاف نہیں ۔ دنیا بھر کے ممالک میں ہر ادارہ اپنی ذمہ داریوں سے واقف ہوتا ہے، اسی لیے وہاں کے ادارے مضبوط اور طاقت ور اور با اختیار ہوا کرتے ہیں ہمارے یہاں الٹی گنگا بہتی ہے جس ادارے کو بھی با اختیار کیا جائے ادارے کے بجائے فرد واحد طاقت ور ہو جاتا ہے۔ کے۔ الیکٹرک بھی انہی محکموں میں سے ایک ہے ۔ مجھے اب تک یاد ہے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں برسر اقتدار آنے والی حکومت سے تعلق رکھنے والے ایک ایم پی اے نے اس وقت میرا بڑا مسئلہ حل کیا تھا ہمارے علاقے میں بجلی کے کم وولٹیج کی شکایت عام تھی، جسے لے کر میں اپنے حلقے کے ایم پی اے کے پاس چلا گیا اس زمانے میں ہمارے علاقے کا زون آفس ملیر میں ہوا کرتا تھا لہٰذا ایم پی اے نے اس وقت کی کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے نام ایک رقعہ لکھ کر مجھے دیا جسے لے کر میں متعلقہ آفس میں جا پہنچا اور میری شکایت درج کرلی گئی۔ میں واپس گھر کی جانب روانہ ہوگیا گھر پہنچتے ہی میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ میرے گھر پہنچنے سے قبل ہی ہمارے علاقے کی بجلی کے وولٹیج کا دیرینہ مسئلہ حل کردیا گیا تھا ۔ یہ تھی عوامی نمائندے کی طاقت اور عوامی خدمت اب جب سے کے۔ الیکٹرک با اختیار ادارہ بنا دیا گیا ہے وہ کسی کے ماتحت نہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں گورنر ہو یا وزیر ہر ایک اس کی من مانیوں کا رونا روتے دکھائی دیتا ہے۔ کے۔ الیکٹرک کو نجی شعبے میں دینے اور بااختیاربنائے جانے سے جو نتائج برآمد ہوئے ان کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ادارے کا عوامی نمائندوں کے ماتحت ہونا ہی بہتر نتائج فراہم کرسکتا ہے۔ جہاں تک شہر میں گرتی تاروں کا معاملہ ہے اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ تانبہ وہ دھات ہے جس میں ہزاروں وولٹ بجلی کی ترسیل کی صلاحیت موجود ہوتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں سلور کا شمار ناقص ترین دھاتوں میں ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن تانبہ چوری کر کے لگائے جانے والے سلور کے تاروں کے گرنے جیسے واقعات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہاہے۔ ظاہر ہے جب تانبے کی جگہ ناقص ترین سلور لگایا جائے گا تو بجلی کا دبائو پڑتے ہی وہ زمین پر آگرے گا۔ اب جبکہ کے۔ الیکٹرک کے ڈاکے، دہشت گردی اور لوگوں کو قتل کرنے کا پول کھل چکا ہے نئی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ فوری طور پر اس محکمے کو سرکاری تحویل میں لے کر لوٹی ہوئی تانبے کے تاروں کا حساب لے تاکہ بڑھتی عوامی نفرت کو ختم کیا جاسکے۔

حصہ