کر بھلا تو ہو بھلا

386

افروز عنایت
نورین: میڈم زرینہ! مجھے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے، کیا آپ میری مدد کرسکتی ہیں؟
میڈم زرینہ:کس قسم کی مدد چاہیے آپ کو؟
نورین: میڈم آپ کو تو معلوم ہے میری بیٹی کا ایڈمیشن نرسری میں ہوا ہے، اس کی چھٹی بارہ بجے ہوجاتی ہے جب کہ ہماری سوا بارہ بجے، میرا روز آخری پیریڈ جماعت نہم میں ہوتا ہے، پندرہ بیس منٹ مزید لگ جاتے ہیں کیونکہ نہم کلاس اس فلور کے آخر میں ہے۔ میرا آخری پیریڈ یا تو فری کردیں، یا چھٹی کی بیل (گھنٹی) کے وقت کسی کو دس منٹ کے لیے بھیج دیں تاکہ میں بچی کو نرسری سیکشن سے لے کر آسکوں صرف دس بارہ دن کے لیے، جب بچی عادی ہوجائے گی تو پھر وہ آیا کے ساتھ میرا انتظار نرسری سیکشن میں ہی کرے گی، میں اسے فارغ ہوکر لیتی جائوں گی۔
میڈم: مس نورین! یہ ناممکن اور بہت مشکل ہے، میں اس سلسلے میں آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتی۔
مس ساجدہ، جو تھوڑی دیر پہلے ہی میڈم کے آفس میں کسی کام سے آئی تھیں، انھیں میڈم کی بات سن کر نہایت افسوس ہوا۔ انھوں نے نورین کو آفس سے باہر جاتے ہوئے دیکھا، اس کے چہرے پر پریشانی عیاں تھی۔ لہٰذا وہ اسٹاف روم میں آئیں اور نورین سے کہا ’’نورین آپ پریشان نہ ہوں، چند دن کی بات ہے، میں چھٹی کے وقت تک آپ کی کلاس میں رک جائوں گی، ویسے بھی میرا آخری پیریڈ فری ہوتا ہے۔‘‘ اس طرح ساجدہ کی تھوڑی سی قربانی کی وجہ سے نورین کا ایک بڑا مسئلہ حل ہوگیا۔
…٭…
مسز طارق: شہلا بہن آپ سے ایک درخواست ہے، میرا مطلب ہے کہ ویسے تو ہم اپنی بیٹی کی شادی بڑی دھوم دھام سے کرنے کا ارادہ کررہے تھے لیکن آپ کو معلوم ہے کہ اِس مرتبہ بارش کی وجہ سے فصل کو خاصا نقصان پہنچا ہے، اس لیے ہم…
شہلا: ارے مسز طارق، پریشانی کی کوئی بات نہیں، آپ ہماری سمدھن ہیں، ہمیں آپ کی پریشانی کا احساس ہے، آپ کے جو اختیار میں ہے بس اتنا ہی کریں، اللہ برکت دے گا۔
مسز طارق کو شہلا کی بات سن کر قدرے اطمینان ہوا۔ دونوں کا شمار خوش حال گھرانوں میں ہوتا تھا لیکن مسز طارق موجودہ حالات کی وجہ سے جہیز اور دوسری تقریبات کے لیے حسبِ حیثیت خرچ کرنے سے قاصر تھیں، انھیں مزید پریشانی یہ تھی کہ ان حالات میں نہ جانے شہلا کے گھر والوں کا کیا ردعمل ہوگا۔ لیکن شہلا کے مثبت جواب نے ان کو بڑا حوصلہ دیا۔
…٭…
اسپتال کی انتظار گاہ میں بیس، پچیس لوگ اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔ سب کے ہاتھوں میں نمبر کی پرچی تھی، لیکن ہر ایک کے چہرے پر کوفت نمایاں تھی کہ جلدی سے ہماری باری آئے اور ہم فارغ ہوجائیں۔ ایک بزرگ درد کی شدت سے بلبلا رہے تھے، ان کا جواں سال بیٹا انھیں تسلی دے رہا تھا۔ ان کی باری آنے میں دیر تھی، سہیل اور اس کی بیوی کا نمبر دوسرا تھا… بزرگ کی حالتِ زار پر سہیل کو رحم آگیا، اس نے بزرگ کو بلایا اور اپنی جگہ پر کھڑا کیا جس پر باقی لوگ بڑے تلملائے۔ سہیل نے باقی مریضوں سے کہا کہ میں ان بزرگ کی جگہ چلا جاتا ہوں، یہ میرے نمبر پر ڈاکٹر کو دکھا دیں گے، انھیں زیادہ تکلیف ہے۔ اس طرح سہیل گیارہویں نمبر پر جاکر کھڑا ہوگیا۔ کچھ لوگ اسے یوں دیکھ رہے تھے جیسے وہ بے وقوف انسان ہو، کہ بڑی مشکل اور دیر کے بعد تو اس کا نمبر آنے والا تھا، لیکن اس نے گنوا دیا۔ سہیل اور اس کی بیوی کا دل مطمئن تھا کہ ان کی وجہ سے کسی کو آسانی میسر آئی۔
…٭…
ہمارے چاروں طرف سب ’’برا ہی برا‘‘ نہیں ہے بلکہ اچھائی بھی نظر آتی ہے۔ اکثر لوگ دوسروں کے راستوں میں کانٹے بکھیرتے ہیں یا صرف اپنے فائدے کو مدِنظر رکھتے ہیں، لیکن اللہ کی اس دھرتی پر آج بھی بہت سے ایسے بندے موجود ہیں جو دوسروں کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہیں چاہے انھیں خود کتنی ہی تکلیف کیوں نہ پہنچے۔ میری ایک دوست دو کمروں کے فلیٹ میں رہتی تھی، ساس نندوں کی بھی کبھی اس سے نہیں بنی، لیکن جب ساس نے کہا کہ شہر کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے ہم اپنے علاقے میں شادی نہیں کرسکتے، تمھارے گھر میں شادی کی رسمیں اد اکرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں تمھیں اپنے گھر میں چار پانچ دن دس پندرہ افراد کے رہنے کا بندوبست کرنا ہوگا۔ میری دوست نے کم آمدنی اور چھوٹے اپارٹمنٹ کے باوجود خندہ پیشانی سے اس بات کو قبول کیا، حالانکہ اسے اور اس کے بچوں کو سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑا لیکن میری دوست نے اس موقع پر یہ کہا کہ رب العزت کی میں شکر گزار ہوں کہ مجھے اس قابل کیا کہ میں کسی کے لیے آسانی پیدا کرسکتی ہوں۔
…٭…
دینِ اسلام نے بھی ہمیں دوسروں کے ساتھ تعاون اور مدد کی تلقین کی۔ دوسروں کی سہولت اور آسانی کے لیے ایثار کی بے شمار مثالیں ہمیں تاریخِ اسلام میں ملتی ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ ہمیشہ ہر حالت میں دوسروں کو سُکھ پہنچانے کی کوشش کرتے، اور اکثر وہ دوسروں کے سُکھ اور آسانی کے لیے اپنی تکلیف کا احساس بھی نہ کرتے، نہ ہی سامنے والے بندے پر احسان جتاتے۔ آپؐ اپنے خادموں کے آرام کا بھی خیال رکھتے، کوئی ایسا کام کرنے کے لیے نہ دیتے جس سے انھیں تکلیف ہو۔ ہر ممکن طور پر انھیں آرام و سہولت پہنچاتے۔ اگر کسی سے ملنے کا وعدہ کرتے تو کئی کئی گھنٹوں تک اس کا انتطار کرتے کہ کہیں یہ نہ ہو کہ وہ شخص آئے اور مجھے یہاں نہ پائے اور اسے پریشانی ہو۔ یہاں تک کہ عبادت کے معاملے میں بھی دوسروں کی سہولت اور آسانی کو مدنظر رکھتے۔ باجماعت نماز میں لمبی قرأت کے لیے منع فرماتے، تنہا نماز چاہے کتنی بھی لمبی ہو۔ کیونکہ باجماعت نماز میں ہر عمر کا بندہ شریک ہوتا ہے، اس میں بوڑھوں اور بیماروں کے آرام، سہولت اور آسانی کا خیال رکھا جاتا ہے۔ یہی حال خلفائے راشدین کا تھا۔ عوام کے سُکھ، آرام اور فلاح و بہبود کے لیے خود راتوں کو پہرے لگاتے اور ضرورت مندوں کی ضرورتوںکو پورا کرتے، ان کے گھروں میں راتوں کو خاموشی سے ضروریاتِ زندگی کی اشیا پہنچاتے تاکہ انھیں آسانی اور سہولت ہو۔ (سبحان اللہ)
آج اسلامی معاشرے کے ان درج بالا اصولوں پر اگر مسلمان عمل پیرا ہوجائیں تو ہر ایک کو سُکھ اور آسانی میسر آسکتی ہے۔ قوانین اس لیے رائج کیے جاتے ہیں کہ عوام کو آسانی فراہم ہو، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ عوام ان سہولتوں سے محروم رہتے ہیں۔
گھروں میں، اداروں میں، محلّوں میں، رشتے ناتوں میں اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہم سے جتنا ممکن ہو ایک دوسرے کو آرام، سُکھ اور آسانیاں دیں۔ بچوں کی بھی شروع سے ہی ایسی تربیت کرنی چاہیے کہ وہ کوئی بھی امر انجام دیتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ سامنے والے کو تکلیف نہیں بلکہ آسانی فراہم کرنی ہے۔ رات میں اگر ہماری واپسی دیر سے ہوتی ہے اور ہماری گاڑی کی جگہ کسی نے گاڑی پارک کی ہوتی ہے تو میرا بیٹا کہیں دور ایسی جگہ گاڑی پارک کرکے آتاہے جو کسی اور کے لیے مختص نہ ہو۔ بعض اوقات اس کے بابا اسے کہتے بھی ہیں کہ ’’یار ہماری گاڑی کی جگہ بھی تو کسی نے گاڑی پارک کردی ہے، آپ بھی کہیں نہ کہیں کھڑی کردیں‘‘۔ لیکن عبداللہ جواب دیتے ہیں ’’ابو ہمیں تو لوگوں کے اس امر سے تکلیف پہنچی ہے، ہماری وجہ سے کسی اور کو نہ پہنچے۔‘‘
اکثر گھروں میں بہو کے دیر گئے تک سونے پر اعتراض کیا جاتا ہے جبکہ بہو کو تمام رات میں تین چار مرتبہ چھوٹے بچے کے لیے اٹھنا پڑتا ہے۔ کچھ بچیوں نے اس سلسلے میں مجھ سے بھی شکایت کی، لیکن بعض ساسیں ایسی بھی ہیں جو اس بات کا خیال رکھتی ہیں اور سوچتی ہیں کہ کوئی بات نہیں، بہو صبح دیر تک سوکر اپنی نیند پوری کرلے، گھر کے کام تو ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے مخلص لوگوں کی قدر کرنی چاہیے جو آپ کے آرام کا خیال رکھتے ہیں، آپ کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ مجھے کسی نے اس سلسلے میں بتایا کہ میں لوگوں کے آرام اور آسانی کے لیے کوشش کرتی ہوں، بہو کے باورچی خانے کے کام بھی اکثر خود ہی نمٹا دیتی ہوں، اسے دیر تک سونے بھی دیتی ہوں، لیکن نہ اُسے میری قدر ہے نہ احساس، بلکہ وہ میری اس خوبی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہے۔ میں نے اس خاتون کو تسلی دی کہ آپ تو اپنا اخلاق دکھا رہی ہیں جس کا آپ کو اجر ملے گا اور دنیا میں بھی آپ کا دل مطمئن رہے گا کہ آپ نے دوسرے کے آرام اور سُکھ کا خیال رکھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جس شخص کے ساتھ کوئی بھلائی کی گئی اور اُس نے بھلائی کرنے والے سے کہا ’’جزاک اللہ خیرا‘‘ (اللہ تعالیٰ تم کو بہتر بدلہ دے گا) تو اس نے بھلائی کرنے والے کی پوری پوری تعریف کردی۔‘‘ (سنن الترمذی)
صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ ’’تم میں سے جو شخص اپنے بھائی کو کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہو تو وہ ضرور ایسا کرے۔‘‘
بیوہ عورتوں اور مسکینوں کے لیے محنت (بھلائی) اور کوشش کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مانند ہے اور اُس شخص کی مانند ہے جو رات بھر قیام کرتا اور دن کو روزہ رکھتا ہو۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
اس حدیث مبارکہ میں دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنے کی اہمیت کو بڑے خوب صورت انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ اللہ کے نزدیک اس کی کتنی قدر و منزلت ہے۔
رب العزت نے دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کو پسند فرمایا ہے بلکہ اس کے لیے اجر کی خوش خبری بھی دی ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث ہے ’’جو کسی تنگ دست کے لیے آسانی پیدا کرے گا اللہ سبحانہٗ تعالیٰ اُس کے لیے دنیا و آخرت میں آسانی پیدا فرمائے گا۔‘‘
بخاری شریف کی ایک اور حدیث اس سلسلے میں یوں ہے کہ ’’جس نے کنواں کھدوایا تو جان دار بھی اس سے پانی پیے گا، اللہ تعالیٰ کنواں کھدوانے والے کو قیامت کے دن تک اجر عنایت فرمائے گا۔‘‘
یہاں تک کہ اگر کوئی شخص دوسرے کو قرض دے اور اس سلسلے میں کچھ وقت کی رعایت دے تو اس کا بھی اجر ملے گا۔ اس سلسلے میں ارشادِ نبویؐ ہے کہ ’’جو شخص قرض دار کو مہلت دے (یعنی قرض وصول کرنے میں نرمی کرے) یا قرض معاف کردے تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا جب کہ اس کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔‘‘ (سبحان اللہ)
درج بالا احادیث سے دوسروں کے ساتھ بھلائی اور احسان کرنے کی نہ صرف تعلیم ملتی ہے بلکہ اس کی اہمیت اور اجر و ثواب بھی واضح ہے۔ اللہ ہم سب کو دوسروں کے ساتھ بھلائی اور انھیں آسانیاں فراہم کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔

حصہ