جرات و وفا کا پیکر سپاہی مقبول حسین

547

عبدالحمید صادق
ہے جرم اگر وطن کی مٹی سے محبت
یہ جرم سدا میرے حسابوں میں رہے گا
وطن سے محبت ایک ایسا فطری جذبہ ہے جو ہرانسان میں پایا جاتا ہے جہاں انسان پیدا ہوتا ہے ، پرورش پاتا ہے اس مٹی سے انسان کی محبت لازم و ملزوم ہے اپنے وطن سے محبت کی خاطر جوبھی قربانی دینی پڑے انسان اس سے دریغ نہیںکرتا اس کی ایک زندہ مثال سپاہی مقبول حسین ہیں جنہوںنے وطن کی خاطر اپنے جسم پر طرح طرح کے مظالم برداشت کیے لیکن وطن پر آنچ نہ آنے دی ۔
1965ء کی جنگ میں ایک سپاہی کی حیثیت سے مقبول حسین کیپٹن شیر خان کی قیادت میں دیے گئے ٹاسک کے مطابق دشمن کے اسلحہ ڈپو کو تباہ کرنے کے بعد واپس آرہے تھے کہ ارستے میں دشمن سے جھڑپ ہوگئی مقبول حسین نے ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔۔۔ اس دوران مقبول حسین زخمی ہوگئے ساتھیوںنے سپاہی مقبول حسین کو کندھوں پر اٹھا کر واپس لے جانا چاہا لیکن انہوں نے جانے سے انکار کردیا اور کہا کہ ’’ میں زخمی حالت میں اپنے آپ کو آپ لوگوں پر بوجھ نہیں بننے دوں گا میںیہاں بیٹھ کر آپ کو فائر کور دیتا ہوں اور آپ لوگ چلے جائو جب تک میرے دم میں دم رہا دشمن کا مقابلہ کرتا رہوں گا اور جب میرا وقت پورا ہوجائے گا خالق حقیقی سے جاملوں گا‘‘ ساتھیوں نے ساتھ لے جانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہے۔ سپاہی مقبول حسین کو اس کے پر زور اصرار پر وہیں چھوڑا اور واپس اپنی یونٹ کی جانب روانہ ہوگئے ۔ سپاہی مقبول حسین کا انڈین آرمی کے ساتھ دوبارہ مقابلہ ہوا اور اس دوران ایک گولہ مقبول حسین کو آکر لگا جس سے وہ شدید زخمی ہوئے اور بے ہوش ہوگئے ۔
الغرض انڈین آرمی نے جہاں باقی زخمیوںکو قید کیا وہیں سپاہی مقبول حسین کو بھی اپنی حراست میں لے لیا جنگ کے ختم ہونے پر دونوںممالک نے جب قیدیوں کی لسٹوں کا تبادلہ کیا توانڈین ٓرمی نے کہیںبھی سپاہی مقبول حسین کا تذکرہ نہ کیا اس لئے پاک فوج نے بھی گمنام شہداء کی لسٹ میں ڈال کر سپاہی مقبول حسین کا نام بھی یادگار شہداء میں شامل کردیا ۔ انڈین آرمی نے سپاہی مقبول حسین پربے جاتشدد کیا اور ان کو 4×4 فٹ کی کوٹھری میں رکھا جہاں نہ کھڑا ہوسکتا تھا اور نہ لیٹ سکتا تھا دوران تفتیش سپاہی مقبول حسین 40سال تک ظلم و تشدد کی چکی میں پستا رہا لیکن وطن پر آنچ نہ آنے دی سپاہی تشدد کرتے اور کہتے کہ کہو’’پاکستان مردہ باد ‘‘ یہ نوجوان جس کو جسمانی طور پر تو مارمار کر لاغر کردیا گیا تھا لیکن اس کے جذبہ حب الوطنی کو ختم نہ کرسکے یہ نوجوان زور دار آواز سے مسلسل دھاڑتا رہا اور پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتا ۔ افسر جب اس کی اس کیفیت کو دیکھتے تو اس کو پاگل پاگل کہتے اور یہ نوجوان آگے سے جواب دیتا کہ ’’ہاں میں پاگل ہوں‘‘ اپنے وطن کی محبت میں میں پاگل ہوں ۔۔۔۔ وطن کے دفاع کے لیے میں پاگل ہوں ۔۔۔۔۔!یہی وہ الفاظ تھے جو بھارتی افسروں کے دل پر ہتھوڑے کی طرح چوٹ لگاتے تھے بھارتی افسروں سے یہ الفاظ باربار نہ سنے جاسکتے تھے اور نہ ہی پاکستان زندہ باد اس نوجوان کی زبان سے سنا جاسکتا تھا جس کو یہ باربار دہراتا تھا انہوںنے اس نوجوان کو یہ سزاد ینے کا فیصلہ کیا کہ اس کی زبان کاٹ دی جائے ۔
بالآخر سپاہی مقبول حسین کی زبان کاٹ دی گئی اور اس کو4×4فٹ کی کوٹھری میں لاوارث میت کی طرح پھینک دیا اور دوران تشدد اس نوجوان کے ہاتھوں اور پیروں کے ناخن بھی نکال دیے گئے حتیٰ کہ دانتوں کو پلاس کی مدد سے جڑ سے اکھاڑ دیا گیا تاکہ کسی طرح اس کے دل سے پاکستان کی محبت کو ختم کیا جاسکے یہ نوجوان تھا کہ جس نے وطن کے تحفظ کی قسم کھائی تھی۔
بقول شاعر:
خون دل دے کے نکھاریں گے رخ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
زبان کٹ جانے کے بعد یہ نوجوان زبان سے پاکستان زندہ باد کا نعرہ تو نہ لگا سکتا تھا مگر اس نے چارفٹ کی اس کوٹھری میں وطن کی محبت میں جو کام کیا وہ تاریخ کے سنہرے اوراق میں لکھا جائے گا ۔ سپاہی مقبول حسین نے جسم سے بہنے والے خون سے اس کوٹھری کے فرش اوردر و دیوار پر جابجا اپنے خون سے پاکستان زندہ باد لکھ کر ثابت کردیاکہ کوئی مائی کا لال تشدد کرکے سچے پاکستانی کو فتح نہیں کرسکتا۔
17ستمبر 2005ء کو دونوں ممالک نے قیدیوں کا تبادلہ کیا تو بھارت کی جانب سے آنے والے قیدیوں میں ایک آدمی ایسا بھی تھا جو جسم سے تو لاغر محسوس ہورہا تھا لیکن اس کی آنکھوں میں ایک ایسی چمک تھی جس سے پاکستانیت جھلک رہی تھی ۔سب نے اپنے اپنے گھر کا پتہ بتایا لیکن اس بوڑھے آدمی نے آزاد کشمیر رجمنٹل فورس کا پتہ بتایا وہ بھی زبان سے نہیں بلکہ کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ کر ۔ سپاہی مقبول حسین کو مانسرہ کیمپ پہنچا دیا گیا اور کمانڈنٹ آفیسر کے سامنے جب اس کو پیش کیا گیا توا س ظاہری لاغر اور بوڑھے آدمی نے ایک کڑیل جوان کی طرح کمانڈر کو سیلوٹ کیا اور کاغذ کے ایک ٹکڑے پر یہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں لکھ دیے کہ سپاہی مقبول حسین پیٹی نمبر 335139 ڈیوٹی پر واپس آگیا ہے اور کمانڈرکے حکم کا منتظر ہے۔ کمانڈنٹ آفیسر نے جب یہ پرچی دیکھی تو حیران رہ گیا اور اس نام اور نمبر کے مطابق کاغذات کی تلاشی کرائی گئی اور اس کے رشتے داروں کا پتا لگایاگیا تو معلوم ہوا کہ سپاہی مقبول حسین کے تمام قریبی رشتے دار بشمول والدین اور بھائی سب اس دارفانی سے کوچ کرچکے ہیں ، سپاہی مقبول حسین کا گھر مانسہرہ کیمپ ہی ٹھہرا اور یہیں رہائش پذیر ہوئے۔ آخر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سپاہی مقبول حسین شدید بیمار ہوئے سی ایم ایچ اٹک میں زیر علاج رہنے کے بعد 29اگست2018ء کو ہم سے جدا ہوگئے ۔
سپاہی مقبول حسین جو کہ کشمیر کا رہنے والا تھا تما م کشمیریوں کے سر فخر سے بلند کرگیا او رہمارے دلوں میں حب الوطنی کا جذبہ بیدار کرتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوا سپاہی مقبول حسین کا سفر آخرت بڑی شان و شوکت سے اختتام پذیر ہوا اور پوری قوم نے سپاہی مقبول حسین کی قربانیوںکو سراہا اور ہیر و کے لقب سے نوازا ۔ سپاہی مقبول حسین کو ستارہ جرأت سے نوازاگیا اور مانسرہ کیمپ ، راولپنڈی اور تراڑ کھل میں ملی شان و شوکت سے ان کی نماز جنازہ اد ا کی گئی اور ان کو سپرد خاک کردیا گیا ۔ جو اعزاز سپاہی مقبول حسین کو حاصل ہوا یہ صرف وہی لوگ حاصل کرسکتے ہیں جن کے دلوں میں جذبہ ایمانی اور جذبہ حب الوطنی موجود ہوورنہ اتنی آسانی سے یہ مقام کسی کو ملنے والا نہیں ۔
دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
میر ی مٹی سے بھی خوشبو ئے وفاآئے گی

حصہ