قائداعظم اور تعمیر ملت

539

خواجہ رضی حیدر
ہم پاکستانی ہیں اور ہم نے ایک طویل عرصہ تک برِّصغیر پاک و ہند پر حکومت کرنے کے بعد جب تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل دَورِ زوال دیکھا تو ہماری فکری قیادت کے ذمّہ داروں کو یہ خیال آیا کہ اس برِّصغیر میں مسلمانوں کی قومی حیثیت کیا ہے اور کیا اس زمین سے اُن کا وہی رشتہ استوار ہوچکا ہے جو یہاں کی مقامی آبادی یعنی ہندوئوں کا ہے۔ یہ خیال ماضی میں بھی ایک گونج کی صورت میں موجود تھا اور کسی حد تک اس کے ڈانڈے اکبر کے دینِ الٰہی سے پیوست تھے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بھی اس ضمن میں خیال آرائی کی لیکن اس خیال کی ضرورت، اہمیت اور شدت قابلِ غور حد تک پہلی مرتبہ زوال آمادہ ہندوستان میں محسوس کی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس خیال کی جو طوالتِ زمانہ کی بنا پر ایک سوال کی صورت اختیار کرگیا تھا۔ ابتداً فکری سطح پر اور بعد میں عملی طور پر اس سوال کی اس طرح توضیح و صورت گری کی گئی کہ نہ صرف دو قومی نظریہ کو واضح خطوط میسر آئے بلکہ مطالبۂ پاکستان کے لیے بھی راہ ہموار ہوتی چلی گئی۔ اگر ہم قیامِ پاکستان سے قبل کی ڈیڑھ سوسالہ تاریخ کا بنظر غائر مطالعہ کریں تو فکری اور عملی میدان میں تین افراد واضح طور پر مسلمانوں کو ملت اور قومیت کے حوالے سے دعوتِ اصلاح و عمل دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سرسیّد احمد خان، علامہ محمد اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح۔ اس لیے ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ان تینوں رہنمائوں کے فکر کی روشنی میں ہم ہندوستانی مسلمانوں میں ملت کے تصوّر کے فروغ کی اساس و بنیاد تلاش کریں۔
جہاں تک سرسیّد احمد خان کا تعلق ہے وہ اگرچہ ہندوستان کی جدید تاریخ میں مسلم قومیت کے حوالے سے ایک اساسی رجحان کے نمائندہ نظر آتے ہیں لیکن وطنیت، قومیت اور ملت کے حوالے سے اُن کے خیالات تفہیمی تضاد کے حامل ہوتے ہوئے بھی اپنے اندر ایک اکائی رکھتے ہیں۔ سرسیّد احمد خان نے متحدہ قومیت کی نفی کی ہے اور ایک مرحلہ پر انہوں نے حکومت وقت سے انتخابات کے حوالے سے واضح طور پر کہا کہ ہندوستان فی نفسہٖ ایک براعظم ہے اور اس میں مختلف اقوام اور مختلف مذاہب کے افراد کثرت سے رہتے ہیں اس لیے کوئی سادہ سا سیاسی نظام ان افراد کے باہمی تعلقات میں مزید خرابی پیدا کرے گا اور بڑی قوم چھوٹی قوم کے مطالبات پر غالب آجائے گی۔ ’’سرسیّد احمد خان کا سیاسی شعور اُن کو اس بات کا یقین دلاتا تھا کہ مغربی طرز کا کوئی بھی نظام ہندو اور مسلمانوں کے درمیان خلیج کو مزید وسیع کردے گا۔ سرسیّد کا نظریہ تعلیم بھی اُن کے سیاسی موقف کی تائید کرتا ہے۔ وہ اعلیٰ تعلیم کے ذریعہ مسلمانوں کو ایک مہذب اور اخلاقِ فاضلہ کی حامل قوم بنانا چاہتے تھے۔ جیسا کہ ایک تقریر میں انہوں نے کہا بھی ہے کہ ’’میری خوشی قوم کو قوم بنانے میں ہے۔‘‘ اپنے رفیق کار نواب محسن الملک کے نام ایک خط میں ہندی زباں کے نفاذ پر تبصرہ کرتے ہوئے سرسیّد احمد خان نے لکھا کہ ’’مسلمان ہرگز ہندی پر متفق نہیں ہوں گے۔ اور اگر ہندو اس پر مستعد ہوئے اور ہندی پر اصرار کیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہندو علیٰحدہ اور مسلمان علیٰحدہ ہوجائیں گے۔‘‘ سرسیّد احمد خان کا انتقال 1898 میں ہوا۔ گویا انیسویں صدی فکری اعتبار سے سرسیّد کی صدی تھی۔ بیسویں صدی میں علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کے افکار و نظریات عام ہوئے۔ علامہ اقبال پر ابتداً وطنیت کا غلبہ تھا لیکن وہ بہت جلد اس خیال سے متفق ہوگئے کہ ملت وطنیت سے بلند تر اور افضل تصوّر اجتماع ہے۔ اس فکری انقلاب کے بعد علامہ اقبال نے اپنے ایک خطبہ میں کہا کہ ہماری قومی زندگی کا تصوّر اسلام سے مشروط ہے۔ باالفاظِ دیگر اسلامی تصوّر ہمارا وہ ابدی گھر یا وطن ہے جس میں ہم اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ جو نسبت انگلستان کو انگریزوں سے اور جرمنی کو جرمنوں سے ہے وہ اسلام کو مسلمانوں سے ہے اور اس گھر میں جہاں خدا کی رسّی ہمارے ہاتھ سے چھوٹی ہمارا شیرازہ بکھرا۔ جیسا کہ علامہ اقبال نے اپنی ایک نظم ’وطنیت‘ میں کہا کہ ’’اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے۔‘‘ اقبال کے اس خیال کی تائید ایک معروف مستشرق Wilfred Cautwell Smith نے اپنی کتاب Islam in Modern History میں کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا تصوّرِ قومیت مذہب کی راہ سے پروان چڑھتا ہے اسی لیے بعض مسلم ممالک میں سیاسی حالات کی تبدیلی کے باوجود ملی وحدت کا شعور زندہ رہا۔ اسمتھ کی اس شہادت سے رسول اللہ ﷺ کے ایک صحابی حضرت سلمان فارسی کا ایک جواب یاد آجاتا ہے۔ حضرت سلمان فارسی سے کسی نے آپ کا نسب دریافت کیا تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا، ’’سلمان ابنِ اسلام‘‘۔ حضرت سلمان فارسی کا یہ جواب نہ صرف اسلامی تعلیمات کی رُوح کے عین مطابق ہے بلکہ اس بات کی گواہی بھی دیتا ہے کہ مسلمانوں کا تصوّرِ ملت اسلام سے وابستہ ہے۔ بقول اقبال:
اپنی ملت پر قیاس، اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمی
اسلام کے اخلاقی اور سیاسی نصب العین کی کوکھ سے معاشرتی اور عمرانی قوانین نے جنم لیا ہے اور یہی تصوّر ملت کی اساس ہے۔
قائداعظم محمد علی جناح ابتداً متحدہ قومیت کے مبلغ تھے لیکن سیاسی جدوجہد کے دوران اُن پر یہ بات واضح ہوگئی کہ برِّصغیر پاک و ہند میں ہندو اور مسلمان دو علیٰحدہ قومیں ہیں۔ دسمبر 1938 میں انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں مسلمانوں کو اُن کی علیٰحدہ قومیت کا احساس دلاتے ہوئے کہا کہ ’’ہندوئوں نے اخلاقی، ثقافتی اور سیاسی شعور کے ضروری اوصاف پیدا کرلیے ہیں اور ان اوصاف نے ہندوئوں میں ایک قومی احساس کی صورت اختیار کرلی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ مسلمان بھی ان ہی اوصاف کو اپنے اندر فروغ دیں۔ جب بحیثیت قوم یہ اوصاف آپ اپنے اندر پیدا کرلیں گے تو جس چیز کے حصول کا آپ ارادہ کریں گے وہ آپ کو حاصل ہوجائے گی۔‘‘
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ سے مارچ 1940 میں خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا، ’’ایک چیز قطعی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ہم اس برصغیر میں کسی طرح اقلیت نہیں ہیں۔ ہم اپنے نصب العین کے ساتھ بجائے خود ایک علیٰحدہ اور نمایاں قوم ہیں۔ اور یہ نصب العین اسلام ہے۔‘‘ قائداعظم نے اپنی تقاریر میں بار بار اس بات کی وضاحت اور صراحت کی ہے کہ ہم مسلمان اپنی تابندہ تہذیب اور تمدن کے لحاظ سے ایک قوم ہیں۔
قائداعظم کے نزدیک متحدہ وطنی قومیت اور مسلم قومیت میں ایک گہرا تضاد موجود تھا۔ اور اسی تضاد کے شدید احساس نے مسلمانوں کے اذہان میں دو قومی نظریہ کو راسخ کیا جس کے نتیجہ میں بالآخر ’پاکستان‘ وجود میں آیا۔
قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظم نے 18 اگست 1947 کو عیدالفطر کے موقع پر اپنے ایک پیغام میں اللہ ربّ العزت سے دُعا کی کہ ’’اے اللہ! ہم سب کو اپنے شاندار ماضی اور تابناک تاریخ کا اہل بنا دے اور ہمیں اتنی طاقت عطا فرما کہ ہم پاکستان کو حقیقی معنٰی میں جملہ اقوام عالم میں ایک عظیم قوم بنا دیں۔‘‘ اسی پیغام میں قائداعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’پاکستان کے عوام سے تعمیر ملت بھی اُنہی کوششوں اور قربانیوں کا تقاضا کرتی ہے جن کی حصول پاکستان کی منزل تک پہنچنے کے لیے ہم کو ضرورت پڑی تھی۔‘‘
آج جب کہ پاکستان کے قیام کو ستّر سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے ’تعمیر ملت‘ کا تقاضا اب بھی تروتازہ ہے۔ اب بھی اپنے قومی وجود کی جانب سے موہوم تشکیک ہمارے خیال و فکر کو پراگندہ کرتی رہتی ہے۔ اور اَب بھی ہمیں بار بار اپنے آپ کو اور دوسروں کو یہ یقین دلانے کی ضرورت محسوس ہوتی رہتی ہے کہ پاکستان قائم رہنے کے لیے بنا ہے اور قائم رہے گا۔ بار بار یہ کہنا پڑتا ہے کہ اپنی سرزمین سے محبت اور وفاداری ہر پاکستانی کا فرض ہے۔ گویا ہم آج بھی اپنے اندر ایک بے شعور سی غیر یقینی کا شکار ہیں۔ ہمارا جذبۂ قومیت آج بھی تلقینوں کا محتاج ہے۔ آج بھی ہمارے دلوں میں یہ سوال شدت سے ابھرتا ہے کہ کیا یہ ملک واقعی سلامت رہ سکتا ہے یا رہے گا۔ ہماری یہ صورتِ حال نہ تو کسی وطن دشمنی کی بنا پر ہے اور نہ ہی جذبۂ حبّ الوطنی کے فقدان کی بنا پر۔ بلکہ اس کی اصل وجہ برسراقتدار آنے والے مفاد پرست عناصر ہیں جنہوں نے اپنے قول و عمل میں دوعملی اختیار کی۔ ملک کے مفاد کو پسِ پشت ڈال کر اپنے مفاد پر نگاہ رکھی۔ قیامِ پاکستان کے مقاصد کیا تھے اور وہ محرک کیا تھا جو تحریکِ پاکستان کے دوران نصب العین کی صورت اختیار کرگیا تھا۔ یہ جاننے کی نہ کل ہمارے پاس فرصت تھی اور نہ آج ہے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران ہمارے سینے کروڑوں تھے لیکن دل ایک تھا۔ آج سینے تو موجود ہیں لیکن ملی شعور سے معمور دل معدوم ہوگیا ہے۔ آج ہم ذوقِ عمل سے محروم ہوچکے ہیں۔ ہمارے عمل کی سمت بدل گئی ہے۔ ہم نے قائداعظم محمد علی جناح کے بتائے ہوئے راستے سے منہ موڑ لیا ہے۔ اُن کی تقاریر و بیانات سے استفادہ نہیں کیا۔ چنانچہ اپنی ملی تاریخ سے لاعلمی نے ہمیں ایک اخلاقی اور روحانی زوال سے دوچار کردیا ہے۔ لہٰذا اخلاقی اور روحانی انقلاب کے لیے اب ہم کو ازسرِنو جدوجہد کرنا ہوگی کیوں کہ زندگی کی تکمیل بھی اسی میں ہے اور ملت کی تعمیر بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔ یاد رکھیے! جن قوموں کا جغرافیہ نیا ہوتا ہے اُن کو استحکام کے لیے اپنی ملی تاریخ کو تازہ رکھنا پڑتا ہے۔ وما علینا الا البلاغ

حصہ