بندوں پر اللہ کا رحم

899

سید مہرالدین افضل
سورۃ الاعراف کے مضامین کا خلاصہ
56 واں حصہ
(سورۃ الاعراف حاشیہ نمبر :140: 141: 142)
سورۃ الاعراف آیت 178 تا 181 میں اِرشاد ہوا :۔ جسے اللہ ہدایت بخشے بس وہی راہِِ راست پاتا ہے اور جس کو اللہ اپنی رہنمائی سے محروم کر دے وہی ناکام و نامراد ہو کر رہتا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جِن اور اِنسان اَیسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ اِن کے پاس دل ہیں مگر وہ اُن سے سوچتے نہیں، اِن کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ اُن سے دیکھتے نہیں، اِن کے پاس کان تو ہیں مگر وہ اُن سے سُنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں، اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے، اُس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو اور اُن لوگو ں کو چھوڑ دوجو اُس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہو جاتے ہیں۔ جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اس کا بدلہ وہ پاکر رہیں گے، ہماری مخلوق میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق ہدایت اور حق ہی کے مطابق انصاف کرتا ہے۔
بندوں پر اللہ کا رحم:۔
حضورؐ کے پاس کچھ قیدی آئے قیدیوں میں ایک عورت تھی جو پریشانی کے عالم میں اپنے بچے کی تلاش میں اِدھر اُدھر دوڑ رہی تھی، اِتنے میں اسے ایک بچہ ملا اُس نے فورا اُسے اپنے سینے سے لگا یا اور دودھ پلانے لگی۔ اِس موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھیوں سے پوچھا کیا تم خیال کر سکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال سکتی ہے؟ عرض کیا گیا کہ نہیں۔ جب تک اِس کو قدرت ہوگی یہ اَپنے بچے کو آگ میں نہیں پھینک سکتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس پر فرمایا کہ اَللہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا یہ عورت اپنے بچے پر مہربان ہو سکتی ہے۔ (بخاری و مسلم) سیرت کی کتابوں میں ایک واقعہ ملتا ہے کہ ایک سفر کے دوران آپؐ نے ایک جگہ قیام کیا، قریبی بستی کی ایک عورت نے اپنے تنور میں لشکر کے لیے روٹیاں پکائیں، جب پکا کر فارغ ہو گئی تو صحابہؓ سے کہنے لگی کہ میں تمہارے صاحب سے بات کرنا چاہتی ہوں۔ تو وہ اسے آپؐ پاس لے آئے۔ کہنے لگی میں آپؐ سے ایک بات پوچھنا چاہتی ہوں! فرمایا پوچھو، اس نے کہا میں ماں ہوں، تنور میں روٹیاں لگاتی ہوں، میرا ایک چھوٹا سا بچہ ہے، میں اُس کو آگ کے قریب نہیں آنے دیتی، کہ اس کو کہیں گرم ہوا نہ لگ جائے، اگر میں ماں ہو کر اپنے بچے کو گرم ہوا کا لگنا بھی پسند نہیں کرتی تو اللہ تعالیٰ بندے کا جہنم میں جانا کیسے پسند فرمائیں گے؟ آپؐ اُس عورت کی بات سر جھکا کر پوری توجہ سے سن رہے تھے اور اور آپ کی چشم مبارک سے آنسو رواں تھے اور آپ روتے رہے، یہاں تک کہ حضرت جبرائیلؑ اللہ کا پیغام لے کر آئے، کہ اس عورت کو بتا دیں کہ اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا، انہوں نے اپنی جانوں پر خود ظلم کیا۔
(اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جِن اور اِنسان اَیسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔) یہ انداز بیان وہی ہے جو انتہائی دکھ اور افسوس کے موقع پر اختیار کیا جاتا ہے۔ ذرا اِس جملے کو سمجھنے کے لیے ایک ماں کے دل سے سوچیے! ایک ایسی ماں جس کے کئی جوان بیٹے بری صحبت اور غلط ماحول میں جا کر بے راہ روی کا شکار ہوئے اور کوئی لڑائی جھگڑے میں مارا گیا، کوئی پولیس مقابلے میں مارا گیا اور کوئی جیل میں پڑا سڑ رہا ہے۔ جب وہ لوگوں سے یہ کہتی ہے کہ:۔ میں نے اپنے بیٹوں کو اِسی لیے پالا تھا کہ وہ سڑکوں پر مارے جائیں اور جیلوں میں سڑیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں نے تو انہیں پالا تھا اور تربیت دی تھی کہ یہ عزت کی زندگی جیئیں لیکن برا ہو اِس معاشر ے اور اِس کے لیڈروں کا، جنہوں نے میرے بیٹوں کو بہکا کر اِس برے انجام تک پنہچایا۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی اِنسانوں کو اس لیے پیدا نہیں کیا تھا کہ وہ جہنم میں جائیں۔ بلکہ اللہ نے تو انہیں پیدا کیا تھا دل، دماغ، آنکھیں اور کان دے کر، مگر ظالموں نے ان سے کوئی کام نہ لیا اور اپنی غلط کاریوں کی بدولت آخر کار جہنم کا ایندھن بن کر رہے۔
اللہ کے نام:۔
(اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے، اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو اور اُن لوگو ں کو چھوڑ دوجو اس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہو جاتے ہیں۔ جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اس کا بدلہ وہ پاکر رہیں گے) سورۃ کے اختتام پر نصیحت اور ملامت کے ملے جلے انداز میں لوگوں کو ان کی چند نمایاں ترین گمراہیوں پر وارننگ دی گئی ہے اور ساتھ ہی پیغمبر کی دعوت کے مقابلے میں غیر سنجیدگی، مذاق اور اِنکار کا جو رویّہ انہوں نے اختیار کر رکھا تھا۔ اُس کی غلطی کو سمجھاتے ہوئے اس کے بُرے انجام سے اُنہیں خبردار کیا گیا ہے۔ ان میں سب سے بڑی غلطی اللہ کے بارے تصور کی ہے اور اس کا پہلا اِظہار اللہ کے نام رکھنے سے ہوتا ہے۔ اِنسان اَپنی زبان میں چیزوں کے جو نام رکھتا ہے وہ دراصل اُن تصورات پر مبنی ہوتے ہیں جو اُس کے ذہن میں اُن چیزوں کے متعلق ہوا کرتے ہیں۔ تصور کی خرابی اور کمزوری کا اظہار نام کی خرابی اور کمی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ پھر چیزوں کے ساتھ انسان کا تعلق اور معاملہ بھی لازماً اُس تصور ہی سے تشکیل پاتا ہے جو وہ اپنے ذہن میں اس کے متعلق رکھتا ہے۔ تصور کی خرابی، کمزوری سے تعلق خراب اور کمزور ہوتا ہے اور تصور کے درست اور صحیح ہونے سے تعلق درست ہو تا ہے۔ یہ حقیقت جس طرح دنیا کی تمام چیزوں کے معاملے میں صحیح ہے اُسی طرح اللہ کے معاملے میں بھی صحیح ہے۔ اللہ کے لیے نام (چاہے وہ ذاتی نام ہوں یا صفاتی نام ہوں) تجویز کرنے میں انسان جو غلطی بھی کرتا ہے وہ دراصل اللہ کی ذات و صفات کے متعلق اس کے عقیدے کی غلطی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ پھر خدا کے متعلق اپنے تصور اور عقیدے میں انسان جتنی اور جیسی غلطی کرتا ہے، اتنی ہی اور ویسی ہی غلطی اُس سے اپنی زندگی کے پورے اخلاقی رویے کی تشکیل میں ہو جاتی ہے۔ کیونکہ انسان کے اخلاقی رویے کی تشکیل کا پورا انحصار اُس تصور پر ہے جو اس نے اللہ کے بارے میں اور اللہ کے ساتھ اپنے اور کائنات کے تعلق کے بارے میں قائم کیا ہو۔ اِسی لیے فرمایا کہ اللہ کے نام رکھنے میں غلطی کرنے سے بچو، اللہ کے لیے اچھے نام ہی موزوں ہیں اور اسے اُنہی نامو ں سے یاد کرنا چاہیے، اس کے نام تجویز کرنے میں غلطی کا انجام بہت بُرا ہے۔
’’اچھے ناموں‘‘ سے مراد وہ نام ہیں جن سے اللہ کی عظمت و بر تری، اُس کے تقدس اور پاکیزگی اور اس کی صفات کمالیہ کا اظہار ہوتا ہو اور اللہ کے نام رکھنے میں غلطی اور فکری کوتاہی یہ ہے کہ اسے ایسے نام دیے جائیں جو اس کے مرتبے سے کم تر ہوں۔ جو اس کے ادب کے خلاف ہوں۔ جن ناموں سے اس کی طرف کمزوری اور کمی ظاہر ہوتی ہو۔ یا جن سے اس کی ذاتِ اقدس و اعلیٰ کے متعلق کسی غلط عقیدے کا اظہار ہوتا ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی غلطی اور گمراہی ہے کہ مخلوقات میں کسی کے لیے ایسا نام رکھا جائے جو صرف اللہ کے لیے ہی موزوں ہو۔ پھر یہ فرمایا کہ اللہ کے نام رکھنے میں جو لوگ الحاد کرتے ہیں ان کو چھوڑدو۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ سیدھی طرح سمجھانے سے نہیں سمجھتے تو ان کی کج بحثیوں میں تم کو اُلجھنے کی کوئی ضرورت نہیں، اپنی گمراہی کا انجام وہ خود دیکھ لیں گے۔
اللہ سبٰحانہٗ و تعٰالٰی ہَم سَب کو اَپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اَور اُس فہم کے مُطابق دین کے سارے تقاضے، اَور مُطالبے پُورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

حصہ