بانی کون

561

ابنِ عباس
پچھلے ہفتے کچھ زیادہ ہی مصروفیت رہی اس لیے رات دیر سے گھر آنا پڑا ہمارے گھر کا یہ اصول ہے کہ جب تک گھر کے تمام افراد نہ آجائیں تب تک مرکزی دروازہ بھی کھلا ہی رہتا ہے،اس روز بھی میں خاصی دیر سے گھر آیا رات گہری ہو چکی تھی اس لیے میرے آنے سے قبل ہی تمام گھر والے نیند کی وادیوں کو جا چکے تھے ، سارے دن کی تھکن اور شدید بھوک کے باوجود میں کسی کو جگانے کے بجائے قریب رکھی ایزی چیئر پر جا بیٹھا،اور سامنے میز پر رکھی کتابوں میں سے تاریخ پاکستان پر لکھی کتاب کا مطالعہ کرنے لگا اور کتاب پڑھتے پڑھتے نہ جانے کب خوابوں کی اس نگرجا پہنچا جہاں ایک محفل میں حضرت قائد اعظم محمد علی جناح اکابرین تحریک پاکستان کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھے، میں بھی ان اکابرین کی باتیں سننے کے لیے اس محفل میں جا بیٹھا،میرے وہاں پہنچتے ہی قائد اعظم نے بڑی دھیمی آواز میں خان لیاقت علی خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اے قائد ملت تمہیں یاد ہے میں نے کہاتھا کہ مسلم اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں جن کا دین،مذہب،تہذیب،زبان،ثقافت،منبع علم،تاریخ غرض یہ کہ سب کچھ مختلف ہے،یہی نہیں بلکہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان خلیج اس قدر وسیع ہے کہ اسے کبھی بھی پاٹا نہیں جاسکتا جو ایک دوسرے کے ساتھ ایک چھت کے نیچے کھانا کھانے کو تیار نہیں تو انہیں ایک ساتھ کس طرح رکھا جاسکتا ہے،میں نے یہ بھی کہاتھا کہ ہندو گائے کی عبادت کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان اس کو کھانا چاہتے ہیں پھر کیسی مصالحت جب مسلمانوں کا رہن سہن اور طرز رہائش بھی مختلف ہو تواس صورت حال میں کروڑوں مسلمانوں کو اقلیت قرار دے کر ہمیشہ کے لیے ہندو غلامی میں نہیں دیا جا سکتا،اگر ایسا ہوا تو یہ ہندوستان میں مسلمانوں کی مکمل تباہی کاسبب ہوگا،لہٰذا مسلمانوں کو ہندوستان کی تقسیم پر زور دیتے ہوئے ایک ایسی ریاست کے حصول کے لیے کوششیں کرنا ہوں گی جہاں مسلمان آزادی سے رہ سکیں۔
قائدملت تمہیں یہ بھی یاد ہوگا کہ میں نے یہ بھی وضاحت کی تھی کہ اگر مسلمان ایک باعزت اور آزاد قوم کی طرح زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے ایک ہی راستہ کھلاہے اور وہ پاکستان کے حصول کے لیے لڑنا ہے میں نے کہا تھا کہ پاکستان کے لیے ہی زندہ رہو اور اگر ضروری ہو تو پاکستان کے حصول کے لیے مر جانے سے بھی گریز نہ کرو،قائد ملت ساری دنیا گواہ ہے کہ مسلمانان ہند نے میری باتیں تسلیم کرتے ہوئے ہمارا ساتھ دیا اور ریاست پاکستان کے حصول کی جدو جہد کا آغاز کردیا،ایسی ریاست کی جدو جہدکا آغاز جہاں مسلمان اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق قرآن اور سنت کی روشنی میں اپنی زندگی گزار سکیں اور دنیا کے لیے ایک مثال قائم کر سکیں،ایسی ریاست جہاں عوامی حکومت ہوگی،جہاں لوٹ کھسوٹ سے پاک معاشرے کی تشکیل ہو،جہاں غریب کو دو وقت کی روٹی نصیب ہو,جہاں تعلیم اور صحت ریاست کی ذمے داری ہو،جہاں غریب کو اس کی دہلیز پر انصاف ملے،جہاں حکومت کی جانب سے دی جانے والی سہولیات سے ہر شہری مستفید ہو،جہاں اقلیتوں کے حقوق کا بھی تحفظ کیا جائے،جہاں وڈیروں،سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کی حاکمیت نہ ہو،ایسی ریاست جہاں صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے نظام ہی کا نفاذ ہو۔
قائد ملت تمہیں تو سب یاد ہو گا کہ منزل کے حصول کی جدو جہد کرنے والوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے انگریز اور ہندو گٹھ جوڑ کے نتیجے میں لاکھوں مسلمان بے گھر کر دیے گئے آخر کار جدو جہد رنگ لائی اور لاکھوں شہداء کی قربانیوں کے نتیجے میں مملکت خداداد وجود میں آئی،آج پاکستان کو قائم ہوئے 70سال ہوچکے ہیں لیکن اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود اب تک پاکستان، پاکستان نہ بن سکا۔

پاکستان کا اِک مقصد تھا
مقصد پاکستان نہیں تھا

یعنی وہ پاکستان جس کا وعدہ ہم نے تحریک پاکستان کے سپاہیوں سے کیا تھا،
قائد ملت! میں یہی سوچ سوچ کر پریشان رہتا ہوں کہ میرے ملک کو کس سمیت لے جایا جا رہا ہے، آ زادی حاصل کرنے کے بعد زیادہ تر ملک پر آمروں کا راج رہا جمہوریت بحال تو ان کی طرز حکمرانی بھی کسی ڈکٹیٹر سے کم نہ تھی ہر حکومت میں کرپشن عروج پر رہی، طاقت اور پیسے کے بل پر حکومتیں تشکیل دی جاتی رہی ہیں، ہر آنے والے وزیر اعظم نے ملک کی دولت لوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں بنائیں، کسی کو بھی نظریہ پاکستان یاد نہ رہا ہر کوئی اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہے مجھے جس سول بے رو کریسی پر مان تھا اسی نے سب سے زیادہ مسائل کھڑے کیے یہی وجہ ہے کہ لوگ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں سب نے مجھ سے کیا وعدہ بھلا دیا۔
قائد ملت ایک طرف یہ معاملات ہیں تو دوسری طرف پاکستان میں وزیر اعظم کا خالی عہدہ میری پریشانیوں میں اضافے کا باعث بن رہا ہے سنا ہے ملک گزشتہ بارہ دنوں سے وزیراعظم کی تعیناتی کے بغیرہی چلایا جارہا ہے،کتنے دکھ اور تکلیف کی بات ہے بجائے اس فرسودہ نظام کے خلاف جس نے عوام کو غلام بنا رکھا ہے اقدامات کیے جائیں، ملک کو لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے۔
دورانِ گفتگومحفل میں انتہائی خاموشی تھی سب ہی اپنے محبوب قائد کی باتیں بڑی توجہ سے سن رہے تھے ایک طرف مادرملت محترمہ فاطمہ جناح تشریف فرما تھیں تو دوسری طرف محترم نورالامین سر جھکائے افسردہ بیٹھے تھے جبکہ قائد ملت خان لیاقت علی خان کی حالت ناقابل بیان تھی،کسی کے پاس بانی پاکستان کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات کا کوئی بھی جواب نہ تھا۔
خاصی دیر خاموش رہنے کے بعد لیاقت علی خان بولے،اے میرے قائد رنجیدہ نہ ہوں خدا ہمارے ملک کا نگہبان ہے اسی نے ہماری مدد کی تھی اور وہی مملکت پاکستان کی حفاظت بھی فرمائے گا آپ دل چھوٹا نہ کیجیے اللہ ہماری نیتوں کو خوب جانتا ہے جس نے ہمیں زمین میں طاقت نہ رکھنے کے باوجود اتنے بڑے ملک سے نوازا۔پاکستان کا وجود رب کی رضا ہے اور جس کام میں کائنات بنانے والے کی مرضی و منشا شامل ہو اسے سازشوں سے کمزور نہیں کیا جاسکتا،جس بنیاد پر پاکستان کا قیام ہوا، وہ ہو کر ہی رہے گا ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب انہی سیاسی جماعتوں میں سے ایسے انقلابی نوجوان ابھر کر سامنے آئیں گے جن کی قیادت میں پاکستان دنیا بھر کے مظلوموں کی دادرسی کرے گا ان شاء اللہ آنے والا وقت ہمارا ہی ہے ظلم اور ناانصافی پر مبنی نظام زیادہ دیر نہیں چل سکتا،ہماری منزل ترقی خوشحالی اور پرامن پاکستان ہے۔
جہاں تک وزیر اعظم کی تقرری کا معاملہ ہے تو وہ ہو چکی ہے عمران خان نے ملک کے نئے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔
اے قائد ملت !کیا کہہ رہے ہو، کون وزیر اعظم ہے؟
جناح صاحب عمران خان ملک کے وزیر اعظم ہیں۔
قائد ملت اگر عمران خان نے وزیر اعظم پاکستان کا حلف اٹھا لیا ہے تواب تک مجھے خبر کیوں نہ ہوئی مجھ سے کیوں چھپایا گیا اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ کیا عمران خان اس قدر مصروف ہیں کہ ان کے پاس مجھ سے ملنے تک کا وقت نہیں۔
جناح صاحب میں تو خود ان کی راہیں تک رہا ہوں عمران خان نے ناجانے کیوں یہ رویہ اختیار کیا ہوا ہے محترم نورالامین نے بتایا ہے کہ جب سے جناح صاحب نے پاکستان بنایا ہے تب سے ساری دنیا کے وزیراعظم جو بھی پاکستان آتے ہیں قائداعظم سے ملنے آتے ہیں عمران خان نے تو نیا پاکستان بنایا ہے اس لیے مجھے لگتا ہے کہ عمران خان کی راہ تکنے کے بجائے نیا پاکستان بنانے کی مبارک باد دینے ہمیںخود بنی گالہ جانا پڑے گا۔

حصہ