صدر مملکت کون ہوگا؟۔

487

محمد انور
مسلمانوں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے گزشتہ ہفتے کی سب سے بڑی خبر تو یہی ہے کہ” ہالینڈ کے سیاستدان نے دنیا بھر میں مسلمانوں میں اشتعال کا سبب بننے والے گستاخانہ خاکوں کے متنازع مقابلے کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا ہے”۔
یادرہے کہ ہالینڈ کی اسلام مخالف جماعت فریڈم پارٹی آف ڈچ کے رہنما گیرٹ ویلڈرز نے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کے لیے پیغمبراسلام کے گستاخانہ خاکے بنانے کے متنازع مقابلے کا اعلان کیا تھا۔
یقینا اس کامیابی کے پیچھے پاکستان کے نومنتخب وزیراعظم عمران خان کی جانب سے فوری اور سخت ردعمل کا اظہار بھی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے بھی گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کی منسوخی کو پاکستانی حکومت اور قوم کے لیے بڑی کامیابی قرار دیا۔ یہ بھی یاد رہے کہ ان مقابلوں کے انعقاد کے اعلان کے بعد مسلمانوں کے سخت ردعمل کو دیکھتے ہوئے ہالینڈ کے وزیر اعظم نے گستاخانہ خاکوں کے مقابلے سے اپنی حکومت کو الگ کر لیا تھا۔
ملک میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد گستاخانہ خاکوں کو روکنے کی خوشخبری کی بازگشت اپنی جگہ لیکن تحریک انصاف کو ابھی مملکت کے سربراہ کا بھی انتخاب جیتنا ہے۔ اس اہم ترین عہدے کے لیے تحریک انصاف کے بانی و چیئرمین عمران خان کراچی کے دانتوں کے معالج ڈاکٹر عارف علوی کو نامزد کرچکے ہیں۔ لیکن ان کی کامیابی یقینی ہوگی یا نہیں یہ سوال ابھی باقی ہے۔ جبکہ سینٹ میں سب سے زیادہ نشستیں رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی نے بیرسٹر اعتزاز احسن کو نامزد کیا ہے۔ دوسری طرف جے یو آئی ف اور متحدہ مجلس عمل کے رہنما مولانا فضل الرحمن بھی صدر کے عہدے کے لیے ایم ایم اے کے نامزد امیدوار ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ متحدہ اپوزیشن کی طرف سے مجھ پر اعتماد کیا گیا ہے تو مجھے یقین ہے کہ ” پاکستان پیپلز پارٹی( پی پی پی ) اپنا امیدوار دستبردار کرے گی لیکن اگر اگر پیپلز پارٹی اعتراز احسن کو دستبردار نہیں کراتی تو اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ حکومت کو رضا مندی کے ساتھ کامیابی کے مواقع دیے جارہے ہیں”۔
مولانا کی اس بات سے اندازہ ہورہا ہے کہ وہ صدر بننے کی خواہش تو رکھتے ہیں مگر نمبر گیم اور متحدہ اپوزیشن کی طرف سے ان کی حمایت کا واضح اعلان نہ ہونے کی وجہ سے انہیں صدر کے انتخاب میں ناکامی کے خدشات بھی ہیں۔اس کے باوجود وہ بضد ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ صدارتی انتخاب میں متحدہ اپوزیشن کی کامیابی کے امکانات بہت روشن ہیں اور ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری ادارے مستحکم ہوں۔
یاد رہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز نے پیپلز پارٹی سے مشترکہ صدارتی امیدوار کے نام پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے مولانا فضل الرحمان کو اپنا صدارتی امیدوار تسلیم کرلیا ہے۔ لیکن مولانا فضل الرحمان کی کامیابی پیپلز پارٹی کی جانب سے اپنا امیدوار دستبردار نہیں کرنے اور مولانا کی حمایت کرنے تک مشکوک ہی نہیں بلکہ ناممکن رہے گی۔
تاہم یہ بات بھی درست ہے کہ تحریک انصاف کو بھی اپنے صدارتی امیدوار عارف علوی کی کامیابی کے لیے سیاسی حربے استعمال کرنا اور اس انتخاب کے لیے اپنے ووٹرز پر کڑی نظر رکھنی ہوگی۔ کیونکہ اگر حکومتی جماعت کی اتحادی جماعتوں نے صدر کے لیے اپنا ووٹ ہی ٹی آئی کے امیدوار عارف علوی کو نہیں دیا تو ان کی کامیابی کے امکانات شکست میں بدل سکتے ہیں۔ چونکہ اب تحریک انصاف کو اپنا صدر مملکت منتخب کرانا ” ناک ” کا مسلہ ہے اس لیے دیکھا جارہا ہے کہ وہ اپنے ناراض ایم این اے عامر لیاقت حسین کے ساتھ عامر لیاقت کی سابقہ جماعت ایم کیو ایم کو بھی راضی رکھنے کے لیے مسلسل ان کے رابطے میں ہیں۔ اس مقصد کے لیے جمعے کو بھی ایم کیو ایم پاکستان کے ایک وفد نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی اور ان سے دیگر مطالبات کے ساتھ ان کے ممبر قومی اسمبلی امین الحق کو وفاقی وزیر بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
کیونکہ بدقسمتی سے ہماری ملک میں سیاسی جماعتیں اور ان کے منتخب نمائندے ہمیشہ ہی اپنی ” اہمیت ” کو جتانے میں لگے رہتے ہیں اس لیے ایسے انتخابات میں کامیابی کے لیے میدان میں موجود پارٹیوں کو کڑوے گھونٹ بھی پینا پڑتے ہیں۔جیسے ان دنوں تحریک انصاف کو پینا پڑ رہے ہونگے۔
صدارتی انتخاب کے لیے چونکہ پیپلز پارٹی سینیٹ میں زیادہ سیٹیں رکھنے کی وجہ سے اپنے امیدوار اعتزاز احسن کو کامیاب کرانے کی خواہش رکھتی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اس مقصد کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں اس لیے بھی پی ٹی آئی سخت پریشانی میں نظر آتی ہے۔
اہم بات یہ بھی ہے کہ جس طرح پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اپنی پارٹی کے انتخابی امیدواروں کے لیے سرگرم رہتے ہیں اور اب بھی اپنی پارٹی کے صدارتی امیدوار کی کامیابی کے لیے کوششیں کررہے ہیں اس طرح عارف علوی کو صدر بنانے کے لیے ان کی پارٹی اور چیرمین عمران خان فعال نظر نہیں آرہے۔ ایسی صورت میں اعتزاز احسن صدر مملکت کے انتخاب میں کامیاب ہوسکتے ہیں اگر وہ کامیاب ہوجائیں تو یہ شبہ پیدا ہوگا کہ صدر کے انتخاب کے لیے بھی اسٹبلشمنٹ نے اپنا ” غیبی کردار ” ادا کیا ہے۔ خیال رہے کہ صدر کا انتخاب 4 ستمبر کو ہوگا جبکہ موجودہ صدر ممنون حسین کی صدر کے عہدے پر فائز رہنے کی مدت 9 ستمبر کو ختم ہورہی ہے۔

حصہ