نئی حکومت اور کھیل

509

راشد عزیز
نئی حکومت آگئی اور کہیں تبدیلی آئی ہو یا نہیں پاکستان کرکٹ بورڈ میں آگئی۔ نجم سیٹھی نے ازخود استعفیٰ دے دیا۔ وزیراعظم عمران خان نے‘ جن کی اوّلین شناخت کرکٹر کی ہے‘ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے سابق چیئرمین احسان مانی کو بورڈ کا نیا چیئرمین نامزد کر دیا ہے جس کے ساتھ ہی بورڈ میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ بورڈ کے کرتا دھرتا خوف زدہ ہیں‘ نوکریاں جانے کا ڈر اپنی جگہ اصل خوف اس بات کا ہے کیہ اگر جانچ پڑتال ہوئی تو پھر بہت لوگ پکڑ میں آئیں گے۔ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ بورڈ میں سب کچھ ٹھیک نہیں۔ نجم سیٹھی صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے ان کے دور میں کرکٹ کی سرگرمیوں میں تو اضافہ ہوا خاص طور پر ایسی سرگرمیوں میں جن میں پیسوں اور انسپانسر شپ کا حصہ بہت بڑا تھا لیکن اپنے پورے دور میں انھوں نے ایک بار بھی بورڈ کے اکاؤنٹس کا آڈٹ نہیں کرایا اور خدشہ ہے کہ اگر آڈٹ ہوا تو پھر بڑے بڑے انکشاف ہوں گے۔ ابتدائی طور پر خبر آئی ہے کہ بورڈ کے کئی افسران‘ جو سیٹھی صاحب کے فیورٹ تھے اور بہت بڑی بڑی تنخواہیں وصول کر رہے تھے‘ ان کی ڈگریاں جعلی ہیں۔
کرکٹ بورڈ کے معاملات اور اس کی کارکردگی کے بارے میں آئندہ تفصیل سے بات ہوگی فی الحال کرنے کی بات یہ ہے کہ آنے والی نئی حکومت کو دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں کھیلوں کے ازسرنو فروغ پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ صرف انٹرنیشنل ایونٹس کا انعقاد کرکے اور غیر ملکی دورے کرنے منتظمین کو کرپشن کرنے اور اپنیی جیبوں کو بھرنے کا موقع فراہم کرنے کے بجائے مقامی سطح پر ہر شہر اور گاؤں کی سطح پر کھیلوں کی سہولیات کی فراہمی اور لوکل ٹورنامنٹس کے انعقاد اور عام لوگوں کو سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ چھپا ہوا ٹیلنٹ ابھر کر سامنے آسکے۔ جس طرح ماضی میں کئی کھیلوں میں پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر نام پیدا کیا تھا اس مقام کو دوبارہ حاصل کیا جاسکے۔
اگر کھیلوں کے حوالے سے بات کی جائے تو 1970 سے 1990 تک کا دور سب سے زیادہ کامیاب اور یادگار اس دور میں خاص طور پر جنرل ضیا الحق کے 1977 کے مارشل لاء کے بعد نہ صرف بین الاقوامی سطح پر مختلف کھیلوں میں پاکستان کے کھلاڑیوں نے بڑا نام کمایا اور قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ کیا بلکہ حکومت کی کھیلوں اور کھلاڑیوں کی سرپرستی کی خصوصی پالیسی کے نتیجے میں معاشی طور پر بھی کھلاڑی خوش حال ہوئے۔ اس دوران پاکستان کرکٹ‘ ہاکی اور اسکواش کے میدانوں میں نمبر ایک بھی رہا۔ پاکستان کی ہاکی ٹیم کئی بار عالمی کپ‘ ایشیا کپ اور چیمپئنز ٹرافی کی فاتح رہی اس دوران پاکستان کی نمائندگی جن کھلاڑیوں نے کی ان کا شمار ہاکی کے آل ٹائم گریٹ کھلاڑیوں میں ہوتا ہے ان میں خالد محمود‘ عبدالوحید خان۱‘ اصلاح الدین‘ سمیع اللہ‘ شہناز شیخ‘ حنیف خان‘ حسن سردار‘ اختر رسول‘ سعید انور‘ قاسم ضیا‘ سلیم شیروانی‘ منورالزماں‘ منظور جونیئر‘ منیر ڈار‘ تنویر ڈار‘ طارق عزیز‘ رشید جونیئر‘ منظور الحسن اور ایسے بہت سے کھلاڑی شامل تھے جن کا نام ہاکی کی تاریخ میں ہمیشہ سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا۔ اس یادگار دور میں ایک طویل حصہ ایسا رہا جب کہ ائر مارشل (ریٹائرڈ) نور خان پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر رہے اور ان کی نگرانی میں نہ صرف پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر نام کمایا بلکہ مقامی سطح پر بھی ہاکی کو اس طرح آرگنائز کیا گیا کہ ہر چھوٹے بڑے شہر سے ٹیلنٹ ابھر کر سامنے آیا اور اچھے کھلاڑیوں کی اتنی بہتات ہوگئی کہ سخت مقابلے کی وجہ سے سینکڑوں باصلاحیت اور صفِ اوّل کے کھلاڑی قومی ٹیم میں جانے سے محروم رہ گئے۔
ہاکی کی طرح یہ دور کرکٹ کے حوالے سے بھی بڑا سنہری دور نظر آتا ہے خاص طور پر 1977ء کے بعد جب پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے دنیا کی تمام ٹیموں کو نہ صرف پاکستان بلکہ ان کے اپنے ملکوں میں جا کر شکست دی اور پھر عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے 1992 کا عالمی کپ بھی جیت لیا جو کرکٹ کے میدان میں پاکستان کا اب تک کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔ اسی دور میں پاکستان نے پہلی بار انگلینڈ میں انگلینڈ کے خلاف سیریز جیتی‘ بھارت کو بھارت میں ہرایا‘ ویسٹ انڈیز کو‘ جسے ہرانا تقریباً ناممکن سمجھا جاتا تھا‘ انہی کی سرزمین پر شکست دی۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو ہرایا اس دوران پاکستان کے بے شمار کھلاڑیوں نے انگلینڈ کی کاؤنٹی کرکٹ میں نام کمایا اور کئی کاؤنٹیز کی قیادت بھی کی۔
اس زریں دور میں پاکستان نے جو نامور کھلاڑی پیدا کیے ان میں عمران خان‘ جاوید میانداد‘ وسیم اکرم‘ عبدالقادر‘ وسیم راجا‘ وقار یونس‘ مشتاق احمد‘ ثقلین مشتاق راشد لطیف‘ انضمام الحق‘ محسن خان‘ سعید انور‘ سلیم ملک‘ اعجاز احمد‘ عامر سہیل‘ سرفراز نواز‘ مدثر نذر‘ معین خان‘ اقبال قاسم‘ عاقب جاوید اور لاتعداد ایسے کھلاڑی شامل ہیں جو اپنے متعدد کارناموں کی وجہ سے کرکٹ ریکارڈ بک کا حصہ بن گئے ہیں اور ان کے پائے کے کھلاڑی اب مشکل ہی سے پیدا ہو رہے ہیں۔ اس دور کی کرکٹ کو کامیابی سے ہمکنار کرانے میں بھی نور خان کا بڑا کردار تھا جو ہاکی فیڈریشن کے ساتھ ساتھ کرکٹ کنٹرول بورڈ کے چیئرمین بھی رہے اور اُس دور میں پاکستان کی دومیسٹک کرکٹ بھی بہت اچھے انداز میں آرگنائز ہوئے جس کے نتیجے میں باصلاحیت نوجوان کرکٹرز ابھر کر سامنے آئے۔
کرکٹ اور ہاکی کی طرح یہ دور اسکواش کے حوالے سے بھی بڑا سنہری دور رہا اور عجیب بات ہے کہ پاکستان اسکواش ریکٹ فیڈریشن کی سربراہی بھی ائر مارشل نور خان تھے اور اسی دور میں نور خان پاکستان انٹرنیشنل ائر لائن (پی آئی اے) کے بھی چیئرمین تھے۔ کراچی میں کشمیر روڈ پر پاکستان کا پہلا بین الاقوامی معیار کا اسکواش کمپلیکس بنوایا جہاں عرصے تک انٹرنیشنل ٹورنامنٹس بھی منعقد ہوئے جن میں دنیا کے اس دور کے تمام اسکوائش کھلاڑیوں نے شرکت کی۔ برسہا برس تک پاکستانی کھلاڑی برٹش اوپن اور دیگر بین الاقوامی ٹورنامنٹس جیتتے رہے۔ یوں پاکستان نے ابتدا ہی سے اسکواش کے صفِ اوّل کے کھلاڑی پیدا کیے تھے جن میں کئی بار کے عالمی چیمپئن ہاشم خان اور روشن خان شامل ہیں لیکن مذکورہ دور میں اسکواش کھلاڑیوں کی بہت بڑی تعداد اوپر آئی جن میں قمر زمان‘ محب اللہ خان‘ طورسم خان‘ گوگی علاء الدین اور جہانگیر خان بھی شامل تھے جنہوں نے ایک طویل عرصے اس کھیل پر راج کیا۔
کرکٹ ہاکی اور اسکواش کے علاوہ دیگر کھیلوں میں اگرچہ بین الاقوامی سطح پر بہت نام نہیں کمایا لیکن اس دور میں فٹ بال‘ ٹینس‘ بیڈمنٹن اور کئی اور کھیلوں میں مقامی طور پر اچھے مقابلے ہوتے تھے لاتعداد ٹونارمنٹس کا انعقاد ہوتا تھا‘ اسکول‘ کالج اور یونیورسٹیز کی سطح پر بھی کھیلوں کا معیار اچھا تھا کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے انتظامات تھے لیکن رفتہ رفتہ دیگر شعبوں کی طرح کھیلوں میں حالات بہتر ہونے کے بجائے بد سے بد تر ہوتے چلے گئے ملک کے بڑے شہروں خاص طور پر کراچی میں کھیلوں کے میدان بننے کے بجائے کم ہوتے چلے گئے۔ جو میدان پہلے سے موجود تھے ان پر قبضے ہوگئے اور ہمارے نوجوان صحت مند سرگرمیوں سے دور ہوتے چلے گئے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایک کھلاڑی وزیراعظم کے اقتدار میں آنے کے بعد اب کیا ہوتا ہے؟

حصہ