خوف و دہشت کے بادل چھٹ کر نہیں دے رہے

345

برصغیر انڈوپاک کے مسلمان گزشتہ کئی صدیوں سے خوف و دہشت کے ماحول میں زندگی گزارتے چلے آرہے ہیں۔ اس خطے کے ساتھ اگر افغانستان کو بھی شامل کر لیا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ مسلمان سلاطین کا آخری مغل دور بھی ختم ہوئے کوئی تین صدیاں تو ہوہی چکی ہیں جس کے بعد سے دور غلامی کا ایک طویل دور کاٹنے اور تقسیم ہند کے بعد پاکستان بن جانے کے بعد بھی خوف و دہشت کے بادل چھٹ کر نہیں دیے اور اپنی شکلیں بدل بدل کر کسی نہ کسی روپ میں تا حال انڈوپاک کے مسلمانوں چھائے ہوئے ہیں۔
مغلیہ دور کی آخری ایک صدی بھی کوئی سکون کی نہیں تھی۔ تیزی سے زوال پذیر بادشاہت اپنے ہی اندر اٹھنے والی بغاوتوں کے حصار میں رہی اور اپنے ہی ہاتھوں اپنے مسلمان بھائیوں کا خون بہتا رہا۔ ہندوستان پر حکومت برطانیہ کے قبضے کے بعد ہنوؤں کی بھی خوب بن آئی اور ان کو بھی مسلمانوں کا خون بہانے کے مواقع ملے جس کا سلسلہ آج بھی وقفے وقفے سے کسی نہ کسی بہانے جاری ہے۔
انگریز دور میں کئی مواقعوں پر اس بات کا امکان پیدا ہوا کہ ہندوستان سے انگریزوں کو بوریا بستر لپیٹ کر پویلین (برطانیہ) کی سیر کرادی جائے لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ اس حقیقت سے کسی کو مفر نہیں کہ ہندوستان سے فرنگیوں کا بوریا بستر گول کرنے میں سب سے زیادہ اخلاص اور کردار مسلمانوں ہی کا تھا اس لیے ناکامی کی صورت میں اس کی سزا بھی مسلمانوں ہی کو بھگتنی پڑی۔ فرنگیوں کے 200 سالہ دور میں مزاحمت کا سامنا اگر فرنگیوں کو کرنا پڑا تو وہ مسلمان ہی تھے۔ جس خطے میں آج پاکستان ہے یہاں بھی انگریزوں کو قبائلی علاقوں میں وہ گل کھلانے کے مواقع نہ مل سکیجو ہندوستان کے وسطی اور جنوبی علاقوں میں ملے۔
200 سالہ انگریز دور میں گوکہ مزاحمتوں کا سلسلہ چلتا رہا لیکن دو مواقع ایسے بھی آئے جب انگریز اس بات پر مجبور دیکھے گئے کہ وہ انڈو پاک کی سر زمین کو خیر آباد کہہ دیں۔ 1857 کی بغاوت جس کو جنگ آزادی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، کا ایک ایسا مرحلہ بھی جب یہ امید ہو چلی تھی کہ یہ خطہ انگریزوں سے پاک ہو جائے گا۔ یہ جنگ یا جد و جہد گو کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ جد و جہد تھی لیکن بد قسمتی سے ہندوؤں کی منافقانہ پالیسیوں کی وجہ سے اس کا انجام ناکامی پر ختم ہوا۔ ایک جانب تو ہندوؤں نے منافقت کا مظاہرہ کیا دوسری جانب انگریزوں نے بھی اس بغاوت کا سارا کا سارا ملبہ مسلمانوں پر ڈال دیا جس کے نتیجے میں لگ بھگ 7 سے آٹھ دھائیاں مسلمانوں پر قیامت بن کر ٹوٹتی رہیں۔ انگریزوں اور ہندوؤں، دونوں نے مل کر مسلمانوں کو جتنا کچل سکتے تھے کچلا۔ یہ 7 یا آٹھ دھائیاں ایسی قیامت کی گزریں کہ مسلمان ہر شعبہ زندگی میں کچل کررکھ دیے گئے اور ان پر انسانی حقوق کے سارے دروازے بند کرکیعرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔
انگریزوں کو ہندوستان سے بے دخل کردینے کا سنہری موقعہ ایک مرتبہ اس وقت بھی میسر آیا جب خلافت پر حملہ ہوا جس کے دفع کے لیے بر صغیر کے مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہندوستان کی بڑی بڑی اور مضبوط ترین سیاسی جماعتیں، جن میں کانگریس اور مسلم لیگ بھی شال تھیں، اس تحریک کے سامنے اْس دیے کی مانند ہو گئیں جس کو سورج کے سامنے رکھ دیا جائے۔ ایسے موقعہ پر جب ہندوستان پر قابض انگریز اپنے مستقبل کے متعلق بہت کچھ سوچنے پر مجبور نظر آرہے تھے تو اہل ترک جو اس وقت خلافت اسلامیہ پر متمکن تھے انھوں سے خلافت سے دست برداری کا اعلان کر دیا اور اس طرح تحرک خلافت کے سمندر کا سارا طوفان جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور یوں مسلمان ایک بار پھر دہشت گردی کی لپیٹ میں آگئے۔
پاکستان کس طرح وجود میں آیا یہ بھی ایک خونچکاں داستان ہے۔ پاکستان کے قیام سے کہیں پہلیخوف و دہشت کی جو فضا تھی وہ بھی مسلمانوں کے کلیجے پھاڑ دینے کے مترادف تھی۔ گلی گلی محلے محلے دہشت نے اپنے پاؤں گاڑ لیے تھے جس کی وجہ سے مسلمانوں کا دن کا چین اور راتوں کا سکون بر باد ہو کر رہ گیا تھا۔
گھروں کو نذر آتش کیا جارہا تھا۔ گلیاں، سڑکیں اور بازار برباد کیے جارہے تھے۔ خواتین اور بچیوں کی عزتیں تار تار کی جارہی تھیں۔ معصوم بچوں کو ہوا میں اچھال کر ان کو نیزوں، خنجروں اور تلواروں کی انیوں میں پرویا جارہا تھا۔ مسلمانوں کی ٹانگوں پر ٹانگ رکھ کر ان کو چیرا جارہا تھا۔ قتل و غارت گری اتنی عام ہو چکی تھی کہ ہندوستان کی کوئی گلی محفوظ نہیں رہ گئی تھی۔ یہ سلسلہ تقریباً ایک دھائی سے زیادہ جاری رہا۔ یہ دہشتگردی وہ قوم کر رہی تھی جس کے نزدیک کسی بھی کیڑے مکوڑے تک کی زندگی چھین لینا بہت بڑا پاپ تھا۔ جس کے نزدیک ایک چیونٹی سے اس کا حق زندگی چھین لینا بہت ہی بڑا پاپ ہو اس کے نزدیک مسلمان کی جان لے لینا کار ثواب سمجھا گیا جس سے اس بات کا اندازہ لگا لینا کوئی الجبرے کا سوال نہیں تھا کہ ہندوؤں کے نزدیک مسلمانوں کی حیثیت کیڑے مکوڑوں کے بربر بھی نہیں تھی۔
پاکستان بننے سے پہلے پہلے تک مسلمانوں کی جو نسل کشی ہوئی وہ ساری کنجشکِ فروع مایہ بن کر رہ گئی جس وقت پاکستان کے بن جانے یا ہندوستان کی تقسیم کے باقائدہ اعلان کے بعد ہوئی۔ اعلان کے ساتھ ہی پورے ہندوستان میں ایک آگ بھڑک اٹھی۔ ہندوؤں نے اپنی ہی سرزمین کو مسلمانوں کے خون سے نہلا کر رکھ دیا۔ بستیاں کی بستیاں اجاڑدی گئیں۔ آگ کے شعلے تھے جو آسمان کی بلندی کو چھو رہے تھے اور مسلمانوں کے خون کے گنگا جمنا تھے جو گلی گلی بہہ رہے تھے۔ ہجرت کرکے جانے والوں کی پوری کی پوری ٹرینیں کاٹ کر رکھ دی جا رہی تھیں۔ جو ٹرین بھی واگہ بارڈر پر آکر رکتی اس میں لاشوں اور انسانوں کے خون کے علاوہ کچھ بھی نہ ہوتا۔ پیدل چل کر آنے والوں کے قافلے بھی راستے میں کاٹ دیے جاتے تھے۔ جتنا لہو گزشتہ دیڑھ دو دھائی میں مسلمانوں کا نہیں بہا تھا اس سی کئی گناہ خون پاکستان بن جانے کے اعلان کے بعد چند ہفتوں میں بہادیا گیا۔
اس صورت حال اور راستوں کے مسدود و پر خطر ہونے کی خبر نے پاکستان کی جانب ہجرت کرنے والوں کو اپنے اپنے علاقوں میں ہی رک جانے پر مجبور ہونا پڑا اور تنگ آمد بجنگ آمد کی صورت میں ہندوستان میں ہی محفوظ مقامات پر پناہ لینا پڑی جن میں شاہی مسجد اور لال قلعہ کا علاقہ منتخب کیا گیا۔ یہاں بھی خوف و دہشت کے سائے بہت گہرے تھے لیکن اس وقت کے جوانوں اور نوجوانوں نے مقابلے کا عزم باندھ لیا تھا اور ہر حملہ آور ہونے والے گروہوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جانے لگا جس کی وجہ سے ہندوؤں اور سکھوں کے حوصلے پست ہو کر رہ گئے اور ان دونوں مقامات کو مزید محفوظ تصور کرتے ہوئے ہندوستان کے دیگر پر خطر مقامات سے لوگ سمٹ کر یہاں منتقل ہونا شروع ہوگئے۔ مسلمانوں کی ثابت قدمی اور ہندوؤں سے مقابلے کے عزم کی وجہ سے یہاں خوف کے بادلوں میں کمی واقع ہوئی اور کسی حد تک امن بحال ہونے جانے کے بعد ان تمام لٹے پٹے مسلمانوں نے پاکستان کا رخ کیا۔
لگتا تھا کہ پاکستان میں آنے کے بعد مسلمانوں کے باقی زندگی اسلام کے پر امن سائے میں گزرے گی اور دنیا ایک نئے رنگ کا خطہ امن دیکھ کر اپنے مستقبل لیے اسے مثال قرار دیگی لیکن وہ سب خواب خواب ہی ثابت ہوئے۔ اسلام کے سائے کی بات تو قصہ پارینہ ثابت ہو ہی گئی تھی، امن و امان بھی فسانہ بن کر رہ گیا۔ پاکستان کے ابتدائی دور میں ہی بانی پاکستان کی ہدایات اور فرمودات سے صرف نظر کیا گیا اور خود بانی پاکستان کو ان کی وفات کے بعد ایک ایسا قصہ بنا دیا گیا کہ تاریخ اس پر تا قیامت شرمندہ رہے گی۔ پھر یہی نہیں ہوا کہ بات ان کی ذات یعنی “بانی پاکستان” تک ہی محدود رہ تی، بات ان کی ذات سے آگے نکل کر ان کی بہن اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح تک جاپہنچی اور پوری دنیا حیران ہے کہ ان جیسی ہستی سرکاری سطح پر “بھارتی” ایجنٹ قرار دی گئی اور وہ تمام مسلمان جو پاکستان کی محبت میں اپنا سب کچھ لٹا کر آئے تھے ان کو بھارتی قرار دے کر پورے پاکستان کے لیے سرکاری سطح پر خطرہ قرار دیا گیا جس کا سلسلہ آج تک بر قرار ہے۔
خوف کے بادل پاکستانی مسلمانوں کے لیے کچھ عرصے کے لیے بے شک چھٹ سے گئے تھے لیکن وہ مسلمان بھی تو تھے جنھوں نے پاکستان بنانے کی جد و جہد میں بہت کچھ لٹایا تھا اور بے پناہ قربانیاں دی تھیں لیکن کسی نہ کسی مجبوری کی وجہ سے پاکستان کی جانب ہجرت نہ کر سکے تھے، ان پر جو کچھ بیتا اور جو اب تک بیت رہا ہے اہل پاکستان نے ان کی جانب کبھی سوچا بھی نہیں۔ پاکستان بن جانے کی سزا وہ تاحال بھگت رہے ہیں اور ان کو اسی بہانے گزشتہ 70 برسوں سے تشدد کا نشانہ بنانا ہندوؤں نے اپنا مذہبی فریضہ سمجھا ہوا ہے۔
پاکستان بن جانے کے بعد یہ تو ضرور ہوا کہ ہندوؤں اور سکھوں کے ظلم و ستم سے نجات مل گئی لیکن مسلمانوں کو مسلمانوں سے نجات آج تک نصیب نہیں ہوئی۔
حکومتیں بدلنا، وزیراعظموں کی بدن کے لباس کی طرح تبدیلی، ایک وزیر اعظم کا قتل اور پھر مارشل لا کے نفاذ نے پاکستان میں رہنے اور خصوصاً وہ مسلمان جو غیر منقسم ہندوستان سے پاکستان کی جانب آئے تھے اور جنھوں نے انگریزوں کا مارشل لا صحیح معنوں میں بھگتا ہوا تھا وہ 1958 کا مارشل لا کا سن کر دہل کر رہ گئے تھے۔ ایک حد یہ بھی آن پہنچی تھی کہ اگر تاجر حضرات کسی شے کی قیمت اپنی مرضی سے بھی کم کر دیا کرتے تھے تو مارکیٹ فلاپ کرنے کا بہانہ بنا کر ان پر بھاری جرمانہ آئد کر دیا جاتا تھا۔ نوبت یہ بھی آئی کہ جب صبح صبح دکاندار دکان کھولتے تو ان کی دکان کے دروازوں پر ہر شے کی قیمتوں کے ریٹ لکھے ہوئے ہوتے جو خود ان کی قیمت خرید سے کافی کم ہوا کرتے تھے۔ یہ بات شاید عام لوگوں کے لیے تو خوش کن ہو سکتی تھی لیکن تاجروں کے لیے کہیں سے کہیں بھی کوئی اچھا عمل نہیں تھا۔ اس صورت حال کی وجہ سے بازار بند کیے گئے لیکن دکانیں بند کرنے والوں کے خلاف بھی سخت رد عمل سامنے آیا اور ان پر جرمانے آئد کرکے دکانیں کھلی رکھنے اور اپنا نقصان پر نقصان بر داشت کرنے پر مجبور کیا گیا۔ یہ خوف بھی اپنی نوعیت کا انوکھا تھا لیکن یہ اپنوں ہی کا دیا ہوا تھا۔
پاکستان میں پہلی مرتبہ تعصب کی لہر ابھری اور کراچی والوں کو محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی سزا “غیر سرکاری” طور پر سرکاری سطح پر دینے کے لیے اس وقت کے فیلڈ مارشل اور صدر پاکستان محمد ایوب خان نے اپنے بیٹے گوہر ایوب کی سر پرستی ایک پر تشدد ہجوم کے صورت میں بھیجا اور اس طرح وہ مسلمان جو ہندوستانی سر زمین میں غیر مسلموں کے ہاتھوں تنگ کیے جاتے تھے، پاکستان میں پاکستان کے مسلمانوں کے ہاتھوں نہ صرف ستائے گئے بلکہ عصمت دری، لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا نشانہ بنا ئے گئے۔
قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ بس نہیں ہوا۔ بھٹو دور میں پاکستان (سندھ) کے بائیس شہروں میں آگ لگائی گئی جس کی آنچ سے حیدرآباد اور کراچی بھی محفوظ نہیں رہے۔ یہ آگ کبھی سرد ہوتی اور کبھی بھڑکتی رہی۔ کبھی اہل سندھ کے مسلمانوں کے ہاتھوں اور کبھی شمالی علاقوں کے دلیروں کے ہاتھوں جس کا سلسلہ تا حال جاری ہے اور اس کے مستقل رک جانے کے امکانات نظر آکر نہیں دے رہے ہیں۔
(جاری ہے)

حصہ