لبرلز کے اسپیڈ بریکرز

615

سید اقبال چشتی
پاکستان کی ہرگلی محلے میں جا بجا اسپیڈ بریکر ملتے ہیں تاکہ ہر کوئی اپنی حد میں رہے۔ جس طرح اسپیڈ بریکر سے رفتار کو کم کرنے اور تیز چلنے والوں کو اس کے ذریعے روکا جاتا ہے اسی طرح اس ملک کی سیاست کے بھی اسپیڈ بریکرز ہیں، خاص طور پر اسلام کے نام لیوائوں کے آگے جس طرح رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں اس کی مثال پاکستان سے لے کر عالم اسلام کے مختلف ممالک تک ملتی ہے۔ اسلام کی دعوت اور غلبے کے آگے رکاوٹ کا مقصد اسلام پسندوں کی کامیابی کو روکنا ہے، اور جہاں اسلام پسند تھوڑی سی بھی کامیابی حاصل کرکے کچھ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اُن کے خلاف شدت پسندی کا لیبل لگا کرکریک ڈائون کیا جاتا ہے تاکہ ان کا ساتھ دینے والے خوف زدہ ہوکر پیچھے ہٹ جائیں۔ مگر اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کام کرنے والے تمام رکاوٹ اور مشکلات کے باوجود اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور اسلام بیزار لبرل طبقہ اسی استقامت سے خوف زدہ ہے کہ ان اسلام پسندوں کو کیسے روکا جائے۔
حالیہ الیکشن میں جس طرح لبرلز نے اسلام پسندوں کے خلاف مہم چلائی اور پاکستانیوں نے جس طرح اسلام مخالفین کو ووٹ دیا اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس ملک کے عوام کو اسلام نہیں بلکہ اسلام سے آزادی درکار ہے، کیوں کہ اسلام دشمنوں نے برسوں کی منصوبہ بندی کے بعد پاکستان ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ اسلام کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، دین اور سیاست الگ الگ ہیں، اس لیے دین کا کام کرنے والوں کو سیاست اور اقتدار سے الگ رہنا چاہیے، سیاست سوائے گند کے کچھ نہیں، اس لیے اسلام کی خدمت اور ترویج کا کام کرنے والوں کو اس گندگی سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔ یہ سوچ اس قدر پختہ ہوچکی ہے کہ پورے عالم اسلام میں عوام دیانت، امانت اور شرافت کے بجائے کرپٹ لوگوں کو اقتدار دیتے ہیں اور پھر اُن کرپٹ لوگوں سے اسلام کے مطابق اقتدار اور حکومت چلانے کے خواب دیکھتے ہیں جو بحیثیت مسلم سوچنا اُن کا حق ہے، لیکن ووٹ ڈالتے وقت اُن کی سوچوں کا محور اسلام نہیں بلکہ اسلام سے بیزار سیاسی قیادت ہوتی ہے جن کا کردار، رہن سہن، گفتگو اور معاملاتِ زندگی گواہی دے رہے ہوتے ہیں کہ ان کا اسلام سے دور دور تک کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اسی سوچ کی وجہ سے اسلام پسندوں کو مسترد کیا جاتا ہے اور دین بیزار لوگ ملک اور قوم کے تمام وسائل پر قابض ہوکر نہ صرف اسلام بلکہ ملک کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ اسلام کو نقصان پہنچانے اور اسلام پسندوں کو اقتدار سے دور رکھنے کے لیے جہاں عالمی سطح پر منصوبہ بندی کی جاتی ہے وہاں مسلم حکمرانوں کے ذریعے بھی اسلام کے آگے بند باندھنے کی ہر ممکن سازشیں کی جاتی ہیں اس بات کا اندازہ حالیہ الیکشن میں سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر جس طرح اسلام مخالف پروپیگنڈا کیا گیا اس کی مثال اس سے قبل نہیں ملتی کیونکہ عوام مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مارشل لا والوں کی حکمرانی سے بیزار آچکے تھے‘ کہیں یہ قوم تبدیلی کی خواہش لے کر واقعی اسلام پسندوں کی طرف نہ چلی جائے‘ اس لیے تبدیلی کا نعرہ ایک ایسی سیاسی جماعت کی طرف منسوب کردیا گیا جو سرے سے اسلام کا نام ہی نہیں لیتی اور نہ ہی ان کا کو ئی سیاسی لیڈر اسلامی حلیہ اور ذہن رکھنے والا ہے۔ لیکن ناچ گانے کے ساتھ کرپشن کے خلاف نعرہ بلند کرنے کو تبدیلی کا نام دے دیا گیا اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مقامی اسٹیبلشمنٹ نے اسلام پسندوں کا راستہ روکنے کے لیے وہ کردار ادا کیا کہ جب بھی اس سازش کا بھانڈا پھوٹے گا تاریخ کا سیاہ ترین کارنامہ اور سازش لکھا جائے گا۔
جس طرح میڈیا پر اربوں روپے خرچ کر کے عوام کی ذہن سازی کی گئی اور جھوٹ کی سیاست اور صحافت کو زور اور شور سے بیان کیا گیا‘ یہ سب اسلام پسندوں کو اقتدار سے دور رکھنے کے لیے تھا‘ جس طرح مولانا فضل الرحمن ایک ایسے شخص سے شکست دلوائی گئی جس کا کردار پوری قوم کے سامنے ہے اور پھر میڈیا پر یہ کہنا کہ ان کا اسلام کے لیے نہیں اسلام آباد کے لیے ا تحاد تھا یہ سب عوام کی طرف سے نہیں بلکہ اسلام بیزار لبرل طبقہ کی طرف سے کہا گیا جس میں ایک عام شہری بھی متاثر ہو گیا جب کہ فضل الرحمن اور سراج الحق اپنی جماعت کی طرف سے اکیلے جیتتے رہے ہیں لیکن دونوں جماعتوں کے ووٹ مل کر بھی یہ ہار جائیں نہ ممکن ہے اس لیے یہی کہا جا رہا ہے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ نے جس طرح اسلام پسندوں کی شکست پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح سلیکشن کر کے عوام کے دلوں سے اسلام کو نکالنے اور اسلام پسندوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن کفر کی چال کتنی ہی کامیاب کیوں نہ ہو وہ وقتی ثابت ہوتی ہے اس لیے پوری دنیا میں جتنا اسلام کو روکنے اور دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے اسلام اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
فرانس میں حجاب پر پابندی کے باوجود خواتین اسلام کا اس پابندی کو قبول نہ کرنا اس بات کی علامت ہے کہ اسلام کو جبر اور قانونی طریقوں سے دبایا نہیں جا سکتا جس طرح مصر میں اخوان المسلمون تمام جمہوری طریقوں سے اقتدار میں آ ئی لیکن اسلام پسندوں کا اقتدار عالمِ کفر اور اسلام بیزار لبرل لوگوں کو پسند نہیں آیا اور فوجی ڈکٹیٹر کے ذریعے حکومت پر قبضہ کر لیا گیا جو اس بات کی علامت ہے کہ دنیا کرپٹ لوگوں کا اقتدار قبول کر لے گی لیکن اسلام کے نام لیوائوں کا اقتدار کسی طور برداشت نہیں کیا جائے گا اور اب عالمی طاقتیں اخوان المسلمون کی تنظیم‘ جس کی ساری قیادت جیلوں میں ہے‘ جن پر کرپش اور لوٹ مار کا کوئی الزام بھی نہیں‘ لیکن ان کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر پھانسی اور قیدوبند کی سزائیں دی جارہی ہیں۔ اگر اسلام کا نام لو گے تو ہم تمہارے ہی کرتا دھرتائوں سے تم کو عبرت کا نشان بنا دیں گے جس طرح پاکستان کے گائوں دیہات میں ظالم اور طاقتور خان وڈیرے چوہدری اور سردار معمولی غلطی پر بھی اپنے زیر اثر لوگوں کو جو سزائیں دیتے ہیں وہ دوسروں کو دکھانے کے لیے ہو تی ہیں کہ اگر تم میں سے کسی نے بھی آزادی کی بات کی تو اس کا حشر اس بھی برا ہو گا اور لوگ ظلم سہتے رہتے ہیں کہ ہم کیا کرسکتے ہیں۔ لیکن اسلام کے ماننے والے ہر دور میں تمام تر رکاوٹوں کے باوجود اپنا کام جاری رکھتے ہیں‘ جو عالم کفر اور اُن کے حواریوں کو ناگوار گزرتا ہے کہ یہ کس مٹی سے بنے ہیں جو طاقت اور وسائل نہ ہونے کے باوجود ہم سے ٹکر لینے اور ہمارے نظام کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کی بات کرتے ہیں اور یہ بات حقیقت بھی ہے کہ جب بھی اسلام کو بزور طاقت دبانے کی کوشش کی گئی وہ اتنا ہی ابھر کر سامنے آیا ہے۔
افغانستان میں دنیا کی تمام طاقتوں نے اسلامی حکومت کے خاتمے کے لیے حملہ کیا تھا تاکہ اسلامی حکومت کے ثمرات دیگر ممالک تک نہ پہنچیں اور وہاں کے لوگ جمہوری طریقے سے ہی اقتدار اسلام پسندوں کے حوالے نہ کردیں۔ لیکن آج اٹھارہ سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی جذبہ جہاد کو شکست نہیں دے سکے کیونکہ اگر ایک بار اسلام کے ثمرات کوئی دیکھ لے تو دنیا اِدھر سے اُدھر ہو جائے مگر اسلام کے ماننے والے کبھی بھی کفر کا ساتھ نہیں دیتے اسی لیے ترکی میں جب اسلام پسندوں کی حکومت کے خلاف فوج کے ذریعے شب خون مارا گیا تو اسلام پسندوں کی حکومت کی وجہ سے جو ملک اور قوم کو خوش حالی میسر آئی تھی اُس ثمرات کا نتیجہ تھا کہ قوم ٹینکوں کے آگے لیٹ گئی اور بغاوت ناکام بنا دی۔ مگر پاکستان میں آج تک اسلام پسندوں کو اقتدار نہیں ملا مگر تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ انھوں نے ملک اور قوم کے لیے اب تک کیا کیا؟ یہ بات اسلام بیزار لبرل طبقہ کرتا ہے جب کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت اسلام چاہتی ہے اس کا ثبوت مدارس میں پڑھنے والے بچوں کی بڑی تعداد ہے‘ ان مدارس سے عالم دین اور ڈاکٹر‘ انجینئرز تک نکلتے ہیں جو نہ صرف دینی بلکہ عصری تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں اور مختلف موضوعات پر پی ایچ ڈی بھی کرتے ہیں۔ لوگوں کے دینی رجحان کی وجہ سے نئے کھلنے والے تمام اسکول سسٹم عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم پر بھی زور دے رہے ہیں‘ لیکن اسٹیبلشمنٹ بیرونی اشاروں اور طاقتوں کے حکم پر اپنی طاقت کے ذریعے اسلام پسندوں کو اقتدار سے دور رکھ کر دوسروں کو جعلی مینڈیٹ دلا کر عالمی طاقتوں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ پاکستانی قوم اسلام کو پسند نہیں کرتی۔ سراج الحق صاحب نے صحیح کہا ہے کہ دھاندلی کے ذریعے آنے والی حکومت کنڑولڈ ڈیموکریسی مارشل لائی حکومت ثابت ہوگی جو زیادہ عرصے نہیں چل سکے گی۔ اسٹیبلشمنٹ کے کاندھے پر چڑھ کر جعلی مینڈیٹ حاصل کر کے صرف زبان سے یہ کہہ دینا کہ ہم مدینے جیسی اسلامی ریاست بنائیں گے‘ عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے یہ ایک اچھا نعرہ تو ہو سکتا ہے لیکن کرپٹ لوگوں کے ساتھ‘ جن کا ماضی داغ دار اور دامن جرائم سے بھرا ہوا ہو‘ مدینے کی ریاست والی حکومت ایک فیصد بھی قائم نہیں کرسکتے کیونکہ جن علما کو زبردستی شکست دی گئی ہو‘ وہ عوام کو تسلی دینے کے لیے تو مدینے والی بات کرسکتے ہیں مگر اس پر عملدرآمد نہیں کر سکتے اس لیے کہ ان کے تمام فیصلے دوسرے کریں گے یعنی ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوں گے۔ ان لبرلز سے بہتر تو وہ دو ہستیاں تھیں جنھوں نے اسلام سے کھل کر بیزاری کا اعلان کیا اور کسی بھی منافقت سے کام نہیں لیا اور نہ اسلام کو گالی دینے کے لیے مولویوں کو برا بھلا کہہ کر اپنے دل کی بڑھاس نکالی۔ ساری زندگی اسلام سے بیز اری کا اعلان کیا اور وصیت کی کہ ہمارے مرنے کے بعد ہمارے جنازے نہ پڑھائے جائیں بلکہ ہماری لاشوں کو جلا دیا جائے ان میں ایک ن م راشد اور دوسری شخصیت عصمت چغتائی کی ہے لیکن آج کے لبرلز مسلمان بھی رہنا چاہتے ہیں اور اسلام سے بیزار رہ کر مدینے جیسی اسلامی ریاست کا خواب بھی عوام کو دکھاتے ہیں جن کے نزدیک جمہوری طریقے سے احتجاج بھی ظلم اور منافقت ہے مگر اپنے لیے جائز ہے۔ اسلام پسند دھاندلی کے خلاف احتجاج کریں تو ملک اور قوم کا نقصان ہوتا ہے مگر یہ احتجاج کریں تو ملک اور قوم کے فائدے کے لیے اسی لیے شاید اسلام کے آگے اسپیڈ بریکرز لگانے والوں کو کفر کی اسلام دشمنی اور مسلمانوں پر بمباری اور اس کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے مظلوم مسلمان نظر نہیں آتے بلکہ یہ لوگ کفر کے ایجنڈے کو میڈیا کے ذریعے ان مسلمانوں کو شدت پسند کہہ کر اپنے آقائوں سے داد وصول کرتے ہیں لیکن ایک دن ضرور آئے گا جب ہر طرف اسلام کی حکمرانی ہو گی اسلام کی بڑھتی ہو ئی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ یورپ اور امریکا میں تمام تر رکاوٹوں کے باوجود اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے اور لوگ اسلام کو قبول کر رہے ہیں جائزہ تو ہمیں لینا چاہیے کہ ہم کس طرف ہیں اسلام کی طرف یا پھر اسلام بیزار لبرلز کی طرف اللہ نے اپنے دین کا کام کسی نہ کسی سے لینا ہے۔
شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے

حصہ