زندگی کے حقیقی رنگ

494

افروز عنایت
(حقیقی کہانی سے ماخوذ)
اِس زندگی کے بھی کیا کیا رنگ ہوتے ہیں۔ ربّ اپنے بندوں کو کس کس طرح آزماتا ہے اور پھر نوازتا بھی ہے، کسی کو اِس دُنیا میں، کسی کو اگلی زندگی میں… مگر ہے وہ منصف۔ کسی کو بھی اُس کی طاقت سے زیادہ دُکھ و تکلیف نہیں دیتا… اور بندہ اگر راہِ ہدایت پر ہو تو اس آزمائش کو بھی ربّ کی رضا جان کر خوشی سے گلے لگا لیتا ہے۔
روشن کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ نام تو ’روشن‘ ماں باپ نے رکھا کہ دُنیا میں ہمیشہ اس کی زندگی روشنیوں میں جگمگائے، لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ خوشحال گھرانے کی یہ معمولی شکل و صورت کی لڑکی تمام خوبیوں سے مزین تھی، سوائے چہرے کی خوبصورتی کے۔ جیسے جیسے ماہ و سال بیتتے گئے ماں باپ کی فکروں میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ خاصی تگ و دو کے باوجود بھی کسی آنے والے رشتے نے ہاں نہ کی، بلکہ اب دونوں چھوٹی بہنیں عمر کے اس حصے میں پہنچ چکی تھیں کہ آنے والے انہیں پسند کرجاتے۔ عمر کی 30 بہاریں گزر گئیں لیکن روشن کی زندگی میں کوئی بہار نہ آسکی۔
رضیہ: آپا یہ نہ ہو کہ روشن کی وجہ سے ناجیہ اور دانیہ کی عمریں بھی نکل جائیں اور ہم ہاتھ مَلتے رہ جائیں۔
روشن کی ماں: لیکن… رضیہ میں یہ کیسے کروں؟ میرا مطلب ہے روشن کو چھوڑ کر دونوں چھوٹیوں کی شادی کروادوں؟
رضیہ: آپا، روشن میری بھی بھانجی ہے، مجھے بھی پیاری ہے، میرا بیٹا اگر بڑا ہوتا… خیر ناجیہ کے لیے آپ ان لوگوں کو ہاں کردیں اور دانیہ تو ہے ہی میرے مدثر کے لیے۔
رضیہ کے جانے کے بعد اماں سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا فیصلہ کریں! انہوں نے سوچا دونوں بیٹوں سے مشورہ کروں کہ کیا کرنا ہے۔ وہ شام کا انتظار کرنے لگیں کہ بیٹے آجائیں تو ان سے بات کریں۔
روشن ناسمجھ نہ تھی، ماں کی اُداسی اور پریشانی کی وجہ جانتی تھی۔ چائے کا کپ ماں کو تھما کر اُس نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ بھابھی اپنے کمرے میں تھیں، ناجیہ اور دانیہ بھی کسی دوست کی سالگرہ میں گئی تھیں، اس لیے اسے ہمت ہوئی، ماں سے پوچھا: ’’اماں آپ رضیہ خالہ کی بات پر پریشان ہیں؟‘‘
ماں نے اُداسی اور محبت سے اپنی بیٹی کو دیکھا۔
’’اماں آپ ناجیہ کے لیے ان لوگوں کو ہاں کردیں، لڑکا پڑھا لکھا اور اعلیٰ عہدے پر فائز ہے، ایسے رشتے بار بار نہیں آتے۔ ناجیہ 27 سال کی ہونے والی ہے۔ کہیں دیر نہ ہوجائے۔‘‘ اس نے بہت خلوص سے ماں سے کہا۔
ماں نے اس بردبار، سنجیدہ بیٹی کو غور سے دیکھا اور گلے لگالیا۔ ماں کی آنکھوں سے ڈھلکنے والے آنسوئوں کو اس نے اپنی انگلیوں کے پوروں سے صاف کیا۔ ’’اماں روئیں نہیں اور… ویسے بھی میں شادی کرنا نہیں چاہتی اب… آپ… آئندہ میری شادی کی بات مت کیجیے گا، میں تمام زندگی آپ کی خدمت میں گزارنا چاہتی ہوں۔‘‘
……٭٭٭……
دونوں بہنوں اور چھوٹے بھائی اصغر کی شادی کے بعد روشن نے مدرسہ جوائن کرلیا اور اپنی زندگی میں مست ہوگئی۔ مدرسے سے آکر اماں کی خدمت اور گھر داری میں ایسی جت جاتی کہ اس کے ذہن سے شادی وغیرہ کا دھیان ہی مٹ گیا۔ بھابھیوں نے بھی گھر کی تمام ذمہ داریاں اسے سونپ دیں، بلکہ بھتیجے بھتیجیوں کی ذمہ داریاں بھی آہستہ آہستہ اس کے سر پر ڈال دی گئیں۔ دینی تعلیم نے اسے صبر و شکر کا عادی بنادیا تھا، اس لیے وہ بے چوں چرا ہر ذمہ داری خوش اسلوبی سے نبھا رہی تھی۔ اسی لیے بھابھیاں بھی اس سے خوش تھیں کہ مفت کی ایک نوکرانی مل گئی ہے، مگر اماں کی ایک ذات ایسی تھی جو اس کے لیے پریشان اور غمگین تھی۔ اماں کو اب بھی یقین تھا کہ ضرور کوئی آئے گا اور اس کا ہاتھ تھام لے گا، اور مرنے سے پہلے وہ اپنا یہ فریضہ پورا کرنا چاہ رہی تھی۔ مدرسے میں چند ایک خواتین سے روشن کی دوستی ہوگئی جن میں عطیہ بھی شامل تھی جس سے کبھی کبھار دل کا حال بیان کردیتی۔ مدرسہ چھوڑنے کے بعد بھی عطیہ سے ملنا جلنا رہتا تھا۔ اماں کو بھی عطیہ پسند تھی کیوں کہ وہ ایک پرخلوص دوست تھی، اس لیے اماں عطیہ سے اکثر روشن کے بارے میں گفتگو کرتی رہتی تھیں۔
جب رضیہ نے اماں سے شوکت صاحب کے رشتے کی بات کی جو امریکا میں رہائش پذیر تھے اور رضیہ کی بیٹی کے چچا سسر بھی تھے، شوکت کی بیوی کا انتقال ایک سال پہلے ہوا تھا، باقی بچے تو شادی شدہ اور اپنے گھر بار والے تھے، صرف حانیہ غیر شادی شدہ تھی، اس رشتے سے بھی روشن نے صاف انکار کردیا کہ وہ اب 45 سال کی ایک عورت کا روپ دھار چکی ہے، اپنی زندگی سے مطمئن ہے، اس لیے شادی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس موقع پر عطیہ نے اماں کا بھرپور ساتھ دیا اور روشن کو شادی کے لیے راضی کیا۔
امریکا پہنچ کر روشن کو ایک نئی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔ شوہر کے بچے اس سے دور دور رہتے، حانیہ بھی بوقتِ ضرورت اس سے بات کرتی۔ اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اسے صرف شوکت کی خدمت اور تنہائی دور کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ لیکن اس نے ہمت نہ ہاری، اسے عطیہ نے بھی رخصتی کے وقت سمجھایا تھا کہ شوکت کی اولاد تمہیں ماں کی حیثیت سے اتنی جلدی قبول نہیں کرے گی، لیکن تم اپنے اخلاص و محبت سے ان کا دل جیت سکتی ہو، یہاں بھی تم دس لوگوں کی خدمت کررہی ہو، اگر وہاں شوہر کی خدمت کرکے اُس کا دل جیت لو گی تو تم دونوں کا وقت سکون سے گزرے گا۔
ہفتہ دس دن بعد وہ شوکت کے تمام بچوں کو گھر میں جمع کرتی، اُن کی پسند کے کھانے بناتی، ہر ایک سے خوش اخلاقی کا برتائو کرتی… اس کاوش کا یہ ثمر سامنے آیا کہ اب وہ سب اُس سے اُس کا بھی حال احوال پوچھتے، دو گھڑی فون پر بات بھی کرلیتے۔ گھر میں حانیہ کی شادی کی تیاری میں وہ ایک سگی ماں کی طرح جُت گئی۔ اگلے دن گھر میں حانیہ کی مہندی کی تقریب کے سلسلے میں سب بہن بھائی جمع تھے، جس کے لیے وہ دو دن سے باورچی خانے میں گھسی ہوئی تھی۔ مہندی کی تقریب کے لیے بھی اس نے گھر میں مدعو تقریباً 60، 70 افراد کے لیے خود طعام کا انتظام کیا۔ شوکت صاحب پر اس خاتون (روشن) کی خوبیاں دن بدن عیاں ہوتی جارہی تھیں۔ وہ خود بھی اب اس ماحول میں اپنے آپ کو پُرسکون محسوس کررہی تھی۔
حانیہ: (جو اس کے کمرے میں پہلی مرتبہ آئی تھی) آنٹی دیکھیے آج کی اس تقریب کے لیے میرا یہ سوٹ صحیح رہے گا؟
روشن: (حانیہ کو حیرانی سے دیکھتے ہوئے) جی، جی… ارے یہ تو بہت خوبصورت ڈریس ہے اور تم پر تو خوب جچے گا، زبردست… اور اس پر جیولری؟ اگر گرین اسٹون والی جیولری ہوتی تو… بہت خوب۔
حانیہ: میں نے سوچا تھا گولڈن جیولری چل جائے گی۔
روشن (کچھ سوچتے ہوئے) ہوں… ایک منٹ (وہ فوراً اپنی الماری کی طرف لپکی اور اس میں سے ایک جیولری باکس نکال کر لائی) میرے خیال میں اس سوٹ پر یہ زیادہ جچے گا۔
حانیہ نے حیرانی سے اس طلائی جیولری کو (جس میں گرین خوبصورت جڑائو تھا) دیکھا۔ یہ… یہ تو آپ کا ہے؟ اور بہت قیمتی لگ رہا ہے۔
روشن: ہاں… لیکن اب تمہارا ہے یہ… اماں نے مجھے اپنا سیٹ دیا تھا اور اب میں اپنی اس پیاری بیٹی کو دوں گی۔
حانیہ: میرا ہے؟… یہ میرے لیے ہے؟
روشن: بیٹا میں تمہاری سگی ماں نہیں، لیکن تم میرے لیے بیٹی ہو گڑیا… اگر میری شادی وقت پر ہوتی تو آج تمہارے جیسی بیٹی… خیر یہ لو، اسے میری طرف سے ایک چھوٹا تحفہ سمجھنا۔
……٭٭٭……
شوکت: خیریت سے حانیہ کی رخصتی ہوگئی، آج میرا یہ فرض بھی پورا ہوگیا، اللہ کا بڑا کرم ہے۔
روشن: (مسلسل پچھلے چار پانچ دنوں سے مختلف کاموں اور مہمانوں کی آئو بھگت میں مصروف تھی، لہٰذا تھکن اس کے چہرے سے نمایاں تھی۔ آئینے کے سامنے بیٹھی اپنا ہلکا سا میک اپ ٹشو سے صاف کررہی تھی) ہاں اللہ کا شکر ہے ہماری حانیہ بھی اپنے گھر کی ہوگئی۔ اللہ اسے بہت ساری خوشیاں نصیب کرے۔ ماشاء اللہ بہت پیاری لگ رہی تھی، اللہ اسے نظر بد سے بچائے۔
شوکت صاحب نے چونک کر روشن کی طرف دیکھا کہ یہ عورت حانیہ کو بالکل سگی ماں کی طرح ایسے دعا دے رہی ہے۔ آج ان کے دل میں روشن کی عزت اور مقام مزید بڑھ گیا۔ وہ غور سے روشن کی طرف دیکھنے لگے جو اس وقت بڑی نکھری نکھری اور پُروقار لگ رہی تھی، آج سے پہلے یہ خاتون ان کے لیے پُرکشش نہ تھی لیکن آج… شاید اس کے حسنِِ سلوک، رویّے یا خدمت گزاری کا صلہ تھا کہ انہیں روشن اچھی لگی۔ زندگی کا ایک نیا حسین سفر روشن کا منتظر تھا۔
……٭٭٭……
روشن نے اپنی شادی کے لیے ہامی صرف اپنی والدہ کی خوشی کے لیے بھری تھی، لیکن آج اسے احساس ہوا کہ واقعی اس کی والدہ کا فیصلہ درست تھا۔ شوہر کی وجہ سے اسے معاشرے میں تحفظ و عزت میسر ہوگئی تھی، جو ہر عورت کی خواہش ہوتی ہے۔

حصہ