خودداری

275

عائشہ عارف
’’کہا ناں اماں میں بھیک نہیں مانگوں گی۔ آپ کی ساری زندگی اس سب میں گزر گئی، دو وقت کی روٹی ہی انسان نے کھانی ہے ناں، تو بہتر ہے عزت اور محنت سے کھائے۔ میں بار بار کہہ رہی ہوں میں بھیک نہیں مانگوں گی، نہیں مانگوں گی‘‘۔ ’’ارے او جھلی، تیرا تو دماغ چل گیا ہے۔ اب تجھ کل کی لڑکی کو کیا پتا کہ آج کل عزت وزت کچھ نہیں۔ یہ پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے کچھ بھی کرنا پڑتا ہے، اور تُو کیا سمجھتی ہے ہم نے محنت نہیں کی! ہر ایک کے سامنے جاکے ہاتھ پھیلانا، کہیں سے دھتکارے جانا تو کہیں سے چند سکے مل جانا، سارا دن مارے مارے پھرنا، پھر جا کے کہیں یہ چند روپے ہاتھ آتے ہیں اور بہ مشکل گزر بسر ہوتا ہے۔‘‘’’پر اماں جتنا رزق اللہ نے لکھ دیا اتنا تو ملنا ہے۔ اب یہ تو انسان پر ہے کہ لکھے ہوئے رزق کو جائز طریقے سے حاصل کرے یا ناجائز طریقے سے لائے۔ محنت کرکے خود کمائے یا بقول آپ کے خالق و رازق سے مانگنے کے بجائے لوگوں سے مانگنے میں محنت کرے‘‘۔ یہ الفاظ کہتے ہوئے وہ چھوٹی سی لڑکی عجب انداز میں مسکرائی تھی۔
’’ارے کمبخت پھر تُو بتا، کرے گی کیا! میں بیمار نہ ہوتی تو کبھی تجھے نہ کہتی۔ پر تو ہے کہ مانتی ہی نہیں۔ اچھا چل بتا کیا کرے گی، بھیک نہیں مانگے گی تو؟ کیسے پیٹ بھرے گی اپنا اور ان چھوٹوں کا؟‘‘ ’’اماں میں ’’حبیب اللہ‘‘ بنوں گی۔ وہ فخر سے مسکراتے ہوئے بولی۔ ’’ہیں، یہ کیا ہوتا ہے جھلی لڑکی؟‘‘ اماں نے حیرت سے اسے تکتے ہوئے کہا۔
’’اماں! ابا بھی تو ’’حبیب اللہ‘‘ تھے، اور ابا نے مجھے وصیت کی تھی کہ ’’الکاسب حبیب اللہ‘‘ کہ بیٹا جو بندہ رزقِ حلال کماکر کھاتا ہے وہ اللہ کا دوست ہوتا ہے۔ اب میں ’’حبیب اللہ‘‘ ضرور بنوں گی ان شاء اللہ‘‘۔ اس چھوٹی سی لڑکی کا جوش بڑھتا ہی جا رہا تھا۔
’’تیرا باپ تو سڑکوں پہ بیٹھا جوتے پالش کرتا تھا اور تُو ایسے فخر سے کہہ رہی ہے جیسے وہ کوئی بڑا افسر تھا‘‘۔ ’’ارے میری بھولی اماں، ہوسکتا ہے میرے باپ کا درجہ ان دنیاوی افسروں سے بھی اوپر کا ہو‘‘۔ اماں نے تمسخرانہ انداز میں قہقہہ لگایا۔ ’’جوتے پالش کرنے والے کا درجہ افسروں سے بھی اوپر!‘‘
’’ہاں اماں کیونکہ میرا باپ کینسر کا مریض تھا لیکن پھر بھی جب تک اس کے جسم نے اس کا ساتھ دیا وہ سڑکوں پر جاکر جوتے پالش کرتا رہا، محنت کرتا رہا اور ہمیں خون پسینے سے کمایا ہوا رزقِ حلال کھلایا۔ اس نے وہ محنت کی جو انبیائے کرام کا شیوہ تھا۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ کہیں جاتے تو فارغ نہیں بیٹھتے تھے، ساتھ مل کر کام کرتے، کبھی پیٹ پر پتھر باندھ کر خندقیں کھودتے، کبھی کھانا پکانا ہوتا تو لکڑیاں چن کر لاتے۔ اور اماں ابا بتاتے تھے کہ حضرت دائود علیہ السلام اپنے ہاتھوں سے اپنی روزی کماتے تھے۔ اور پتا ہے اماں، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مزدوری تو اللہ کو اتنی پسند تھی کہ اللہ نے ان کی مزدوری کا ذکر قرآن میں کرکے عزت بخشی، اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ذکر ان الفاظ میں کیا ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آٹھ یادس برس اس طرح مزدوری کی کہ اس دوران وہ خود بھی پاک دامن رہے اور اپنی مزدوری کو بھی پاک رکھا۔‘‘ (مشکوٰۃ، ص 202)اماں پتا ہے الکاسب حبیب اللہ کا مطلب کیا ہے، محنت کش اللہ کا دوست ہوتا ہے۔ تو جس کا اللہ دوست بن جائے اسے اور کیا چاہیے! وہ اپنے بندوں کو دنیا میں بھی رسوائی سے بچا لیتا ہے اور آخرت میں بھی بڑے بڑے انعامات سے نوازتا ہے۔ تو اماں مجھے بس ابا کا سامان دو جوتے پالش کرنے والا، میں کل سے ابا کی جگہ پر جاکر ابا والا کام کروں گی‘‘۔
اماں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ اپنے آنسو چھپا کر ایک بار پھر سخت لہجے میں بولی تھیں ’’تم سڑکوں پہ بیٹھی رہنا اپنے باپ کی طرح، لیکن پھر بھی رات کو اتنا نہ لا سکو گی کہ ایک دن پیٹ بھر کھا سکیں‘‘۔ ’’اماں کہا ناں جتنا میری قسمت میں لکھا ہے اللہ نے، وہ مجھے مل جانا ہے۔ میرا اسکول چھڑوایا گیا، میں تب بھی کچھ نہیں بولی تھی کیونکہ جانتی تھی حالات ایسے نہیں کہ دو وقت کی روٹی اچھے طریقے سے میسر آئے تو ایسے میں اسکول کے اخراجات تو ناممکن تھے۔ تو اب مجھے کوشش کرنے دو اور راضی خوشی اللہ سے دعا کرتے ہوئے مجھے بھیجو‘‘۔ ’’ٹھیک ہے جو مرضی کرو، مگر جاتے ہوئے اپنے بہن بھائیوں کے چہرے دیکھتی جائو جو بھوک سے مرجھائے ہوئے ہیں‘‘۔ ’’جی اماں آپ پریشان نہ ہوں، مجھے اللہ پر کامل یقین ہے، وہ میری محنت کو ضائع نہیں کرے گا۔ ‘‘
اس نے اماں سے بال کنگھی کرائے، اپنی لال اوڑھنی اوڑھی اور چل پڑی۔ اس کے جاتے ہی ماں کا ضبط جواب دے گیا اور کتنی دیر کے رکے ہوئے آنسو بہہ نکلے تھے۔ وہ فوراً جائے نماز لے آئی اور رو رو کر دعا کرنے لگی کہ یارب میری بیٹی میری طرح ہمت و حوصلہ نہ ہار دے۔ اللہ تُوتو جانتا ہے میں نے کس دل سے اسے بھیک مانگنے کو کہا۔ کس ماں کا دل کرتا ہے اس کی اولاد سڑکوں پر لوگوں کی پھٹکار سنے۔ اللہ یہی عزت کی، محنت کی روٹی تو میں نے بھی کمانا چاہی تھی پر تو جانتا ہے ناں، کچھ بھی حاصل نہ ہوتا تھا۔
اسے وہ دن یاد آیا جب وہ سارا دن کی تھکی ہاری اپنا سامان اٹھائے گھر کو واپس آ رہی تھی۔ شوہر کی وفات کے بعد چند دن تو لوگوں نے مدد کی، لیکن کوئی کب تک کرتا ہے! آہستہ آہستہ سب رشتے داروں نے منہ موڑا اور محلے دار بھی جو شروع میں روٹی دے جایا کرتے، اب کوئی ادھر کا رخ بھی نہ کرتا۔ فاقوں کی نوبت آئی تو شوہر کا سامان لیے سڑک پر جا بیٹھی، مگر مسلسل تین دن سڑک پر گزار کر رات کو وہ ایک دن بھی بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا نہ کھلا سکی تھی۔ کچھ سرمایہ ہوتا تو وہ کچھ اور کام شروع کرلیتی، مگر آخر کو جب اس نے دیکھا کہ سڑک پر مانگنے والوں کے ہاتھ نوٹوں سے، تو کبھی سکوں سے بھرے ہوتے ہیں، تو پانچویں ہی دن وہ بھی سڑک پر ہاتھ پھیلائے لوگوں سے مانگ رہی تھی۔ ایسا کرتے ہوئے اس کی عزتِ نفس مجروح تو ہوئی کہ شوہر نے کم ہی سہی مگر ہمیشہ عزت کی روٹی کھلائی تھی۔ لوگوں کی دھتکار پھٹکار سننے کی وہ اب تک عادی نہ ہوسکی تھی۔ ہر روز جیتی، ہر روز مرتی، اور اب بیٹی کے لیے وہ ڈر رہی تھی کہ کہیں وہ بھی مایوس ہوکر بھیک مانگنے نہ لگ جائے۔ اسے بیٹی کی باتوں نے حوصلہ دیا تھا، ہمت دی تھی کہ وہ بھی ٹھیک ہوتے ہی کہیں محنت کرکے عزت کی روزی تلاش کرے گی۔ پر ابھی وہ دعا کررہی تھی: اللہ میری بیٹی کو مایوس نہ لوٹانا… اسے جو تجھ پر یقین ہے اسے اور پختہ اور کامل کردینا۔

حصہ