پاکستانی الیکشن کے نتائج اور دینی جماعتوں کی کارکردگی۔۔۔

375

مولانا طاہر مدنی (ہندوستان)
پڑوسی ملک پاکستان میں کل جنرل الیکشن ہوا اور جو نتائج سامنے آئے ہیں، ان کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نئے وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی نئی ذمہ داری سنبھالیں گے۔ آنے والا وقت بتائے گا کہ اپنے منشور پر کس حد تک عمل کر پائیں گے اور عوام سے کیے گئے وعدے کتنے پورے ہوں گے؟ اس وقت ہمارے پیش نظر دینی جماعتوں کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہے۔ ایم ایم اے کے نام سے ایک محاذ الیکشن میں شریک ہوا، جس میں جماعت اسلامی اور جمعیت العلماء کے علاوہ بعض دیگر جماعتیں شریک تھیں۔ ان کو خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی، شاید 13 یا 14 سیٹیں ہی ان کو مل سکیں اور امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق صاحب اور صدر جمعیت علماء￿ مولانا فضل الرحمن صاحب بھی اپنی سیٹ نہیں جیت سکے۔ اس صورتحال کی وجہ سے سے بعض مخلص کارکنان میں مایوسی پیدا ہونا فطری امر ہے اور معاندین کو اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا بھی خوب موقع ملتا ہے۔ خیر ان سے تو ہمیں کوئی سروکار نہیں ہے، البتہ ان مخلصین کے لیے کچھ باتیں ذکر کرنا ضروری ہے جو دین کا احیاء چاہتے ہیں اور اللہ کے کلمہ کی سربلندی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں؛

تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم رواں، ہردم جواں ہے زندگی

دینی جماعتوں کے کام کی نوعیت۔۔۔ ان کا مقصد اللہ کے دین کی اشاعت، دعوت، اصلاح، تربیت اور اقامت ہے۔ یہ ایک صبر آزما اور طویل المیعاد کام ہے۔ اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ دعوت و تبلیغ، اصلاح و تربیت، تعلیم و تذکیر، خدمت خلق اور رفاہی کام، سب اس میں شامل ہیں۔ مختلف ذرائع و وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ جماعتیں مسلسل یہ کام انجام دیتی ہیں؛

یہ نغمہ، فصل گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں، لا الہ الا اللہ…

الیکشن بھی ایک ذریعہ ہے۔ جب کبھی الیکشن آتا ہے تو دینی جماعتیں اسے بھی ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ اپنی بات لوگوں تک پہنچانے کا ایک اچھا موقع ہوتا ہے۔ اپنا منشور، اپنا دستور اور اپنا پروگرام الیکشن کے موقع پر اہل وطن کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ ہر جماعت کو اس بات کا حق جمہوریت میں حاصل ہوتا ہے اور تمام جماعتیں اپنے اس حق کا استعمال کرتی ہیں اور بڑے پیمانے پر مہم چلاتی ہیں۔ دینی جماعتیں بھی اپنے اس بنیادی حق کا استعمال کرتی ہیں۔ لاکھوں لوگوں تک اپنا پیغام پہونچا تی ہیں اور اپنے اصلاحی پروگرام کا تعارف کراتی ہیں، اقدار پر مبنی سیاست کو متعارف کراتی ہیں، بڑے پیمانے پر روابط قائم ہوتے ہیں اور کارکنان کی سیاسی تربیت بھی ہوتی ہے۔ یہ سب بجائے خود بہت بڑی حصول یابی ہے، اس لیے صرف جیت اور ہار کے پیمانے کو استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔ ہمارا کام مخلصانہ جدوجہد ہے، نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ظاہر ہے کہ الیکشن میں کامیابی انہی کو ملے گی جن کے لیے رائے عامہ ہموار ہوگی اور جو اکثریت کی پسند ہوں گے۔ اگر اکثریت لبرل ہے تو ایسی ہی طاقتیں کامیابی حاصل کریں گی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اصلاح کی کوشش ترک کردیں۔ ہمارا کام اپنی طاقت کے مطابق کوشش کرنا ہے، عملا اصلاحی پروگرام کو کامیاب کرا دینا، ہمارے بس میں نہیں ہے۔ اگر ہم نے حتی الوسع کوشش کردی تو ہم کامیاب ہیں، چاہے ہمیں ایک سیٹ بھی نہ ملے۔ در اصل ہمارا مطمح نظر، جنت میں اپنی سیٹ پکی کرانا ہے، پارلیمنٹ کی سیٹ بجائے خود مقصود نہیں ہے۔
الیکشن تو ایک پڑاؤ ہے، راہ حق کا مسافر تھوڑی دیر یہاں ٹھہرتا ہے، پہر آگے بڑھ جاتا ہے، یہ تو آتا جاتا رہے گا، لیکن دینی جماعتوں کا کام برابر جاری رہے گا، الیکشن سے پہلے، الیکشن کے دوران اور الیکشن کے بعد، و لا تمنن تستکثرکی قرآنی ہدایت کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا ہے اور ہرگز ہرگز دم نہیں لینا ہے کہ بہت کام کرلیا ہے۔ یہ تو زندگی بھر کا سودا ہے، اسے مسلسل انجام دینا ہے؛

وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام، ابھی باقی ہے…

اس لیے نتائج پر مایوسی ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔ البتہ اپنا جائزہ اور احتساب ضروری ہے۔ ہماری کوشش میں کیا کمی رہ گئی، کن پہلوؤں پر مزید توجہ درکار ہے، اس دوران کارکنوں کی کیا کمزوریاں سامنے آئیں، الیکشن میں کون کون سے عوامل کارفرما تھے، نئی حکومت کے ساتھ ہمارا کیا رویہ ہو، ہمارے مستقل کام کس طرح انجام پاتے رہیں، دین کا کام کرنے والوں میں باہمی اشتراک و تعاون کیسے قائم و دائم رہے، کارکنوں کی تربیت اور ان کا تزکیہ کیسے ہو، عصر حاضر کے علمی و عملی چیلنجز کو کس طرح قبول کیا جائے، نوجوان نسل کی ایمانی تربیت کیسے انجام پائے، خواتین اسلام کا کردار کیسے موثر بنایا جائے، ذرائع ابلاغ کا موثر استعمال کیسے ہو، تحقیقی ادارے کیسے ترقی کریں، عوامی رابطہ کیسے وسیع ہو؟ اس طرح کے مسائل پر غور و فیصلہ کرنا اور عملی پیش قدمی جاری رکھنا، بہت ضروری ہے۔ جو لوگ اپنی ملت اور ساری انسانیت کا درد اپنے سینے میں رکھتے ہیں اور سب کے لیے جیتے ہیں، وہی در حقیقت زندہ ہیں اور جن کے نزدیک صرف اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے اور جو صرف اپنے لیے جیتے ہیں، وہ اس سرزمین پر زندہ لاش ہیں۔

حصہ