ایک شام ظہورالاسلام جاوید کے نام

232

ظہور االاسلام جاوید ہمہ جہت شخصیت ہیں یہ شاعر ہیں‘ ادیب ہیں‘ صحافی ہیں اور عالمی مشاعروں کے آرگنائزر میں ایک اہم شخصیت بھی۔ ان کے فن اور شخصیت پر ڈاکٹر کلیم قیصر اور اشفاق احمد عمر نے ایک کتاب ترتیب دی ہے جو قلم کاروں اور علم دوست انسانوں میں بہت پسند کی جارہی ہے یہ اب تک عرب امارات میں متعدد عالمی مشاعرے منعقد کرا چکے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ کراچی کے رہائشی ہیں جب کہ معاشی ضروریات کی تکمیل کے لیے ابوظہبی میں مقیم ہیں ان دنوں کراچی آئے ہوئے ہیں اس لیے راقم الحروف (ڈاکٹر نثار) نے کے ایم سی اسپورٹس کلب کشمیر روڈ کراچی میں ان کی صدارت میں ایک شعری نشست کا اہتمام کیا۔ سلمان صدیقی نے نظامت کے فرائض کے ساتھ ساتھ ظہورالاسلام جاوید کے بارے میں کہا کہ اردو ادب کی ترویج و ترقی میں ان کی خدمات سے انکار ممکن نہیں انھوں نے ابوظہبی میں عالمی مشاعروں کی روایت مستحکم کی اور دنیا بھر کے عظیم المرتبت شعرا کی پزیرائی میں بھرپور کردار ادا کیا۔ صاحبِ صدر نے کہا کہ کراچی اور لاہور ادب کے بڑے دبستان ہیں ان دونوں اداروں کے شعرا کے کلام میں ایک بات قدر مشترک ہے کہ وہ امن وامان چاہتے ہیں اور معاشرتی خرابیوں کی نشاندہی کر رہے ہیں تاکہ ہم ان برائیوں سے نجات حاصل کریں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم شاعری کے ذریعے اپنی ثقافتی اور اسلامی نظریات کا پرچار کریں‘ حب الوطنی بیدار کریں تاکہ پاکستانیت پھیلے اور لسانی اکائیاں صفحہ ہستی سے مٹ جائیں۔ اس موقع پر صاحب صدر اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ اختر سعیدی‘ اجمل سراج‘ ڈاکٹر نثار حامد علی سید‘ صفدر علی انشا‘ محسن سلیم عارف شیخ‘ سہیل شہزاد اور ثانی سید اپنا اپنا کلام پیش کیا جس کے بعد ڈنر کا اہتمام کیا گیا۔ اس سلسلے میں راقم الحروف سلمیٰ خانم کا شکریہ ادا کرتا ہے کہ جن کی وجہ سے ایک شاندار پروگرام ترتیب دیا جاسکا۔

اکادمی ادبیات پاکستان کا مشاعرہ اور مذاکرہ

اکادمی ادبیات پاکستان کراچی نے احمد ندیم قاسمی کی یاد میں مذاکرے اور مشاعرے کا اہتمام کیا‘ پروفیسر خیال آفاقی نے صدارت کی‘ ڈاکٹر نزہت عباسی مہمان خصوصی اور منی اشعر مہمان اعزازی اور قادر بخش سومرو ناظم تقریب تھے۔ صاحب صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ احمد ندیم قاسمی پاکستان کے صفِ اوّل کے قلم کاروں میں شامل ہیں ان کے قومی نغمات ہمارے دلوں کو گرماتے رہتے ہیں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 13-14 اگست 1947ء کی درمیانی رات کو پشاور ریڈیو سے ٹھیک بارہ بجے قیام پاکستان کے اعلان کے ساتھ جو قومی نغمہ نشر ہوا تھا وہ احمد ندیم قاسمی کا تحریر کردہ تھا۔ اس نابغۂ روزگار شخصیت نے ہمارے قومی وقار میں اضافہ کیا ان کی غزلیں اپنی مثال آپ ہیں انھوں نے زندگی کے تمام روّیوں کو برتا اور غزل کی ترقی میں بھرپور حصہ لیا۔ ڈاکٹر نزہت عباسی نے کہا کہ 10 جولائی 2006ء کو اردو زبان و ادب کے عظیم شاعر‘ صحافی‘ محقق‘ مترجم اور افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی ہم سے جدا ہوگئے اللہ تعالیٰ انھیں غریق رحمت فرمائے وہ ایک ایسے عظیم انسان تھے کہ جن کی روشنی میں ہم ظلمتوں سے نبرد آزما ہیں ان جیسی شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔ قادر بخش سومرو ریزیڈنٹ ڈائریکٹر آف اکادمی ادبیات پاکستان کراچی نے کہا کہ احمد ندیم قاسمی کی شاعری انقلابی شاعری ہے‘ مزاحمتی شاعری ہے اور جدید ترقی پسندوں میں شامل تھے وہ معاشرتی جبر و استحصال کے خلاف تھے‘ وہ چاہتے تھے کہ ہر شخص کو بنیادی سہولیات حاصل ہوں۔ انھوں نے زندگی بھر مسلمانوں کی ترقی کے لیے جدوجہد کی۔ ان کے انتقال سے پیدا ہونے والا خلاء ابھی تک پُر نہیں ہوسکا ہے۔ اس پروگرام کے دوسرے دور میں شعری نشست کا اہتمام کیا گیا تھا۔

حصہ