ذمے دار شہری کی خوبیاں

3383

طیبہ شیریں
ہم میں سے ہر کوئی اپنی ذمہ داریوں کو ڈیوٹی سمجھ کر نہیں عبادت سمجھ کر نبھائے اور اپنی کردار و گفتار کوسیرت نبوی ؐ کے سانچے میں ڈھالے تو یقینامعاشرے کی تقدیر وتصویر بدل جائے گی جس معاشرے سے ہم اور آپ اوب چکے ہیں وہی معاشرہ ہمارے اور آپ کے لئے سکون قلب اور روح پر ور ثابت ہوگا۔ آپ جس مقام پر بھی ہیں آپ پر کچھ ذمہ داریا ں عائد ہوتی ہیں اور اس ذمہ داری کا احساس معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح دلایا ’’ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (رواہ البخاری) اگر آپ باپ ہیں تو اولاد کی تربیت کی ذمہ داری آپ پر ہے۔ اس کو اچھی تربیت دینا اس کی تعلیم پر توجہ دینا۔ وہ اسکول میں کن دوستوں کے ساتھ رہتا ہے۔ ہر روز اس کی ہر حرکت کا جائزہ لیں اور اسے اگر آپ نے ایک اچھا اور معاشرے کا ذمہ دار شہری بنا دیا تو آپ کا حق ادا ھو گیا اور اگر اولاد ہیں تو والدین کی ذمہ داری آپ پر ہے ’’اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو‘‘۔ (القرآن) ارشاد ربانی ’’تیرے رب نے یہ فیصلہ کر دیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو‘‘۔
اولاد ہونے کے ناطے آپ کا فرض اور ذمے داری ہے کہ والدین کی زندگی میں ان کے لیے دعائے خیر کرے اور وفات کے بعد ان کے لیے دعا مغفرت کرے۔ ماں باپ اولاد کے لیے اپنی خواہشات کو قربان کر دیتے ہیں مگر اپنی اولاد کی ہر خواہشات کو پوری کرتے ہیں۔ اس لیے اولاد کا حق ہے کہ ان کی خدمت میں کوئی کمی نہ آنے دے۔ اگر آپ کسی کے شوہر ہیں تو بیوی کی اصلاح اورنان ونفقہ کی ذمہ داری آپ پر ہے اور اگر آپ بیوی ہیں تو شوہر کی اطاعت آپ کے ذمے ہے۔ اگر پڑوسی ہیں تو اپنی خوشیوں میں انہیں شامل کرنا یہ آپ کا اخلاقی فریضہ ہے اور انہیں کسی طرح کی اذیت نہ دینا یہ آپ کا معاشرتی فریضہ ہے اگر وہ غمزدہ ہے تو اس کی مزاج پرسی کرنا اور اس کے غم میں شریک ہونا یہ حسن معاشرہ ہے۔
آپ معلم ہیں تو طلبہ کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری آپ پر ہے۔ ایک معلم ہی طلبہ کو اچھے اور برے میں فرق بتاتا ہے۔ اس کو زندگی کے مقصد سے آگاہ کرتا ہے۔ ایک معلم اگر اپنے پیشے سے مخلص ہو گا تو وہ اپنے شاگردون کو اچھی اخلاقی تربیت دے سکے گا۔ اسے کبھی غلط رستے کی تعلیم نہ دے۔ اسے تعلیم ہی سے آپ وہ ہر کام کر سکتے ہیں جو آپ کرنا چاھتے ہیں۔اسی طرح ایک طالبعلم پر اساتذہ کی توقیر وعزت کرنے جیسی ذمے داری عاید ہوتی ہے۔ استاد ہمیں وہ سب کچھ سیکھاتا ہے جو ہمارے والدین بھی نہیں سیکھا سکتے۔ استاد کی عزت ایسے کرو جیسے اپنے والدین کی کرتے ہو۔ایک دفعہ مشہور خلیفہ ہارون الرشید نے دیکھا کہ اس کے بیٹے مامون اور امین اس بات پر جھگڑ رہے ہیں کہ کون استاد کے جوتے اٹھا کر لائے گا۔آخر کار استاد کے کہنے پر وہ ایک ایک جوتا اٹھا لایا۔ اگلے دن ہارون الرشید نے دربار سوال کیا کہ آج سب سے زیادہ معزز شخص کون ہے، سب نے کہا کہ خلیفہ ہی سب سے معزز شخص ہے لیکن ہارون الرشید بولا کہ آج سب سے معزز شخص میرے بیٹوں کا استاد ہے جس کا جوتا اٹھانے پر میرے بیٹے فخر محسوس کرتے ہیں۔
اگر آپ حاکم ہیں تو محکوم کے ساتھ یکساں برتائو کرنا یہ آپ کا آئینی فریضہ ہے اور اگر آپ محکوم ہیں تو حاکم کی اطاعت کرناضروری ہے بشرطیکہ وہ احکام الٰہی کے خلاف نہ ہو۔ اگر آپ سیاسی رہنماہیں تو عوام کی بھلائی اور حسن انتظام آپ کے ذمہ ہے اور اگر آپ عوام ہیں تو ووٹ کے ذریعے اچھے اور مہذب سیاسی رہنما کا انتخاب کرنا۔ آپ کی بہت بڑی ذمہ داری اور ملی فریضہ ہے۔ یہ بہت ہی حساس مسئلہ ہے آ پ کی ذراسی غفلت وبے توجہی اور غلط رائے دہی سے مستقبل تاریک ہوسکتی ہے اور شاید اس جرم عظیم کا خمیازہ کہیں پوری قوم وملت کو نہ بھگتنا پڑجائے۔
بہرحال اگرآپ ایک ذمہ دار شخص ہیں اور آپ کی ذمہ داری کا دائرہ کبھی سمٹ کر چند افراد اور آپ کے گھر کی چار دیواری تک محدود ہوجاتا ہے۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں یہ ذمہ داری خود بخود آپ کے اوپر ایک مسلم ہونے ناطے عائد ہوتی ہے اور آپ کو ہرحال میں یہ ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ جب تک آپ بقید حیات ہیں اس سے نجات نہیں ہاں موت ہی آپ کو اس سے خلاصی دے سکتی ہے۔ لیکن اگر آپ نے اپنے جیتے جی اپنی ذمہ داریوں کو کماحقہ ادا نہیں کیا اور تغافل و تساہل سے کام لیا تو مرنے کے بعد بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور عدالت قہاری و جباری سے آپ بالکل بچ نہیں سکتے۔ بڑے سے بڑاظالم اور گناہ گار دنیا کی عدالت سے بچ سکتا ہے اور بچ جاتاہے۔ منصفوں کو خرید سکتا ہے گواہوں کو اپنا حمایتی بنا سکتا ہے، وکیلوں کو رشوت دے کر اپنے دعوے کو صحیح ٹھہرا سکتا ہے۔ یا تو پھر عدالت کی نگاہوں سے روپوش ہوسکتا ہے اور ہوجاتا ہے مگر وہ عدالت جس کا عادل اور منصف سمیع اور بصیر ہو ، علیم و خبیر ہو اس کی عدالت سے کون بچ سکتا ہے۔
اگر ہمارے اندر خوف الٰہی پیدا ہوجائے اور قیامت کے ہولناک منظر کا استحضار ہوجائے تو یقینا ہمارے لیے ہر ذمہ داری کو نبھانا آسان ہوجائے گا۔ ہم بخوشی اپنے حقوق کو اداکرکے ایک مثالی معاشرے کوقائم کرنے کا پابند ہوجائیں گے۔ دوسروں پر تنقید کرنے کے بجائے اور کسی کی نقطہ چینی کے بجائے اپنے ہی گریبان کو جھانکیں اور سب سے پہلے اپنی اصلاح ہم خود کریں اور جن لوگو ں سے ہم ملتے جلتے ہیں ان سے اچھے اخلاق سے ملیں خواہ وہ اپنے ہوں یا پرائے ، ہم پہلے اپنی ہر طرح کی ذمہ داریاں اٹھائیں گے تو ہی ملک ترقی کی راہ پر گامزان ہو گا۔
ایک دوسرے کو کہنے کی بجائے ہمیں خود احساس ہونا چاہیے کہ ہم کس طرح اپنے گھر ماحول معاشرے شہر ملک کو ترقی کے قابل بنا سکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے ہم اپنی ذات سے بالاتر ہو کر اجتماعی مفاد کے لیے کام کریں۔ ہر کٹھن مرحلے میں ایک ساتھ مل کر ساری مشکلات کا مقابلہ کرے تو ہی ہمارا ملک ترقی کی راہ پہ گامزان ہو گا۔ ایک دوسرے کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے سے اچھا ہے ہم خود اپنی ذمے داریوں کو سمجھے اور انہیں اچھی طرح پوری کرنے کی کوشش کرے۔ ہم اس ملک کے شہری ہیں ہمارا فرض ہے اس ملک کے لیے ہمیشہ بے غرض ہو کر اور خلوص دل سے سوچے اور اس کے لیے کام کرے۔
ہم مسلمان ایک خدا ایک رسول ایک کتاب پر یقین رکھتے ہیں پس یہ لازمی اور ناگزیر ہے کہ ہم ملت کی حیثیت سے بھی ایک ہوں اور خاص کر اپنی ذمے داریوں کا احساس بھی کریں کیونکہ احساس سے عاری انسان پتھر کی ماند ہوتا ہے۔

حصہ