ماں اور محبت

398

فائزہ خالد
کچھ چیزیں، چیزیں نہیں رہتیں احساسات بن جاتی ہیں۔ کسی کے ہونے کا احساس، کسی کی محبت کا احساس، کسی کی یادوں کا احساس۔ چیزیں بھلے ہی بے جان ہوتی ہیں مگر ان سے وابستہ احساسات زندہ ہوتے ہیں۔ احساسات سانس لیتے ہیں، انہیں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ تو آئیے کچھ احساسات کو ذیل میں لکھے گئے ایک افسانے کے ذریعے محسوس کرتے ہیں:
اپنے کمرے کو نئے سرے سے آراستہ کرنے کے بعد وہ چیزوں کا سرسری جائزہ لینے لگی۔ سب کچھ ترتیب سے رکھ دینے کے بعد وہ دروازے میں کھڑی کمرے کو مطمئن انداز میں دیکھنے لگی۔ دیواروں پر نیا پینٹ کروایا گیا تھا۔ اُس نے اپنے کمرے کا سارا فرنیچر تبدیل کروایا تھا۔ کمرے کا سارا پرانا سامان اسٹور روم کی زینت بنادیا گیا تھا۔ اُس کا کمرہ باربی موویز میں دکھائے جانے والے کسی پرنسس کے کمرے جیسا لگ رہا تھا۔ کمرے کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی بائیں جانب بیڈ رکھا ہوا تھا جس کے دونوں جانب سائیڈ ٹیبل رکھی ہوئی تھیں۔ بیڈ کی لکڑی پر انتہائی شائستہ اور خوبصورت انداز میں اسٹون ورک کروایا گیا تھا۔ بیڈ کے دائیں جانب ڈریسنگ ٹیبل رکھی تھی، جبکہ بائیں جانب گیلری کا دروازہ تھا جو سیدھا لان کی جانب کھلتا تھا۔ بیڈ کے بالکل سامنے والی دیوار میں ایل سی ڈی پیوست تھی، جبکہ کمرے کے عین وسط میں چھت پر انتہائی مہنگا فانوس لگا ہوا تھا۔ کمرے میں سفید رنگ کے انتہائی خوبصورت جالی کے پردے بھی لگوائے گئے تھے۔
وہ اپنے کمرے کو ایک نظر دیکھنے کے بعد اپنے ساتھ والے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ کمرے کا دروازہ کھولتے ہی اُس نے ایک نظر کمرے پر دوڑائی۔ یوں تو کمرہ انتہائی سلیقے سے سجایا گیا تھا، دیواروں پر نیا پینٹ کروایا گیا تھا، کمرے کی کھڑکیاں اور دروازے نئے پردوں سے آراستہ تھے، مگر فرنیچر وہی پرانا تھا۔ 28 سال پرانا… مگر آج بھی اُسے بہت سنبھال کر رکھا گیا تھا۔ وہی پرانا لکڑی کا بیڈ، جس کی پالش تو خراب ہوچکی تھی مگر لکڑی بالکل ٹھیک اور درست حالت میں تھی۔ شاید انتہائی پائیدار لکڑی سے بنایا گیا تھا، یا سنبھالنے والے کا کمال تھا۔ بیڈ کے دونوں سائیڈ پر رکھی سائیڈ ٹیبلز کی درازوں کے ہینڈل ٹوٹ چکے تھے اور بیڈ کی پائنتی کی جانب عین سامنے پرانا ڈریسنگ ٹیبل رکھا ہوا تھا۔ وہ ناگواری منہ پر سجائے کمرے کے اندر داخل ہوگئی اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنی ماں سے مخاطب ہوئی ’’ماما، آپ نے اِس مرتبہ بھی فرنیچر تبدیل نہیں کروایا؟‘‘
شیشے میں وہ اپنی ماں کے عکس کے پیچھے اس طرح کھڑی تھی کہ اُسے اپنی ماں کے عکس کے ساتھ اپنا عکس بھی دکھائی دے رہا تھا۔ جب اُسے اپنے سوال کے جواب میں دوسری جانب خاموشی دکھائی دی تو وہ دوبارہ مخاطب ہوئی ’’ماما! اب آپ اس شیشے کو ہی دیکھ لیجیے، ایک جانب عکس موٹا دکھائی دیتا ہے تو دوسری جانب دبلا۔ آپ کو کتنی مرتبہ کہا ہے کہ کم از کم اس ڈریسنگ ٹیبل میں شیشہ ہی نیا لگوا لیجیے، اور یہ جو اس کی درازوں کے ساتھ والے خانے ہیں ان کے ٹوٹے ہوئے دروازے ہی ٹھیک کروا لیجیے۔ ماما! ایسا کیا ہے اس فرنیچر میں جو آپ کو اس سے اتنا لگاؤ ہے؟ مجھے تو اس میں کچھ خاص دکھائی نہیں دیتا۔‘‘
وہ شیشے میں اپنی ماں کے چہرے پر نمودار ہوتی ہوئی ہلکی سی مسکان دیکھ سکتی تھی۔ چند لمحات کی خاموشی کے بعد اس کی ماں مخاطب ہوئی ’’بیٹا! یہ فرنیچر دیکھنے میں بھلے ہی پرانا ہوگیا ہے مگر میرے لیے یہ آج بھی بالکل نیا ہے۔ گویا ابھی ابھی اسے بازار سے خرید کر لایا گیا ہو۔ یہ فرنیچر بھلے ہی پرانا ہوگیا ہے مگر اس سے وابستہ احساسات بالکل نئے ہیں۔ ایک دم تازہ!‘‘ آخری تین الفاظ انہوں نے گہرا سانس لیتے ہوئے اس انداز میں ادا کیے گویا کسی گہری سوچ میں ہوں۔
چند لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ پھر سے گویا ہوئیں ’’بیٹا! یہ فرنیچر تمہاری نانی نے مجھے جہیز میں بنوا کر دیا تھا، اور اس سے وابستہ احساسات میری امی سے جڑے ہوئے ہیں۔ میں آج بھی اپنی ماں کا لمس اس فرنیچر پر محسوس کرسکتی ہوں۔ اس فرنیچر کی میرے کمرے میں موجودگی مجھے دلی راحت اور سکون دیتی ہے۔ اور یہ شیشہ؟ تمہیں پتا ہے اِسے میں کیوں تبدیل نہیں کرواتی؟ کیونکہ اس شیشے میں سب سے پہلا عکس جو میں نے دیکھا تھا وہ میری ماں کا تھا۔ آج بھی اُن کا عکس مجھے اس شیشے میں دکھائی دیتا ہے، آج بھی مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ میرے پاس ہیں‘‘۔ وہ شیشے میں اپنی ماں کی آنکھوں میں اُمنڈتے ہوئے آنسو دیکھ رہی تھی، اور اس کی ماں اپنی آنکھوں سے اُس کی نانو کا عکس دیکھ رہی تھیں۔ اس سے پہلے کہ اس کی ماں مزید کچھ کہتیں، وہ انہیں اپنی بانہوں کے حصار میں لیتے ہوئے بولی ’’ماما! کبھی کبھار آپ بہت مشکل باتیں کرتی ہیں جو مجھے بالکل بھی سمجھ میں نہیں آتیں۔‘‘ وہ یہ کہہ کر کمرے سے باہر چلی گئی۔
آج وہ خود اپنی بیٹی کو باہر جاتا دیکھ رہی تھی۔ جب کمرے کا دروازہ بند ہو ا تو وہ شیشے میں اپنے عکس سے مخاطب ہوئی ’’ماں! مجھے آپ کی ساری باتیں سمجھ میں آگئی ہیں‘‘۔ اس کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو اس کے رخساروں کو بھگوتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل پر گرے تھے۔

حصہ