جائز کام میں سفارش کا اجر و ثواب

661

ام محمد عبداللہ
’’بیگم صاحبہ! آج کل بارشیں بہت ہورہی ہیں۔ کچا مکان ہے، چھت ٹپکنے لگتی ہے۔ بہت مشکل ہوجاتی ہے۔ اگر آپ مجھے کچھ رقم دے دیں تو مہربانی ہوگی‘‘۔ برکت بی بی امی جان سے کہہ رہی تھیں۔ سلمان نے نگاہ اٹھا کر انہیں دیکھا۔ برکت بی بی بے چارگی جبکہ امی بیزاری لیے ہوئے تھیں۔ ’’ابھی جاؤ، میں پھر دیکھوں گی‘‘۔ وہ اسے اٹھانا چاہتی تھیں۔ ’’بیگم صاحبہ پھر میں کب آؤں؟‘‘ اس نے پوچھا۔ ’’میں اگر کوئی بندوبست کرسکی تو کسی بچے کو بھیج دوں گی، تم مت آنا‘‘۔ امی جان نے ٹکا سا جواب دیا۔ وہ سخت دل نہیں تھیں، اکثر لوگوں کے کام آتیں، لیکن اس وقت مہینے کا اختتام تھا اس لیے وہ برکت بی بی کی مدد سے ہچکچا رہی تھیں۔
سارا دن سلمان کا ذہن برکت بی بی کے بوسیدہ مکان میں اٹکا رہا۔ وہ جانتا تھا برکت بی بی سچ کہہ رہی تھیں۔ رات ہوچکی تھی۔ ’’اوہو! بجلی پھر چلی گئی۔ امی جان یہاں بہت گرمی ہے۔ میں اور سائرہ تھوڑی دیر کے لیے چھت پر چلے جائیں؟‘‘ سلمان نے امی سے پوچھا۔ ’’چلے جاؤ لیکن ذرا دھیان سے۔‘‘
چھت کی کھلی فضا کمرے کے بند ماحول سے بہتر تھی۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ چودھویں کا چاند اپنی حسین جگمگاہٹ کے ساتھ بادلوں میں نکلتا چھپتا دلکش منظر پیش کررہا تھا۔ سلمان اور سائرہ چھت کی دیوار کے ساتھ کچھ اس طرح لگ کر کھڑے ہوئے کہ سارے شہر کا منظر ان کی نگاہوں کے سامنے آگیا۔ دور جی ٹی روڈ پر گاڑیوں کی قطار، دور بہت دور اونچے اونچے پہاڑ اور ان پر کھڑے درخت۔ ’’کتنا اچھا لگ رہا ہے‘‘۔ سائرہ نے اشارہ کیا۔ ’’جی ہاں‘‘ سلمان نے تائید کی۔ لیکن پھر خودبخود اُس کی نظریں کالونی کے اُس طرف کچی بستی کی جانب مڑ گئیں، جہاں انسانوں کی دریافت کردہ سہولیات تو مفقود تھیں لیکن قدرت کی چاندنی اتنی ہی فیاضی سے وہاں بھی بکھری ہوئی تھی جتنی کہ یہاں۔ برکت بی بی کا گھر بھی تو اسی کچی بستی میں ہے، اس نے سوچا۔
’’سائرہ تمہیں پتا ہے برکت بی بی امی سے کچھ قرض مانگ رہی تھیں‘‘۔ سلمان نے سائرہ کو مخاطب کیا۔ ’’جی ہاں دن میں کچھ ایسی بات ہورہی تھی‘‘۔ سائرہ نے جواب دیا۔ ’’امی اس کی مدد کرنے سے ہچکچا رہی تھیں‘‘۔ سلمان نے سائرہ کو بتایا۔ ’’اچھا! میں نے توجہ نہیں دی‘‘۔ سائرہ نے جواب دیا۔ ’’سائرہ میرا دل چاہ رہا ہے میں امی سے برکت بی بی کی سفارش کروں۔ وہ ضرورت مند ہیں۔ امی صدقہ و خیرات اکثر دیا کرتی ہیں۔ اس مرتبہ برکت بی بی کو دے دیں‘‘۔ سلمان نے سائرہ کی جانب دیکھا۔ ’’جی بھیا‘‘۔ ’’سفارش سے یاد آیا وہ حدیث بھی ہے ناں: ’’جائز سفارش کرو اجر پاؤ گے‘‘۔ تو تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘ سلمان نے سائرہ سے پوچھا۔ اس سے پہلے کہ سائرہ جواب دیتی، ابا جان جو ابھی اوپر آئے تھے، پیار سے بچوں سے پوچھنے لگے: ’’بچو! چھت پر کیا کررہے ہو؟‘‘ ’’بابا جانی ہم امی جان سے برکت بی بی کی سفارش اور حدیث ’’سفارش کرو اجر پائو گے‘‘ پر بات کررہے ہیں، آپ ہماری رہنمائی کریں۔‘‘
’’آؤ بیٹھتے ہیں‘‘۔ ابا جان نے چھت پر پڑی بینچ پر بیٹھتے ہوئے سائرہ اور سلمان کو اپنے دائیں بائیں بٹھا لیا۔ ’’یہ حدیث صحیح بخاری اور مسلم شریف میں ہے۔ حضرت ابوموسی اشعریؓ راوی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جب کوئی ضرورت مند آتا تو آپؐ اپنے شرکائے مجلس کی طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے: اس کے لیے سفارش کرو تمہیں بھی اجر دیا جائے گا اور اللہ اپنے نبی کی زبان پر جو پسند فرماتا ہے فیصلہ فرما دیتا ہے۔‘‘ بابا جانی نے بچوں کو حدیث کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا ’’ہر اچھے اور نیکی کے کام کے لیے سفارش نہ صرف پسندیدہ ہے بلکہ اس پر اجر و ثواب بھی ہے‘‘۔ ’’ابو سفارش ہم کن کن کاموں میں کرسکتے ہیں؟‘‘ سائرہ نے پوچھا۔ ’’بیٹے ہر جائز اور نیکی کے کام میں سفارش کی جاسکتی ہے‘‘ ابو نے بتایا۔
’’جیسے کسی غریب ذہین بچے کی کسی تعلیمی ادارے میں مفت داخلے کی سفارش، کسی غریب کو کھانا کھلانے کی سفارش‘‘۔ سلمان سوچتے ہوئے بولا۔ ’’کسی باصلاحیت نوجوان کی نوکری کے لیے سفارش، یا پھر کوئی بھی نیکی کا کام کرنے پر انعام دئیے جانے کی سفارش‘‘۔ سائرہ نے بھی چند مثالیں دیں۔ ’’بالکل میرے بچو!‘‘ بابا جان اپنے بچوں کی ذہانت پر بہت خوش ہوئے۔ ’’بچو! یاد رکھنا، ناجائز کاموں پر سفارش نہیں ہے‘‘۔ ’’ناجائز کام؟ ناجائز کام کون سے ہوتے ہیں بابا جانی؟‘‘ سلمان نے پوچھا۔ ’’حرام کام مثلاً شراب کی بوتل دینے کی سفارش، سود لینے کی سفارش، یا پھر کسی نکمے اور غیر مستحق شخص کو نوکری دئیے جانے کی سفارش وغیرہ۔ ہاں وہ واقعہ تو تم جانتے ہی ہو جس میں فاطمہ نامی ایک عورت چوری کے جرم میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لائی گئی اور آپؐ نے اُس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، تو لوگوں نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ آپ دربارِ رسالت میں اس عورت کی سفارش کریں کہ اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے۔ جب حضرت اسامہؓ نے اس عورت کی سفارش کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سفارش کو ناپسند فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: کیا تم اللہ کی حدود میں سفارش کرتے ہو! اگر فاطمہ بنتِ محمد بھی چوری کرتی تو اس کے ہاتھ بھی کاٹ دئیے جاتے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ حرام کاموں اور اللہ کی حدود میں سفارش نہیں ہے‘‘۔ ’’جزاک اللہ خیرا کثیرا بابا جانی‘‘۔ سلمان اور سائرہ بات سمجھ جانے کی خوشی میں بابا جانی سے لپٹ گئے۔ ’’بجلی آگئی ہوگی، جاکر سونا چاہیے‘‘۔ بابا جانی بولے۔
’’امی جان! برکت بی بی واقعی ضرورت مند ہیں۔ آپ ان کی مدد کردیں‘‘۔ سلمان نے ناشتے پر امی جان کو مخاطب کیا۔ ’’جی امی جان میں بھی ان کی سفارش کرتی ہوں‘‘۔ سائرہ نے امید بھری نظروں سے انہیں دیکھا۔ ’’آپ بچوں کی یہی سفارش ہے تو ٹھیک ہے، لیکن نیکی کے اس کام میں آپ کو بھی حصہ لینا ہوگا‘‘ امی جان بولیں۔ وہ دل ہی دل میں بچوں کی اچھی سوچ پر بہت خوش ہوئیں تو سوچا کہ چلو ذرا ان کا امتحان بھی ہوجائے۔ ’’یہ رہا ہمارا حصہ‘‘ سائرہ اور سلمان نے اپنا کوائن باکس امی جان کی جانب بڑھایا۔ ’’ہم دونوں کیرم بورڈ کے لیے پیسے جمع کررہے تھے۔ یہ آپ برکت بی بی کے لیے رکھ لیں، ہم پھر جمع کرلیں گے۔‘‘امی اور بابا جانی ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرا دئیے۔ ان کے دل گواہی دے رہے تھے کہ ہمارے بچے اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار اور اسوۂ رسولؐ پر عمل کرنے والے ہوں گے۔ ان شاء اللہ

حصہ