مہرالنساء، سچی کہانی

338

فارحہ شبنم (کینیڈا)
(آخری قسط)
ابھیشک کی تقریباً روزانہ ہی عاصم بھائی سے آفس میں ملاقات ہوتی تھی۔ کبھی کبھار ویک اینڈ پر بھی یہ لوگ کچھ اور دوستوں کے ساتھ کافی شاپ میں گپ شپ کے لیے جمع ہوتے۔ عید کے بعد انہوں نے ’اکنا‘ کی طرف سے پارک میں باربی کیو کے لیے مدعو کیا۔ مجھے سے عالیہ بھابھی نے فون کرکے آنے کے لیے بہت اصرار کیا۔
ہم وہاں پہنچے تو کچھ لوگ پہلے ہی آچکے تھے۔ خواتین کا علیحدہ انتظام تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں خاصے لوگ جمع ہوگئے تھے۔ خاصا ہلا گلہ رہا۔ بہت دنوں کے بعد ثمرین باجی سے بھی ملاقات ہوئی، ورنہ میں فون پر ہی اُن سے بات کرتی تھی۔ میں وہاں اُن سے گلے لگی تو دیر تک چھوڑ ہی نہ سکی۔ وہ میری دوست ہی نہیں، محسن بھی تھیں اور میری استاد بھی۔ میں کبھی اُن کے اس احسان کا بدلہ نہیں اتار سکتی تھی جو انہوں نے قرآن سے جوڑ کر میرے اوپر کیا تھا۔
اس دن ہم واپس لوٹے تو مجھے ابھیشک بہت خاموش لگا۔ میں بھی پارک میں سونیا کے ساتھ اتنی دیر گزارنے پر تھک چکی تھی، لہٰذا سفر چپ چاپ گزرا۔ لیکن جب جب میری نظر ابھیشک پر پڑتی تھی میرے دل سے اس کے لیے دعا ضرور نکلتی تھی۔ البتہ میرا دل اب اطمینان کی حالت میں رہتا تھا اور میں صبر کے ساتھ منتظر تھی کہ کب رب کے حضور میری خاموش دعاؤں کو اذنِ قبولیت ملے گا۔
اگلے چند دن اسی طرح گزرے۔ ابھیشک مجھے کچھ کھویا کھویا اور سنجیدہ سا نظر آتا۔ بالآخر میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو ہی گیا اور میں نے ایک دن کھانے کے دوران اُس سے پوچھ لیا:
’’کیا بات ہے، سب خیر تو ہے؟ بہت خاموش ہو؟‘‘
’’ہاں سب ٹھیک ہے۔ تم بتاؤ عبیرہ اور ممی سے بات ہوئی؟ کیسے ہیں وہ لوگ‘‘۔ وہ ٹالتے ہوئے بولا۔ میرا ارادہ تھا کہ اس سے اُگلوا کر رہوں گی، مگر ہمیشہ کی طرح سونیا نے عین اسی وقت رونا شروع کردیا، اور بات آگے نہ بڑھ سکی۔
اگلے دن میں اُس کے آفس جانے کے بعد سونیا کو خوش باش کھیلتا دیکھ کر کپڑے دھونے لگی۔ بہت دن سے یہ کام ابھیشک نے اپنے ذمے لے رکھا تھا۔ دھلے ہوئے کپڑے جب جگہ پر پہنچائے تو ابھیشک کے کپڑوں کی بے ترتیبی دیکھ کر سیٹ کرنے کے لیے باہر نکال لیے۔ اسی دوران اچانک ان کپڑوں کے درمیان رکھی قرآن کے انگلش ترجمے کی کاپی میرے ہاتھ میں آئی۔ میں اسے دیکھ کر ایک لمحے کو حیران رہ گئی۔ یہ کہاں سے آیا؟ کیا عاصم بھائی نے دیا ہے؟ شاید پارک والے باربی کیو میں دعوہ کے اسٹال سے اٹھایا ہوگا۔ میرا ذہن مختلف سوچوں میں گھرا تھا۔ میں نے ترتیب سے کپڑے واپس رکھے اور قرآن مجید کی کاپی بھی وہیںسائیڈ پر رکھ دی۔ تاہم اب وہ چھپی ہوئی نہیں بلکہ سامنے ہی رکھی تھی۔ میں نے وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھی اور اللہ کے آگے دوبارہ دل کھول کر روئی اور گڑگڑا کر دعا مانگی۔ اس طرح اللہ جی کے آگے اپنا دکھ کھول کر رکھنے سے میرا دل بہت ہلکا ہوجاتا تھا۔ قرآن مجید کی وہ کاپی مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت کی طرح محسوس ہورہی تھی اور بہت عرصے بعد دل ایک انجانی سی مسرت محسوس کررہا تھا۔
شام میں آفس سے واپس آکر اس نے معمول کے برخلاف کپڑے نکالنے میں دیر لگائی تو میں نے آگے بڑھ کر جھانکا۔ وہ خاموشی سے کھڑا کلوزٹ میں دیکھ رہا تھا۔ یقینا اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ میں نے قرآن دیکھ لیا ہے۔ پھر شاید اس کو محسوس ہوگیا کہ میں دیکھ رہی ہوں تو اِس سے پہلے کہ میں ہٹتی، وہ اچانک پلٹ کر بولا ’’مہرو! تم بہت جاسوس نہیں ہوتی جارہیں؟‘‘ میں گڑبڑا گئی اور بولی ’’ابھیشک میں تو صرف تمہارے کپڑے سیٹ کررہی تھی، میرا مقصد جاسوسی کرنا نہیں تھا۔ آپ جانتے ہیں میں ایسی نہیں ہوں‘‘۔ آج کل میں اُسے مخاطب کرتے ہوئے تم اور آپ میں بہت کنفیوژ ہوجاتی تھی۔ قرآن کے تفصیلی مطالعے کے بعد مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ میرا اور اُس کا صرف محبت اور برابری کا ہی نہیں، ادب کا بھی رشتہ ہے۔ مگر ابھی تک اسے’آپ‘ کہہ کر بلانے کی عادت پکی نہیں ہوئی تھی۔ ’آپ‘ سے پکارتی بھی تو وہ اپنی مسکراہٹ چھپاکر اس طرح دیکھتا تھا جیسے کہہ رہا ہو ’’ارے مہرو! یہ تم ہی ہو ناں؟‘‘ اُس کے اِس انداز پر میں خود جھینپ جاتی تھی۔ دراصل یونیورسٹی کے زمانے میں ہم دونوں مردوعورت کی برابری کے لیے خاصے vocal ہوتے تھے۔ اور اب اُس کو بڑی حیرت ہوتی تھی کہ میں اُسے برابری کے بجائے ادب اور احترام کا درجہ دیتی تھی۔ ایک بڑا فائدہ اگرچہ اس کا یہ بھی ہوا تھا کہ پہلے جو ہمارے آپس کے کبھی جھگڑے ہوتے تھے وہ بہت کم ہوگئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ میں مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی مزید صفائی دینے کے بجائے مجرموں کی طرح سر جھکا ئے کھڑی تھی۔ وہ کلوزٹ سے چند قدم پیچھے ہٹ کر میری طرف آیا اور میری ٹھوڑی کو اپنے ہاتھ سے اوپر کرکے مسکراتے ہوئے بولا ’’میں تو شادی کی اینی ورسری پر تمہیں یہ سرپرائز دینا چاہتا تھا۔ دراصل رات کے پچھلے پہر اٹھ اٹھ کر جو تم اتنے زور وشور سے میرے لیے دعائیں کرتی تھیں تو میں نے سوچا کچھ دن ایسے ہی تمہاری دعاؤں کا سایہ مجھ پر رہے تو اچھا ہے۔ اب جو تم نے جاسوسی کرکے معلوم کر ہی لیا ہے تو چلو میں تمہیں بتا دیتا ہوں۔ ویسے تو عاصم بھائی نے دو دن پہلے مجھے کلمہ پڑھادیا ہے لیکن کل جمعہ کو اُن کے ساتھ مسجد جاکر باقاعدہ کلمہ پڑھ رہا ہوں۔ انہوں نے میرے لیے عبداللہ نام تجویز کیا ہے۔ مہرو! تمہیں یہ نام پسند تو ہے ناں۔‘‘
خدا جانتا ہے کہ اس لمحے کے لیے میں نے کتنی دعائیں کی تھیں اور کتنی مرتبہ اس لمحے کے آنے سے پہلے میں نے اس کو اپنے تصور کی آنکھ سے دیکھا تھا، مگر آج جب واقعی یہ وقت آیا تو میں گنگ تھی۔ میری ریاضت کا اتنا بہترین اور اتنا جلدی بدلہ مل جائے گا یہ میں نہیں جانتی تھی۔ میرے کانوں میں پھر اس کی آواز ٹکرائی:
’’مہرو! عاصم بھائی کہہ رہے تھے کہ ہمارا نکاح بھی اسلامی طریقے پر دوبارہ کرنا ہوگا‘‘۔ میری آنکھوں میں آنسو تھے مگر لب مسکرا رہے تھے۔ اس سے پہلے کہ سونیا سو کر اٹھتی، میں نے جلدی سے شکرانے کے نفل ادا کرنے کے لیے مصلیٰ بچھایا۔ میں نماز پڑھنے کے لیے دوپٹہ لپیٹ رہی تھی اور وہ دونوں ہاتھ سینے پر باندھے ذوق و شوق سے کھڑا مجھے دیکھ رہا تھا۔ میرا دل چاہتا تھا کہ کاش وقت ٹھیر جائے اور میں اسی طرح ہمیشہ اس لمحے کی لذت سے لطف اٹھاتی رہوں۔

حصہ