افراط کولیسٹرل

562

ڈاکٹر سید اسلم
’’جب تم غذا سے علاج کرسکتے ہو تو دوا تجویز نہ کرو۔‘‘ رازی (850ء۔923ء)
کولیسٹرول موم اور صابن کی طرح کا مواد ہے جو جسم کے تمام خلیات اور خانوں کا جزو ہے۔ کولیسٹرول کیمیائے حیات کے لیے ضروری ہے، جس کا عمل ہر دم ہمارے جسم میں جاری ہے۔
لفظ کولیسٹرول رومی اور یونانی حروف سے ماخوذ ہے۔ کول بمعنی صفرا، اور اسٹرول بمعنی ٹھوس۔ اس طرح کولیسٹرول کے لغوی معنی سنگِ صفرا کے ہیں جو آج سے ڈھائی سو سال قبل1769ء میں اول اول پتّے کے سنگریزوں سے حاصل ہوئی تھی۔ ہر ذی حیات کو بقائے زندگی کے لیے اس کی کچھ مقدار چاہیے۔ کولیسٹرول جسم میں بھی بنائی جاتی ہے، غذا کے ذریعے بھی داخلِ جسم ہوتی ہے اور کیمیائی اعمال میں آپ سے آپ استعمال ہوتی رہتی ہے، جس کی وجہ سے جسم کا فعل اور صحت برقرار رہتی ہے۔ جسم میں حیاتین ’’د‘‘ اسی سے بنتی ہے، اسی طرح یہ اکثر ہارمون کا بھی جزو ہے۔ اس بیان سے اس کی اہمیت واضح ہے۔
ہارمون جسم میں پیدا ہونے والے انتہائی ضروری لعاب ہیں جن کے کیمیائی اثر سے نشوونما و توانائی حاصل ہوتی ہے اور جنسی خصوصیات پیدا ہوتی ہیں۔ ان میں وہ ہارمون بھی شامل ہیں جن پر مردانگی اور بانکپن کا دارومدار ہے، اور وہ بھی جن پر نسائیت اور نسوانی حسن و جمال کا۔ ان پر استقلالِ حیات کی ذمے داری بھی ہے۔
کولیسٹرول جسم کی ساخت میں اسی طرح کام آتی ہے جس طرح چونا کسی عمارت کی اینٹوں کو جوڑتا ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی بافتوں میں بھی موجود ہے۔ کولیسٹرول سے خلیوں کی وضع، یک جہتی اور خلیوں کے چاروں طرف جھلی کی سطح برقرار رہتی ہے۔ یہ اعصاب پر اس طرح نیام چڑھاتی ہے جس طرح غلاف بجلی کے تاروں پر ہوتا ہے، اس وجہ سے بھی اس کو سخت، دبیز، پائیدار، بے لچک اور ناقابلِ شکست ہونا چاہیے۔ کولیسٹرول ہی کے طفیل جگر سے ضروری صفرا کی تولید ہوتی ہے، چونکہ کولیسٹرول ناقابلِ حل شے ہے، اس لیے یہ چربی کے ساتھ آمیزش کرکے اس طرح کا مرکب بناتی ہے جو خون میں آسانی سے گردش کرسکے۔ اس غرض سے یہ لحمیات اور چربی سے مل کر روغنی لحمیات بناتی ہے۔ یہ لطیف روغنی لحمیات کی ساتھی ہے۔ اگر لطیف روغنی لحمیات زیادہ ہیں تو یہ بھی زیادہ ہے، اگر وہ کم ہیں تو یہ بھی کم ہے۔ لطیف روغنی لحمیات کی کثرت دل کی رگوں کے لیے سخت مضر ہے۔
کولیسٹرول بجائے خود ایک سخت پائیدار شے ہے جس کو توڑنا، ہضم کرنا، اس سے نمٹنا کارِ دارد ہے۔ زیادہ تر امور کولیسٹرول آزادانہ سرانجام دیتی ہے لیکن کچھ کام ایسے ہیں جو روغن کے ساتھ آمیزش کرکے دیتی ہے۔ بہرحال بغیر کولیسٹرول کے بھی زندگی ناممکن ہے۔
جب چربی کھانے کی نالی میں داخل ہوتی ہے تو صفرا کی تولید شروع ہوجاتی ہے۔ صفرا ایک کیمیائی شے ہے جو چربی کو ہضم اور جذب کرنے کے لیے جگر میں پیدا ہوتی ہے۔ صفرا کا جزوِ غالب کولیسٹرول ہے۔ کولیسٹرول کی بہترین رفیق غیر منجمد چکنائی یا تیل ہے۔
تیل جگر کو صفرا کی تولید کے لیے آمادہ کرتا ہے۔ جس قدر تیل کھایا جائے گا، اسی قدر صفرا کی پیدائش ہوگی، اسی قدر صفرا میں کولیسٹرول کا اخراج ہوگا اور جسم میں جو کولیسٹرول ہے وہ اس طرح سے صفرا کی شکل میں آنتوں سے خارج ہوکر صرف ہوجائے گی۔
تیل کھانے سے جگر باعمل رہتا ہے اور اس کا فعل درست۔ یہ تیل ہی ہے جو جسم اور خون سے کولیسٹرول کو تیز رفتاری سے خارج کرکے جسم کو اعتدال پر رکھتا ہے، اور یہ فطری طریقہ ہے۔ صحیح غذا یہ ہے کہ خوراک میں چربی نہیں صرف تیل ہو اور وہ بھی کم مقدار میں۔ اسی لیے بقراط نے کہا تھا کہ اصل علاج غذا ہے۔
اگر غذا میں جزوِ غالب چربی اور گھی ہے، یا تیل کسی وجہ سے میسر نہ آئے تو کولیسٹرول ٹھوس چربی کے ساتھ مل کر ایسا پائیدار مرکب بنا لیتی ہے جس کے لیے عام مقدار سے زیادہ کولیسٹرول چاہیے۔ اس طرح کولیسٹرول آنتوں کے راستے خارج نہیں ہوتی بلکہ چربی کے ساتھ مل کر خون میں گردش کرتی ہے۔ اس کی خون میں مقدار بڑھ جاتی ہے، یعنی غذا میں منجمد چربی زیادہ ہے تو صفرا کی تولید میں کمی ہوجائے گی اور خون سے کولیسٹرول خارج نہیں ہوگی۔
انسانی جسم میں جس قدر کولیسٹرول موجود ہے اس کا نہایت ہی حقیر حصہ (دس پندرہ فیصد) خون میں ہے، اس لیے خون کی کولیسٹرول جسم کی کولیسٹرول کا صحیح پیمانہ تو نہیں لیکن اشارہ ضرور ہے، اگر خون میں افراطِ کولیسٹرول ہے تو اس سے یہ مطلب اخذ کرنا درست ہے کہ تمام جسم میں کولیسٹرول حد سے زیادہ ہے۔
ہمارے جسم کو کیمیائے حیات کے لیے صرف نصف گرام کولیسٹرول کی روزانہ ضرورت ہے، لیکن اس سے دگنی مقدار جسم میں پیدا ہوتی ہے۔ یعنی ضرورت کم ہے اور رسد زیادہ ہے۔ جو اطباء غذا میں کولیسٹرول کی اجازت دیتے ہیں (حالانکہ نہیں دینی چاہیے) وہ بھی 200 ملی گرام روزانہ سے زیادہ مناسب نہیں سمجھتے۔ تقریباً اس قدر کولیسٹرول انڈے کی زردی یا پائو کلو گوشت میں ہوتی ہے۔
کولیسٹرول ہمیں مختلف ذرائع سے ملتی ہے۔ جسم میں دو تہائی کولیسٹرول تو جگر سے آتی ہے جہاں یہ بنائی جاتی ہے، اور ایک تہائی غذا سے حاصل ہوتی ہے۔ خوراک میں کولیسٹرول اُس غذا سے حاصل ہوتی ہے جو حیوانی ذرائع سے ملتی ہے، کیونکہ کولیسٹرول سبزیوں میں تو ہوتی ہی نہیں۔ کولیسٹرول کے ذرائع گوشت، چربی، عضوی گوشت (گردہ، کلیجی، مغز، دل، تلی)، انڈے کی زردی، جھینگا، مکھن، گھی، پنیر، دودھ، ملائی، اوجڑی، نہاری، پائے، مرغی، بطخ ہیں۔ بچھڑوں کے مغز میں کولیسٹرول کی مقدار عام گوشت کے مقابلے میں سو گنا زیادہ ہے لیکن عملی اعتبار سے اس کی اہمیت اس لیے نہیں کہ یہ روز کی غذا نہیں۔ سینے کا چکنا گوشت، قورمے کا تار، مچھلی کے انڈے، نانبائی کی مصنوعات (کیک، پیسٹری، بسکٹ) اور مٹھائیوں میں کولیسٹرول موجود ہے۔
میدہ و شکر سے چونکہ منجمد چربی میں اضافہ ہوتا ہے، اس لیے کولیسٹرول بھی بڑھتی ہے، لیکن کولیسٹرول کا اصل مخزن گوشت، ملائی اور انڈہ ہے، اور معمور چربی سے اس میں انتہائی اضافہ ہوتا ہے۔ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ پرہیز کے جنون میں عضوی گوشت مثلاً جگر وغیرہ کو تندرست آدمی کی غذا سے بالکل خارج نہ کردیا جائے، کیونکہ یہ حیاتین ’’د‘‘ اور فولاد کا بیش قیمت ذریعہ ہیں، صرف تندرست افراد گاہے گاہے قلیل مقدار میں لیں۔
کولیسٹرول کی اندرونی افزائش کی ایک تو طبعی وجہ ہے کہ یہ صفرا کا جزو ہے اس لیے اس کی تولید ضروری ہے، لیکن بعض دفعہ غیر معمولی حالات بھی اس کی افزائش کا سبب بن جاتے ہیں۔ مثلاً فربہی، تمباکو نوشی، ہمیشہ نشینی، کرب و تفکرات، مئے خواری، ضبطِ ولادت کی گولی، موسم سرما اور خزاں وغیرہ۔
کولیسٹرول موروثی اثرات کی وجہ سے بھی بڑھتی ہے اور نامعلوم اسباب کی وجہ سے بھی۔ جس زمانے میں انتخابات ہوتے ہیں یا آمدنی کے گوشوارے داخل ہوتے ہیں، خون میں کولیسٹرول بڑھ جاتی ہے۔ زمانۂ حمل، عفونت لبلبہ، مزاحمتی یرقان (جبکہ صفرا کے نکاس میں رکاوٹ ہو)، تفریط تھائیرائیڈ میں بھی کولیسٹرول بڑھ جاتی ہے۔ بعض وجوہ جن کی وجہ سے کولیسٹرول بڑھ جاتی ہے ابھی منظر عام پر نہیں آئی ہیں۔ اس کے بڑھنے میں مزاج اور طرزِ زندگی کا بھی دخل ہے۔
اُن تمام خوردنی تیلوں میں کولیسٹرول نہیں ہوتی جو عام حرارت پر نہیں جمتے۔ دال، گندم، دھان، سویابین، چنا، جو، جوار، پودوں اور ان سے حاصل ہونے والی غذائوں میں کولیسٹرول نہیں ہوتی۔ چونکہ کولیسٹرول کسی بھی سبزی ترکاری میں نہیں ہوتی اس لیے سبزی خوروں کی کولیسٹرول بہ نسبت گوشت خوروں کے، کم ہوتی ہے۔ پھلوں میں کولیسٹرول نہیں ہوتی مگر یہ اسی قدر کھائے جائیں کہ وزن نہ بڑھے، کیونکہ فربہی کسی وجہ سے بھی ہو، کولیسٹرول کو بڑھا دیتی ہے۔
یہ بات اب شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ جب منجمد چکنائی اور کولیسٹرول بکثرت کھائی جاتی ہے تو جسم میں ان کی مقدار بڑھتی ہے۔ اور جس قدر کولیسٹرول خون میں زیادہ ہوگی اسی قدر مرضِ تاجی کا امکان بڑھے گا، اور انجامِ کار اس کی پیچیدگیاں بشمول ہلاکت عام ہوں گی۔
تمام دنیا کے نوزائیدہ بچوں میں کولیسٹرول کی مقدار 60۔70 ملی گرام فیصد ہوتی ہے، لیکن پانچ سال کی عمر کے بعد سے طبقاتی لحاظ سے فرق آنا شروع ہوجاتا ہے۔ یعنی عسرت اور ثروت کے لحاظ سے اس میں کمی بیشی ہوجاتی ہے۔ خوشحال خاندانوں کے بچوں میں اس کی کثرت ہورہی ہے۔ بلوغ کی حالت میں کولیسٹرول 160 ملی گرام فیصد سے زیادہ نہ ہو۔ یہ اب عام طور پر معلوم ہے کہ اگر کولیسٹرول 200 ملی گرام فیصد سے کم ہے تو حملۂ قلب کا امکان کم ہے، لیکن جب 300 ملی گرام فیصد ہو تو خطرہ نہایت زیادہ ہوجاتا ہے۔ جن افراد میں یہ 150 تھی انہیں حملۂ قلب نہیں ہوا۔
مردوں میں کولیسٹرول کی زیادتی چالیس سال کی عمر کے قریب شروع ہوتی ہے۔ اس لیے کولیسٹرول کی پیمائش تیس سال کی عمر سے کی جائے۔ لیکن جن لوگوں میں تاجی کا خاندانی مرض ہے اُن کے لیے یہ اشد ضروری ہے کہ تیس سال سے قبل اس کے متعلق معلومات بہم پہنچائی جائیں۔
ایک دفعہ کی پیمائش غلط بھی ہوسکتی ہے، وزن کی حالیہ زیادتی، تازہ حملۂ قلب اور موسم کی وجہ سے کولیسٹرول میں تبدیلی آسکتی ہے۔ بعض دفعہ جس طرح خون نکلواتے وقت ہاتھ رکھا گیا ہے اور ربر باندھا گیا ہے اس سے بھی کولیسٹرول کی پیمائش میں فرق آسکتا ہے۔ اس کی پیمائش نہار منہ یا کھانے کے 14 گھنٹے بعد کی جائے۔
جسم میں کچھ مقدار کولیسٹرول کی ہر وقت موجود ہونا صحت اور زندگی کے لیے اشد ضروری ہے۔ ہرچند یہ جسم میں خودبخود پیدا ہوتی رہتی ہے لیکن یہ بات بھی عرصۂ دراز سے معلوم ہے کہ کولیسٹرول باوجود یہ کہ ضروری قدرتی حیاتیاتی عنصر ہے مگر سرخ رگوں کے استر پر پپڑی جمانے والا اور رگوں کو مسدود کرنے والے سدوں کا اصل مادہ بھی کولیسٹرول ہے۔ کولیسٹرول دوسرے ملغوبہ سے مل کر سرخ رگوں کے اندرونی استر اور اُن کی درمیانی پرت پر تہہ در تہہ جمنا شروع ہوجاتی ہے، اس کی وجہ سے سرخ تاجی رگیں تنگ اور بالآخر بند ہوجاتی ہیں۔ گویا افراطِ کولیسٹرول کے ملغوبہ کی پپڑی جمتی ہے جس سے رگوں کی اندرونی نالی تنگ ہوجاتی ہے، دورانِ خون میں مزاحمت ہوتی ہے اور بالآخر انجائنا اور حملۂ قلب کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
اس سلسلے میں چند واقعات کا ذکر دلچسپی کا باعث ہوگا۔
1۔ جن تجرباتی جانوروں کو کولیسٹرول سے بھرپور غذا کھلائی گئی اُن کو بھی انسانوں کی طرح حملۂ قلب ہوگیا، صرف یہی تبدیلی تھی جو اُن کے طرزِ زندگی میں کی گئی تھی۔
2۔ اسکیمو میں مرضِ تاجی عام نہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ اسکیمو، سیل مچھلی کا تیل کھاتے ہیں جو غیر معمور چکنائی ہے۔
3۔ جنگ ِ عظیم کے زمانے میں عام مغربی غذا کی قلت ہوگئی تھی، خصوصاً مرغن حیوانی غذا کی رسد کم تھی، اسی مناسبت سے امراض تاجی میں کمی واقع ہوگئی۔ اسی طرح کا دوسرا واقعہ نازیوں کے زیرحراست قیدیوں کا تھا جن میں مرض تاجی عام آبادی کی نسبت کم تھا کہ اُن کی غذا نہایت قلیل تھی۔ رہائی کے بعد جب اُن کی خوراک بڑھی تو اُن میں مرض تاجی بھی بڑھا۔
4۔ امریکی قصبہ فرمنگھام میں اس سلسلے میں ایک مطالعہ کیا گیا، جو اب اس قدر شہرۂ آفاق ہے کہ شہادت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں یہ اندازہ لگایا گیا کہ جس قدر خون میں کولیسٹرول کی سطح زیادہ ہوگی، اسی قدر حملۂ قلب کا امکان ہوگا، جن لوگوں کے خون میں یہ 250 ملی گرام فیصد سے زیادہ ہوتی ہے اُن کو حملۂ قلب کا تین سے چھ فیصد زیادہ خطرہ ہے۔
5۔ ولندیزی باشندوں میں 1912ء میں کولیسٹرول اوسطاً 182 ملی گرام فیصد تھی، جو 1948ء میں بڑھ کر 245 ملی گرام فیصد ہوگئی، اسی تناسب سے مرض تاجی میں اضافہ ہوا۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ 1912ء میں چکنائی کو منجمد کرنے کا طریقہ دریافت کرنے پر نوبیل انعام دیا گیا جس کے بعد سے غذا میں مضر بناسپتی گھی عام ہوگیا۔
6۔ یوگوسلاویہ میں کولیسٹرول اوسطاً 180 ملی گرام فیصد ہے اور تاجی مرض 2 فیصد ہے۔ امریکا میں کولیسٹرول اوسطاً 240 فیصدی اور تاجی مرض 6 فیصد ہے۔
7۔ یورپ اور امریکا میں یہ بیماری پورے زوروں پر ہے لیکن جاپان اور چین میں تقریباً نایاب ہے، جس کی وجہ غذا میں مضمر ہے۔ جاپانیوں کی اصل غذا چاول ہے، امریکیوں کی بہ نسبت ان کی غذا میں گوشت ایک تہائی ہے اور چکنائی صرف پانچواں حصہ۔ گوشت زیادہ تر مچھلی سے حاصل ہوتا ہے اور چکنائی مچھلی کے تیل سے۔ چینی بھی اپنے کھانے میں غیر معمور چکنائی استعمال کرتے ہیں۔
تحقیق سے یہ تصدیق ہوچکی ہے کہ خون میں جس قدر زیادہ کولیسٹرول ہوگی اسی قدر زیادہ حملۂ قلب کا خطرہ ہوگا، جس طرح موٹر گاڑی کے روغنی نظام میں ریت کے ذرات خرابی کا باعث ہوسکتے ہیں اسی طرح کولیسٹرول رگوں کے استر پر چمٹ جاتی ہے۔ اس کی نوکیں رگوں کے استر پر خراشیں ڈالتی رہتی ہیں، بالآخر کلاں خور خلیات کی وساطت سے یہ رگوں کے استر میں گھس جاتی ہے۔ کولیسٹرول کو اپنے افعال انجام دینے کے لیے چکنائی سے گٹھ جوڑ کرنا پڑتا ہے۔
میدہ اور شکر سے بنی ہوئی غذائیں مثلاً کیک، پیسٹری، ڈبل روٹی، بسکٹ، ہر قسم کی مٹھائیاں یعنی نانبائی، شیرخانہ اور حلوائی کی مصنوعات خون میں حلوین کا اضافہ کرنے میں سرفہرست ہیں۔ سفید شکر توانائی کے لحاظ سے کھوکھلی غذا ہے کہ اس میں کوئی حیاتین اور معدنیات نہیں۔ شکر حلوین کو زیادہ کرنے میں بھی سب سے زیادہ حصہ لیتی ہے۔ آج کل ایک سال میں ایک من فی کس شکر استعمال کرلینا معمولی بات ہے۔
جو اناج چھلکا اتارکر کھائے جاتے ہیں وہ خصوصیت سے حلوین کو خون میں بڑھا دیتے ہیں۔ ذیابیطس، عادی مئے خواری، فربہی، ضبطِ ولادت کی گولی سے خون کی حلوین میں اضافہ ہوتا ہے۔ جس غذا میں ذائقہ زیادہ ہوتا ہے وہ کولیسٹرول اور حلوین پر مشتمل ہوتی ہے۔ جب ان کی افراط ہوتی ہے تو یہ بشکل چربی، جسم میں ذخیرہ کرتے ہیں۔ حلوین سے وزن زیادہ ہوجاتا ہے۔
حلوین کو گھٹانے کے لیے چینی اور چینی سے بنی ہوئی مصنوعات ترک کردی جائیں، چکنائی کم کی جائے، میدہ کی اشیاء نہ کھائی جائیں، آٹا چھانا نہ جائے، غذا میں صاف شدہ اناج کی مقدار کم کردی جائے اور موٹا اناج بڑھایا جائے۔ اگر غذا میں بھوسی زیادہ ہے تو کولیسٹرول اور حلوین دونوں کم ہوجاتے ہیں۔ ریشہ دار سبزیاں، ترکاریاں، چھلکے دار پھلیاں، دالیں، بغیر چھلے پھل مفید ہیں۔ روغنی مچھلی کے اومیگا 3 تیزاب حلوین کو کم کرتے ہیں۔ شراب سے پرہیز، وزن معتدل ہو اور ورزش کا شعار ہو تو حلوین کم ہوتی ہے۔

حصہ