افضل خان اور اک عمر کی مہلت

987

نذیر خالد
آخری حصہ
شاعر بنیادی طور پر دیگر لوگوں کی نسبت زیادہ حساس ہوتا ہے وہ جو منظر دیکھتا ہے اس پر ان الفاظ میں طنز کرتا ہے : اک وڈیرہ کچھ مویشی لے کے بیٹھا ہے یہاں
گاؤں کی جتنی بھی آبادی ہے ، آبادی نہیں
محبت کے مضمون کو انہوں نے متعددباربیان کیا ہے اور ہر بار ایک نئے رنگ میں اسے باندھا ہے :
یہ محبت کے محل تعمیر کرنا چھوڑ دے
میں بھی شہزادہ نہیں ہوں تو بھی شہزادی نہیں
تجربے کے طور پرتیری طرف آیا ہوں میں
عشق کرنے کاسبب کوئی بھی بنیادی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔
یہ محبت ہے بند غار میاں
ہو رہے ہو کہاں فرار میاں
۔۔۔۔۔۔
اب جو پتھر ہے آدمی تھا کبھی
اس کو کہتے ہیں انتظار میاں
۔۔۔۔۔۔
تبھی تو حالِ زبوں نہیں ہے
یہ عشق میر ا جنوں نہیں ہے
۔۔۔۔۔۔
ہمارے تجربے کی روشنی میں
جدا ہو کر کوئی مرتا نہیں ہے
سود سے بڑھ کے خسارہ ہے تبھی ڈرتا ہوں
عشق میں عمر کا سرمایہ لگاتے ہوئے میں۔
۔۔۔۔۔۔۔
خبر نہیں تھی محبت کا بیج بوتے ہوئے
کہ فصل اٹھانے سے پہلے لگان پڑتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے میں نے محبت کا ارادہ باندھا
چند لفظوں کے معانی کی طلب تھی مجھ کو
۔۔۔۔۔۔۔
تو میرے حال سے انجان کب ہے اے دنیا
جو بات کہہ نہیں پایا سمجھ رہی ہے نا
اسی لئے ہمیں احساسِ جرم ہے شاید
ابھی ہماری محبت نئی نئی ہے نا۔
۔۔۔۔۔۔
تری مسند پہ کوئی اور نہیں آسکتا
یہ مرا دل ہے کوئی خالی اسامی تو نہیں
۔۔۔۔۔۔۔
کسی کی آنکھ میری آنکھ سے ہے محو گفتگو
سماعتوں کا کام بھی لیا گیا ہے دید سے
۔۔۔۔۔۔۔
پرندوں اور درختوں کا ہمیشہ سے ساتھ چلا آتا ہے،ان کی اس دیرینہ باہمی محبت کے حوالے سے بھی کتاب میں کئی اشعار موجود ہیں ،دیکھئے :
اب یہ آنگن کا شجر دل کی طرح سونا ہے
کل پرندوں کو اڑانا ہی نہیں چاہیے تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
یہ پرندے ہیں کہ روحوں کا بسیرا سر شام
جب یہ آتے ہیں تو آ جاتی ہے اشجار میں جان
۔۔۔۔۔۔۔
جانے کیا کیا ظلم پرندے دیکھ کے آتے ہیں
شام ڈھلے پیڑوں پر مرثیہ خوانی ہوتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔
افضل خان کا یہ شعر بھی قابل غورہے :
جو یہ کہتے ہیں کوئی پیش نظر ہے ہی نہیں
کون سی ذات کے منکر ہیں اگر ہے ہی نہیں
افضل خان کی یہ غزل خالد احمد (مرحوم ) کوبہت پسند تھی اور انہوں نے دل کھول کر اس پر انہیں داد دی تھی ملاحظہ ہو :
نہیں تھا دھیان کوئی توڑتے ہوئے سگریٹ
میں تجھ کو بھول گیا چھوڑتے ہوئے سگریٹ
سو یوں ہوا کہ پریشانیوں میں پینے لگے
غم حیات سے منہ موڑتے ہوئے سگریٹ
مشابہ کتنے ہیں ہم سوختہ جبینوں سے
کسی ستون سے سر پھوڑتے ہوئے سگریٹ
کل اک ملنگ کو کوڑے کے ڈھیر پر لاکر
نشے نے توڑ دیا جوڑتے ہوئے سگریٹ
ہمارے سانس بھی لے کر نہ بچ سکے افضل
یہ خاک دان میں دم توڑتے ہوئے سگریٹ
افضل خان نے ایک غزل ظفر اقبال کی نذر کی ہے دیکھئے : بھلے ہیں درد کی شامیں پتنگ اڑتی ہے
ہوائے کرب و بلا میں پتنگ اڑتی ہے
میں کامیاب ہوا اپنے حاسدوں کے طفیل
کہ کھینچنے سے لگا میں پتنگ ا ڑتی ہے
سخن کے حبس میں لہر ا رہا ہے تیرا خیال
نہ جانے کیسے خلا میں پتنگ اڑتی ہے
بہار میرے دکھوں پر ہے خوش بہت شاید
تبھی جہان خدا میں پتنگ اڑتی ہے
میں چل سکا نہ زیادہ خلاف فطرت کے
ہمیشہ سمت ہوا میں پتنگ اڑتی ہے
کسے خبر یہ اسیری ہے یا نہیں افضل
یہ پنکھ ہے کہ فضا میں پتنگ اڑتی ہے
جب کوئی کیس عدالت میں زیر سماعت ہوتا ہے تو قارئین کرام یہ جانتے ہیں کہ اس پر میڈیا یا کسی دیگر ذریعے سے بحث یا تبصرے کی اجازے نہیں ہوتی اس لئے کہ اس طرح کے تبصرے عدالت کے فیصلے پر اثر انداز ہوسکتے ہیں،جج صاحب کی رائے کو پراگندہ کر سکتے ہیں ،لہذا اس کے لئے توہین عدالت کا قانون بنایا گیا ہے،مقصد ہے کہ عدلیہ خود انصاف تک پہنچے اور اسے وہاں تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے۔
افضل خان نے بھی اپنی کتاب میں کچھ ایسا ہی بندوبست کر دیا ہے،ان کی خواہش اور کوشش ہے کہ قاری جب یہ کتاب پڑھے ،اسکے اشعار سے لطف اندوز ہو تو وہ خالصتاًً اپنی رائے قائم کرے ،اس غرض سے افضل خان نے کسی بڑے شاعر ،تبصرہ نگار ،یا نقاد سے کوئی توصیفی نوٹ نہیں لکھوایا اور خود اپنی جانب سے بھی کوئی تبصرہ ،دلیل یا وضاحت تحریر نہیں کی،وہ چاہتے ہیں کہ اس کتاب کو جو ناپسند کریں وہ بھی اپنی رائے اور مرضی سے اور جو اس کو پسند کریں وہ بھی کسی کے کہنے پہ نہیں بلکہ صرف اور صرف اپنی اسیسمنٹ پر۔
اس طرح کا رسک ہر کوئی نہیں لے سکتا،جس کے پلے کچھ ہوتا ہے وہی اس طرح کے اعتماد کا مظاہرہ کرتا ہے۔
اب چند اور غزلوں میں سے چیدہ چیدہ اشعار : عیاں اگرچہ تھکاوٹ ہے بال و پر سے مرے
اتر سکا نہ جنوں ہجرتوں کا سر سے مرے
میں بے مراد سہی ،نقش پا تو چھوڑ گیا
یہ کم ہے کیا کہ بنا راستہ سفر سے مرے
ہمیں یہ آگ لگاتے بھی ہیں بجھاتے بھی ہیں
یہ سارے لوگ ادھر سے ترے ادھر سے مرے
یہ غزل بھی کیا خوب ہے :
اتر گیا مرے دل کا غبار ہا ہا ہا
ہنسا ہوں رو کے میں زار و قطار ہا ہا ہا
میں جب سے ذات کے عشر ت کد ے میں آیا ہوں
نہار و لیل ہیں لیل و نہار ہا ہا ہا
علاج ہجر کا دیوانگی سے ممکن ہے
ان آنسووں پہ فقط ایک بار ہا ہا ہا
مجھے قبول ہے جو بھی کہے ، کہے دنیا
ذلیل ، مسخرہ ، جاہل ، گنوار ہا ہا ہا
نہ جذب و کیف پہ ہے مجھ کو دسترس یا ہو
نہ قہقہوں پہ مرا اختیار ہا ہا ہا
ہر اک طرف سے مجھے گھورتی محبت ! سن
نکال لوں گا میں راہ فرار ہا ہا ہا
پہنچ گیا ہوں بالآخر میں پانچویں جانب
خبر ملی تھی کہ سمتیں ہیں چار ہا ہا ہا
ذرا سی بات پہ یوں دل برا نہیں کرتے
میں ٹھیک ٹھاک ہوں ، چل چھوڑ یار ہا ہا ہا
ایک اور موضوع ان کے ہاں کئی انداز لئے ہوئے سامنے آیا ہے،ملاحظہ ہو: اس کہانی میں نہیں میرے علاوہ کوء
اور مجھے اپنے ہی کردار سے خوف آتا ہے
ایک دوسری غزل میں مزید ْٰ? کہانی میں کوئی رد و بدل کر
مرا مرنا ابھی بنتا نہیں ہے
ان کی شاعری ، خاصکرغزل کا فہم و شعور نہ رکھنے والوں کو سناتے نظر آئے ہیں : غزل کو کم نگاہوں کی پہنچ سے دور کھتا ہوں
مجھے بنجر دماغوں میں شجر کاری نہیں کرنی
ایک دوسری جگہ کہتے ہیں : مری شاعری مرے ناقدین پہ کیا کھلے
مجھے باندھنے کو خیال خام نہیں ملا
اپنے مخالفین کو یوں زچ کرتے ہیں : یار لوگوں نے بہت خود کو اچھالا اوپر
ہو سکا پھر بھی مرے قد سے نہ افضل کوئی اور
پھر یہ اعلان کرتے بھی نظر آتے ہیں : میں انتقام لوں گا دوستوں میں پھوٹ ڈال کر
سزا تو ہونی چاہئے منافقین کے لئے
اور یہ ہیغام بھی یقیناً مخالفین کے لئے ہی ہو گا : دوغلے پن کا ہنر سیکھ لیا ہے میں نے
اب مجھے شہر میں آنے کی اجازت دی جائے
غزل سے اپنی جذباتی وابستگی کا اظہار یوں کرتے ہیں : اپنی دم توڑتی سانسیں بھی غزل کو دے دوں
یونہی ممکن ہے کہ آئے مرے اشعار میں جان
ایک جگہ غزل کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے : کیا مجھ سے غزل کا پوچھتے ہو
بوڑھی تھی جوان ہو چکی ہے
ایک اور مضمون ایک کو دل میں بٹھانے کے برعکس :بچھڑنے والے اکھٹے نہ دل کو یاد آئیں
شکستہ پل پہ قدم توڑ کر چلا جائے
جدید غزل کی آبیاری اور پرورش جس انداز میں بہاولپور میں ہو رہی ہے ،پاکستان کے شاید ہی کسی شہر میں ہو رہی ہو۔
نوجوانوں کا ایک گروپ ہے جو آپس میں مل بیٹھتا ہے ،صلاح مشورہ کرتا ہے،ایک دوسرے سے اصلاح لینے،مشورہ قبول کرنے،مثبت تنقید کرنے ، اسے خوشدلی کے ساتھ روبہ عمل لانے کے جذبے کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ان کی ہفتہ وار ادبی نشست میں بے جا تنقید و مغالطے کا طریقہ نہیں بلکہ فقط مثبت و مقصدی بحث ہی کو روا رکھا گیا ہے۔
اس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ نو آموزگار نوجوان بھی اچھے اشعار کہنے کے قابل ہو رہے ہیں۔مذکورہ گروپ کے روح رواں افضل خان کا پہلا شعری مجموعہ اک عمر کی مہلت کے نام سے حال ہی میں سامنے آیا ہے۔

حصہ