غیر مسلم شعرا کا بحضور سرور کائنات نذرانۂ عقیدت

502

نوراحمد میرٹھی میرے ہی نہیں میرے سارے گھر والوں کے محسن تھے۔ ان سے میری پہلی ملاقات ۱۹۶۶؁ء میں ہوئی اور پھر یہ سلسلہ ۱۹۸۴؁ء تک باقائدگی سے چلتا رہا۔ ان کا قیام کورنگی سیکٹر ۳۵۔ بی میں آخری دم تک رہا۔ لانڈھی ۳۶۔بی میں ان کے بہنوئی جناب ڈاکٹر یوسف جاوید ایک چھوٹا سا کلینک چلایا کرتے تھے۔ اچھے شاعر تھے اور میں اکثر اپنی نظمیں اور غزلیں انھیں دکھایا کرتا تھا۔ اسی کلینک میں ایک خوش شکل شخصیت بھی ان کی معاونت کے لیے ہمہ تک گوش و مصروف رہتی تھی اور یہ شخصیت جناب نوراحمد میرٹھی کی تھی۔ آج جب میں ان کی کتاب ’’بہرزماں بہرزباں‘‘ اپنے سامنے رکھے ہوئے ہوں تو مجھے اپنا بچپن اور ان کی نوجوانی کچھ اس طرح یاد آرہی ہے گویا وہ میرے سامنے بیٹھے ہوں۔ اشک بار بھی ہوں اس لیے کہ میں ان بد قسمتوں میں شامل ہوں جو ان کے آخری دیدار سے محروم ہی نہیں رہے بلکہ ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے کافی بعد خبر ہو سکی کہ وہ اس جہان فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔ ہوا یہ کہ میں بسلسلۂ روزگار کراچی سے باہر ہی رہا ۔ اس دوران ملاقاتیں ضرور رہیں لیکن واجبی سی اس لیے کہ چھ ہفتوں بعد فقط دو ہفتوں کی چھٹیاں ملا کرتی تھیں اور وہ بھی پلک جھپکتے میں گزرجایا کرتی تھیں۔ اس دوران اگر ملاقات ہوگئی تو ٹھیک ، اگر نہ ہو سکی تو چار ماہ تو بہر صورت ہو ہی جاتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ لانڈھی ۳۶۔بی بھی چھوڑ دیا اور کراچی بھی۔ نوکری میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ میری ان سے آخری ملاقات ۲۰۱۰؁ء میں ہوئی تھی اور یہ دیکھ کر کہ جو شخص دنیا کا علاج کیا کرتا تھا اورہمارے گھر کی ہنگامی صورتحال میں رات کے دد دد بجے بھی اٹھ کر چلا آتا تھا اب خود زیر علاج تھا اور بغیر سہارے بستر سے اٹھنے کے قابل بھی نہیں تھا۔ میری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر مسکرا کر کہنے لگے، ارے حبیب بھائی! چند دنوں کی بات ہے ٹھیک ہو جاؤں گا۔ آپ نے میری پہلی کیفیت نہیں دیکھی اس سے میں ہزاردرجے بہتر ہوں۔
یہ کتاب ’’بہر زماں بہرزباں‘‘ وہ کتاب ہے جس کا تذکرہ میں پہلی ملاقات سے سن رہا تھا۔ ہرملاقات پر ان کا یہی کہنا تھا کہ میں ایسے شعراکا کلام جمع کر رہا ہوں جو ہیں تو غیر مسلم لیکن آنحضور ﷺ سے ان کی عقیدت کا یہ عالم ہے کہ بیشمار مسلم شعرا بھی ان کے آگے ہیچ ہیں۔ میرے علم میں یہ بات تو تھی کہ کئی غیر مسلم شعرا ہیں جو آپ ﷺ کی شان میں نذرانۂ عقیدت پیش کرتے رہے ہیں، ان میں سے اکثر کو میں نے پڑھا بھی تھا لیکن مجھے ان کے کلام میں سطحی پن ملا تھا اس لیے یہ بات یقین کرنے کو دل نہیں چاہتا تھا کہ وہ شعرا آپ ﷺ کی ذات کا دقیق مطالعہ بھی کرتے ہونگے۔ اکثر یہ بھی خیال کیا کرتا تھا کہ اگر آپ ﷺ کی مداح میں غیر مسلم شعرا نے کچھ کہا بھی ہوگا تو وہ انگلیوں پر ہی گنے جا سکتے ہونگے لیکن جب میرے ہاتھ ان کی تحقیق سامنے آئی تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہ ان کی تعدا ہزاروں میں ہے۔ میں حیران ہو ںکہ ایک ایسے شخص نے جو متوسط گھرانے سے بھی نیچے کی زندگی گزار رہا ہو اور جس کو غم دوراں و زماں اتنی مہلت ہی نہیں دے رہا ہو کہ وہ درد ہائے روزگار سے ہی باہر نکل سکے اس نے اتنی تحقیق و جستجو کے لیے کس طرح وقت نکالا ہوگا۔ لوگ ایک کتاب کے مالک بن جائیں تو ان کی زندگی بدل جاتی ہے لیکن سلام نوراحمد میرٹھی جس کو میں نے جس گھر میں(کورنگی ۳۵۔بی) ۱۹۶۶؁ء میں دیکھا تھا، اس نے زندگی کا آخری سانس بھی اس گھر میں تمام کیا۔
جتنی تحقیق اس شخص نے اردو ادب میں شعراو شخصیات کے حوالے سے کی وہ اس کا ہی خاصہ بن گئی۔ میں نے بڑے بڑے محققین دیکھے لیکن حمد و نعت کے اُن نیاز مندوں کے حوالے سے جنھوں نے اللہ کی ذات اور محمد رسول اللہ ﷺ سے عشق رکھنے کی تعلق کی نسبت سے عقیدت و محبت کے گلاب و سمن بکھیرے ہوں، شاید ہی کسی نے کی ہو۔ بلاشبہ جب اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا کہ ہمارے پاس کیا لائے ہو تو وہ بصد احترام عرض گزار ہو نکے کہ میں تیرے حضور ’’نور سخن، بہرزماں بہرزباں، گلبانگ وحدت‘‘ لایا ہوں۔
کہتے ہیں کہ نور احمد میرٹھی نے اپنا ادبی سفر ۱۹۶۶؁ء سے شروع کیا۔ درست کہتے ہونگے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انھوں نے اپنا ادبی سفر اس سے بھی کئی برس قبل شروع کر دیا ہوگا۔ کتنا سوچا ہوگا، کتنا غور کیا ہوگا، ہر ہر کتاب کے آغاز سے قبل اس کی زمین کیسے کیسے انداز سے تیار کی ہوگی۔ کتنا اپنے آپ کو جگایا ہو گا، دل دماغ کو کتنا تھکایا ہوگا، غوروفکر کی آگ میں خود کو جھلسایا ہوگا تب کہیں جاکر ایسا خمیر بنانے میں کامیاب ہوئے ہونگے جس سے تخلیقات کے پتلوں میں جان ڈال کر ان کو زندہ جاوید بنا یا جاسکے۔
ان کی پہلی اشاعت اس بات کی گواہ ہے کہ وہ جہاں رہے اور جن کے درمیان جوان ہوئے ان کی ادبی خدمات کو اولیت بخشیں اور اس بات کا ثبوت فراہم کر سکیں کہ انھیں اپنے جیسے ماحول میں رہنے والوں سے کتنا پیار ہے چنانچہ سب سے پہلے منظر عام پر آنے والی کتاب ’’نور سخن‘‘ ۱۹۸۷؁ء میں منظر عام پر آئی جس میں صرف ان شعرا کا تذکرہ ہے جن کا تعلق لانڈھی کو رنگی سے تھا۔ میرٹھ سے ان کے خاندان کا تعلق تھا لہٰذا یہ اس تعلق کو کس طرح فراموش کر سکتے تھے۔ ’’تذکرہ شعرائے میرٹھ‘‘ ’’شخصیات میرٹھ‘‘ اور ’’اشاریہ‘‘ کے نام سے شائع ہونے والی کتابیں جو علی الترتیب ۲۰۰۳؁ء اور ۲۰۰۴ ؁ء میں شائع ہوئیں، جن میں میرٹھ سے تعلق رکھنے والی کئی قابل ذکر شخصیات کا ذکر اور میرٹھ ہی سے تعلق رکھنے والے شعرا کا تذ کرہ کیا گیا ہے۔ اس طرح یہ اردو ادب میں ایک بہترین اضافہ ہے جس کو کسی طرح بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
ان کے محققانہ کارناموں کی ایک طویل فہرست ہے جس کو جتنا بھی سراہا جائے کم ہے لیکن جو کام انھوں نے ان شعرا کے کلام کو یکجا کرنے میں انجام دیا ہے جس میں اللہ کی وحدانیت اور آپ ﷺ سے عقیدت کا رنگ جھلتا ہے اس کی مثال اردو ادب میں کہیں بھی اور کسی جگہ بھی نہیں ملتی۔ ہزاروں شعرا تک رسائی اور وہ بھی غیر مسلم اور وہ بھی پاکستان سے باہر کے، ناقبل فہم سی بات لگتی ہے۔ جب اس خدمت پر غور کرتا ہوں تو لگتا ہے کہ ایسا نیک کام اللہ کو ان ہی سے کرانا تھا اور وہ بھی ایک ایسے انسان سے جس کی ظاہری حیثیت ایسی لگتی ہی نہیں تھی کہ وہ اندر سے اتنا عظیم انسان ہوگا۔ میں حیران ہوں کہ اس شخص کے کتنے لا محدود تعلقات تھے کہ پاکستان سے باہر جائے بغیر وہ دنیا پھر میں کہاں کہاں نہیں گیا اور کیسے کیسے افراد سے وہ تمام معلومات حاصل کر لایا جو لاکھوں روپے خرچ کرکے اور در در کی خاک چھان کر بھی حاصل نہیں کی جا سکتی تھیں۔
مجھے یاد ہے کہ جب نوراحمد میرٹھی، صاحب فراش تھے اور میری ان سے آخری ملاقات ہوئی تو انھوں نے مجھے اپنی کتابیں تحفتاً دیتے ہوئے غیر مسلم حمدیہ و نعتیہ کلام کی تدوین و ترتیب کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا حبیب یہ سب میں نے یہ ساری معلومات خطوط کے ذریعہ اپنے اور اپنے مہربانوں کے تعلقات کی بنیاد پر حاصل کی ہیں جس میں میری ساری عمر لگ گئی لیکن میں خوش ہوں کہ میں نے زندگی کی سانسیں ایک ایسے کام میں لگائیں جو کا رثواب و اجرہے اور شاید شایدیہ میری بخشش کا سبب بن جائے۔ یہ سن کر میرے زبان سے بیساختہ (آمین) نکلا۔ میں نے آنسو خشک کرتے ہوئے ان سے رخصت طلب کی اور دوبارہ آنے کا وعدہ کیا لیکن میری قسمت میں ان سے دوبارہ ملنالکھا ہی نہیں تھا تو کیسے ملاقات ہو سکتی تھی۔ اسی دوران بسلسلۂ روز گار مجھے کوہاٹ جانا پڑا اوراور یوں مجھے ان کے انتقال کی خبر بھی بروقت نہ مل سکی جس کا مجھے اپنی آخری سانس تک ملال رہے گا۔
ڈاکٹر جمیل جالبی نوراحمد میرٹھی کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’نور احمد میرٹھی، جو ۱۷؍ جنوری ۱۹۴۸؁ء کو پیدا ہوئے، صاحب دل انسان ہیں۔ خلوص و محبت کا پیکر، دھن کے پورے، کام کے پکے، علم و ادب ان کا اوڑھنا بچھونا، دن رات اسی محنت میں لگے رہتے ہیں اور گزشتہ پندرہ بیس سال کے عرصے میں کئی کتابیں مرتب کر کے شائع کر چکے ہیںجو سب کی سب اپنے مضمون پر اچھوتی اور ان کی محنت کا منھ بولتا ثبوت ہیں‘‘
پروفیسر جگن ناتھ آزاد نور احمد کی جد و جہد، محنت اور لگن کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’حضرت ابوسعید ابولخیر نے کیا عمدہ کہا ہے کہ

تا زحمت گرما و ز مستاں نہ کشد
پر گل نہ شود دامن ہر خار کہ ہست

کوئی اگر مجھ سے پوچھے کہ اصناف سخن میں سے سب سے مشکل صنف کونسی ہے تو میں بلاتوقف و تردد کہونگا گا نعت گوئی۔ ایسی ہستی جو اللہ کے بعد اس کائینات کی سب سے عظیم، بزرگ برتراور محترم ہے اور جس کی تعریف اس کائینات کے خالق و مالک نے کی ہو انسان کی کیا مجال جو اس کی ثنا بیان۔ یہ سب تو محبت کا وہ جذبہ ہے جو ہر نیک اور سچے انسان کو اندر سے مجبور کرتا ہے کہ وہ بھی اس ہستی سے عقیدت و محبت کا اظہار کرے جس کی تعریف اللہ اور اس کے فرشتوں نے بھی کی ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ ایسی ہستی کی مدح سرائی اس لیے مشکل تر ہے کہ اگر ایک درجہ بھی بلند ہوجائے تو آپ ﷺ کی ذات (نعوذ باللہ) اللہ سے جا ملے اور اگر زبان بہک جائے تو عام انسانوں کے بربر آجائے۔ کمال یہ ہے کہ وہ شعرا جن کو اللہ نے توفیق ثنائے رسول ﷺ عطا کی ہے انھوں نے بھی آپ ﷺ کی ہستی کی تعریف کا ایسا حق نبھایا ہے کہ جس کی جزا اللہ ہی دے سکتا ہے۔ ایک تو نعت رسول ﷺ اور وہ بھی ان شعرا کی زبانی جو مسلمان ہی نہ ہوں اور پھر بھی وہ تمام آداب و درجات ان کے پیش نظر ہوں جو ایک مسلمان شاعر کے پیش نظر ہوتے ہیں، وہ کمال ہے جس کو چھولینا سراسر توفیق الٰہی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اس ساری تمہید کے بعد ضروری ہوجاتا ہے کہ غیر مسلم شعرا کا کلام قارئین کی خدمت میں پیش کروں تاکہ پڑھنے والوں کو اندازہ ہو سکے کہ آپ ﷺ کی ذات سے صرف مسلمانوں کو ہی محبت و عقیدت نہیں، ان ﷺ سے پیار کرنے والی بہت سی ایسی ہستیاں بھی ہیں جو مسلمان نہ ہونے کے باوجود آپ ﷺ کی محبت و الفت سے سرشار ہیں۔
آپ ﷺ کی ذات اقدس سچائی و امانت کی ایسی کھلی کتاب ہے جس کی ابوجہل جیسا دشمن دین و رسول بھی تکذیب نہ کر سکا ۔ وہ کہتا تھا کہ تمہاری (آپ ﷺ) سچائی سے مجھے انکار نہیں لیکن خداؤں سے بغاوت کا جو اعلان تم (آپ ﷺ) نے کیا ہے میں اسے نہیں مانتا۔آپ ﷺ کی جو باتیں اُس کی گفت گار، کردار و عمل کی وجہ سے دنیا کے سامنے ہیں ان کوحکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ نے ’’جاویدنامہ‘‘ میں ابو جہل کی زبانی، پیرایۂ نعت بعنوان ’’طاسینِ محمد ﷺ) میں یوں پیش کیا ہے۔ یہ ایک طویل نظم ہے اس لیے اس نظم کے چند منتخب اشعار درج ذیل کر رہا ہوں۔

باز گو اے سنگ اسود باز گو
آنچہ دیدم از محمد باز گو
بہ بساط دین آبا در نورد
با خدا وندانِ ماکرد آنچہ کرد
پاش پاش از ضر بتش لات و منات
انتقام از وے بگیر اے کائنات

ابھے شاستری جن کا تعلق ٹونک سے ہے، ادبی دنیا (حمد و نعت) جے پور میں ان کانعتیہ ’’ماہیہ‘‘ ملاحظہ فرمایئے
کیا شان مدینہ ہے
اس نور صداقت سے
روشن مرا سینہ ہے
ابھے کمارجو ۱۹۴۸؁ء میں مشہور قانون داں چتر سین گپتا کے ہاں پیدا ہوئے۔ بی اے ایل ایل بی کی اسناد حاصل کیں، وہ آپ ﷺ

کی شان میں کچھ یوں گویا ہوتے ہیں
محمد کے جلوں کو بے پردہ دیکھیں
زمانے کے سب دیدہ ور چاہتے ہیں
نگاہوں میں بس جائیں جلوے تمہارے
ہم اپنی شکستِ نظر چاہتے ہیں
احقر، بابو طوطارام فرماتے ہیں
مدت سے یہ دل اپنا ہے شیدائے مدینہ
کب مجھ کو خدا دیکھئے دکھلائے مدینہ
اے باد صبا چشم کرم کچھ تو ادھر بھی
لا بہرِ خدا بو، گل رعنائے مدینہ

اختر، ہری چند، ۱۹۰۰؁ء میں پید ہوئے، ابتدا میں اپنا تخلص شرماؔ رکھا بعد میں بدل کر اخترؔ رکھ لیا لیکن مزاحیہ شاعری میں دوزخیؔ کے تخلص سے اشعار پڑھا کرتے تھے۔ یکم جنوری ۱۹۵۸؁ء میں وفات پائی۔ آپؐ کی ثنا میں فرماتے ہیں:

کس نے قطروں کو ملایا اور دریا کر دیا
کس نے ذروں کو اٹھایا اور صحرا کر دیا
شوکت مغرور کا کس شخص نے توڑا طلسم
منہدم کس نے الٰہی قصرِ کسریٰ کر دیا
کس کی حکمت نے یتیموں کو کیا در یتیم
اور غلاموں کو زمانے بھر کا مولا کر دیا

(جاری ہے)

حصہ