عسکرت، اکثریت

425

سلمان علی
اور 25جولائی بھی گزر گیا۔تمام تر قیا س آرائیاں،پیش گوئی،مستقبل کی منظر کشی ،تجزیے ،تبصرے سب ٹیسٹ ہو گئے ۔ایک خوبصورت تبصرہ یہ بھی کیا گیا کہ ’’عسکریت نے اکثریت کو پیچھے چوڑ دیا‘‘۔
الحمد للہ ہم سب مسلمان ہیں اور اللہ ، رسول، قرآن مجید سے ہمارا تعلق ایسا ہے کہ ہم روز مرہ زندگی میں بہت سارے ایسے عربی یا قرآنی الفاظ یامثالیں استعمال کرتے ہیں جن سے ہماری دینی شناخت واضح ہوتی ہے ۔جیسے ملتے وقت السلام علیکم ورحمتہ اللہ،کوئی چھینک آئے تو الحمد للہ ، پھر جواب میں یر حمک اللہ پکارتے ہیں ۔کوئی بری چیز دیکھیں تو ناگواری کے اظہار کے لیے ’لا حول ولا قوۃ‘ اسی طرح کوئی گناہ کی بات ہو تو ’استغفر اللہ ‘۔گھروں کے باہر اکثر رزق سے متعلق یہ آیت کندہ کرواتے ہیں ، وترزق من تشاع بغیر حساب‘ اسی طرح ایک آیت جو کسی خوشی کے موقع پر بھی ہماری عام زبان کا حصہ ہے اُس کی ایک ٹوئیٹ نے سماجی میڈیا پر بڑی ہلچل مچا دی۔جتنا شور حالیہ الیکشن کے پیچھے پاک فوج کے براہ راست عمل دخل کا کیا جا رہا تھا،اُس تعلق کو تقویت دینے کے لیے جلتی ہوئی لکڑی پر تیل کا کام انجام دیا ایک چھوٹی سی سادہ سی ،معروف قرآنی آیت پر مشتمل اس ٹوئیٹ نے جسے کرنے والے ہیں ہمارے معزز و محترم جناب آئی ایس پی آرکے روح رواں میجر جنرل آصف غفور صاحب ۔ٹوئیٹ میں تحریر کردہ آیت کے معنی کچھ یوں ہیں کہ ’’اور تو جسے چاہے عزت دے اور تو جسے چاہے ذلت دے ۔‘‘اب قطع نظر اس کہ یہاں کس کو عزت ملی کس کو ذلت ، ٹوئیٹ میں بس یہ بات واضح کی گئی ہے کہ یہ سب صرف اور صرف اللہ کی جانب سے ، اُس کی مرضی و منشاء سے ہی ہوتاہے ،ایسا کرنے کی قدرت کسی اور کی نہیںاور مسلمان وہی ہے جو اللہ کی رضا میں راضی ہو۔جنرل صاحب کی ٹوئیٹ کے نیچے آنے والا رد عمل اس صفحہ پر ناقابل بیان ہے ۔بہر حال ایک ٹوئیٹ پیش ہے ،’’ہارنے والوں کاضمیر مطمئن ہے اور جن کو اپ نے جتوایا ہے اِن کا ضمیر پہلے سے زیادہ مردہ ہوگیاہے ۔ اس جیت پرمستقل سوال ہو رہے ہیں ۔عوام کے عوامی میندیٹ پر ڈاکہ ڈالنے والے منہ چھپاکرپھررہے ہیں کیونکہ عزت اورذلت میرے رب کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ اسی طرح شمع جونیجو کی ویری فائڈٹوئٹر وال پر ایک ایسی ویڈیو ملی جس میں پاک فوج باقاعدہ ووٹوں کی گنتی کے عمل میں مصروف نظر آئی،جبکہ ایسا کچھ بھی اُسے کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ہو سکتا ہے کہ کسی نے کوڑوں والی ویڈیو کی طرح سے تیار کی ہو لیکن ۔۔۔
ہر الیکشن میں جیتنے والی پارٹی کے علاوہ جس طرح باقی جماعتیں دھاندلی و دیگر ایشوز پر چِّلاتی ہیں۔اس بار بھی ایسا ہی ہوا لیکن اس میں اہم ترین بات یہ ہے کہ کسی نے بھی الیکشن کے اعلان سے لے کر پولنگ کے اوقات یعنی شام 6بجے تک کے عمل پر کوئی اعتراض نہیںکیا۔اصل اعتراض شروع ہوا گنتی کے وقت جب پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتو ں جن میں مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ مجلس عمل ،ایم کیو ایم، تحریک لبیک ،پی ایس پی سمیت کئی آزاد اُمیدواران نے بھی یہ اعتراض مختلف پریس کانفرنس میں نوٹ کرایا کہ ’’اُن کے پولنگ ایجنٹس کو گنتی کے عمل سے دور کر دیا گیا ہے ،جو ایجنٹس پولنگ اسٹیشن میںموجود ہیںاُن کو نتیجہ طے شدہ طریقہ کار کے مطابق فارم 45پر نہیں دیا جا رہا‘‘۔اس سارے شور نے پورے انتخابی عمل کی شفافیت پر پانی پھیر دیا۔تحریک لبیک کے سوا کسی نے مضبوط احتجاج کی کال نہیں دی، یعنی باقی سب نے صرف پریس کانفرنس اور حتمی نتائج کے انتظار کی پالیسی بنائی ۔اہم بات یہ تھی کہ سب کہہ رہے ہیں کہ نتیجہ دیا نہیں جا رہا تو میڈیا کے پاس کہاں سے غیر حتمی نتائج موصول ہو رہے تھے اور 7بجے کے بعد جب پہلا نتیجہ جاری کیا گیا ٹھیک اس کے ایک گھنٹے کے بعد سارا منظر نامہ تحریک انصاف کے حق میں بن چکا تھا۔میں نے کچھ ساتھی رپورٹرز سے پوچھا کہ جب نتائج بنے نہیں ، کسی کو دیئے نہیں جا رہے تو آپ کو کہاں سے یہ غیر حتمی نتائج مل رہے ہیں تو اُنہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے مسلسل نتائج موصول ہو رہے ہیں۔ جبکہ سوشل میڈیا پر دیگر کئی جماعتوں نے اس بات کی شکایت کی کہ ہمیں تو موبائل فون بھی لے جانے نہیں دیا جا رہا ( ووٹر بشمول پولنگ ایجنٹ)دوسری جانب تحریک انصاف کے کارکنان سر عام بیلٹ پیپر پر مہر کی تصاویر سیلفی کے ساتھ اپلوڈ کر رہے ہیں؟‘اگلے گھنٹے یعنی کوئی دس ساڑھے دس بجے تک صورتحال یہ ہو چکی تھی کہ تین بڑی جماعتوںکی جانب سے نتائج نہ دینے اور پولنگ ایجنٹس کو گنتی کے عمل سے باہر کرنے کی یکساں شکایات موصول ہو چکی تھیں۔سلیم صافی نے اس حوالے سے پچھلے انتخابات کی یادداشت کی بنیاد پر ایک اہم ٹوئیٹ کی ’’گذشتہ انتخاب کے نتائج پر پی ٹی آئی اور بی این پی مینگل (پی ٹی آئی نے بھی انتخابی نتائج کے بعد اسد عمر کے ذریعے نتائج تسلیم کئے تھے) کے سوا سب پارٹیوں نے تسلیم کئے تھے جبکہ حالیہ انتخابی نتائج پی ٹی آئی کے سوا سب سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کو منظورنہیں۔فرق صاف ظاہر ہے۔‘‘طارق حبیب نے اس صورتحال پر ایک پوسٹ نقل کرتے ہوئے ٹوئیٹ کیا کہ ،’ووٹ کو عزت اور دینی ہے ؟ یا اتنی کافی ہے ؟محکمہ ذراعت کا سوال ۔‘‘
کراچی میں بڑا اپ سیٹ رہا، گو کہ سب نے تسلیم کیا کہ تحریک انصاف کو اچھے ووٹ ملے ہیں تاہم ،گنتی کے عمل سے غیر قانونی طور پر باہر نکال دینا اور نتائج نہ فراہم کرنا بہت سارے سوالات اٹھا رہا ہے ۔لیاری سے بلاول بھٹو کی شکست،بلدیہ سے شہباز شریف کی شکست، ایم کیو ایم کو اپنے گڑھ عزیز آباد سے تیس ہزار کی لیڈ سے شکست۔رات 2بجے بھی متحدہ مجلس عمل کے ایک مضبوط اُمیدوار زاہد سعید کی ایک آڈیو کلپ خوب وائرل رہی ،جس میں انہوں نے یہ کہاکہ ’’اب تک ڈھائی سو میں سے صرف چار پولنگ اسٹیشن کے نتائج حاصل ہوئے ہیں،ان چاروں میں مجلس عمل نمایاں طور پر کامیاب رہی ہے ، بقیہ نتائج نہیں وصول ہو رہے نہ ہی دیے جا رہے ہیں،ایجنٹس بغیر کسی موبائل کے اندر ہیں اور مزید اُمیدوار سمیت کسی الیکشن ایجنٹ کو بھی اندر داخل ہونے نہیں دیا جا رہا۔‘‘اسی طرح مجلس عمل کراچی کے صدر حافظ نعیم الرحمٰن نے بھی سماجی میڈیا پر جیتنے والی جماعتوں کو مبارک باد دیتے ہوئے اس بات کی اپیل کی کہ جو آپ نے جیتیں وہ آپ کو مبارک اور ہم شکست تسلیم کرتے ہیں لیکن جن نتائج کے ساتھ مجلس عمل فتح یاب ہوئی ہے وہ سیٹیں تو مجلس عمل کو ہی دی جائیں۔‘‘اسی طرح ڈاکٹر فیاض عالم کی ایک پوسٹ کے مطابق’’اپر دیر کی ایک نشست کا حتمی اعلان تو تیس گھنٹے کے بعد بھی نہیںکیا جا رہا ، ہزاروں افراد کا احتجاج جاری ‘‘۔اسی طرح سیکڑوں افراد نے جو ولنگ ایجنٹ کی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے اپنے اپنے تجربات سے سماجی میڈیا پر داستان ڈالتے رہے ،جن میں ایک ہی بات نمایاں تھی کہ فوج کا حد درجہ زیادہ کنٹرول قانون کے مطابق انتخابی عمل میں ایسی رکاوٹ ڈالے رہا کہ بعد میں آنے والے نتائج دیکھ کر یقین نہیںآیا۔فیض اللہ خان نے ایک مختصر پوسٹ میں کراچی کی سیاست پریوں تجزیہ کیا کہ ،’’کراچی کے تیس برس کے سیاسی سفر کی داستان۔1988…الطاف حسین ، 2018…عمران خان‘‘۔یہ ساری باتیں اس بنیاد پر بھی کی گئیںکہ کراچی میں ایک اہم نشست لیاری PS-108کی رہی جہاں کے100کے قریب پولنگ اسٹیشن پر متحدہ مجلس عمل کے پولنگ ایجنٹس اگلی صبح دس بجے تک ہر تکلیف سہتے ہوئے جمے رہے اور اپنے ہاتھوں گنتی کیا ہوا حتمی نتیجہ لے کر ہی باہر نکلے۔یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہ واحد PS ہے جس کی کامیاب ہونے والے امیدوار سید عبدالرشید اور ان کی ٹیم نے کم و بیش پانچ سال سوشل میڈیا پر نتیجہ خیز مہم چلائی اور ہر ایشو پر سید عبدالرشید اور ان کی ٹیم سوشل میڈیا پر بھر پور اظہار ہوتا رہا۔بلاول بھٹو لیاری کی قومی اسمبلی کی نشست تحریک انصاف کو ملی،اُس کے نیچے کی ایک نشست تحریک لبیک کو جبکہ دوسری صوبائی نشست PS-108متحدہ مجلس عمل کے مقامی مقبول رہنما سید عبد الرشید بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔اُن کی کامیابی پر بھی سماجی میڈیا پر پوری مجلس عمل ، جماعت اسلامی کے دنیا بھر کے متعلقین ، کارکنان نے مبارک بادونکے ساتھ سراہا۔
ویسے اس بار سب سے بڑا عمومی تجزیہ جو صوبہ خیبر پختون خوا کے ووٹنگ طرز کی بنیاد پر کیا جاتا تھا کہ ’خیبر پختونخواکسی کوبھی دو بارہ ٹیسٹ نہیں کرتے‘ وہ اس بارمکمل فیل ہوگیا ۔سید فیاض علی اپنی ٹوئیٹ میں تجزیہ لکھتے ہیںکہ ،’’خیبرپختونخوا نے سب سے باشعور صوبہ ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ہر طرح کا جھوٹا پروپیگنڈا عوام نے مسترد کرتے ہوئے شہبازشریف، بلاول بھٹو، فضل الرحمن، سراج الحق، اسفندیارولی، آفتاب شیرپاؤ، اکرم درانی اور امیر مقام جیسے بڑے بڑے بْرج الٹ دئیے۔پورے پاکستان کو KPK کی عوام پر فخر ہے۔‘‘تمام تر کرپشن کی صداؤںکے باوجود تحریک انصاف اپنے قبل از الیکشن اعلان کے مطابق صوبہ سے پہلے سے زیادہ کلین سوئیپ کر گئی ۔کراچی کے نہایت حیران کن نتائج سامنے آئے ،یہ ٹھیک ہے کہ سب جماعتوں نے پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کو تسلیم کیا ہے ،لیکن تیار شدہ نتائج اور جس انداز سے نتائج پیش کیے گئے وہ خود اتنا زیادہ مشکوک طریقہ کار تھا جس پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں۔کراچی کی 21قومی اسمبلی کی نشستوں کے نتائج جاری کرنے میں ایک ریکارڈ وقفہ بلکہ خاموشی کے بعد 14نشستیں تحریک انصاف کو ،4ایم کیو ایم کو اور 3سیٹیں پاکستان پیپلز پارٹی کے نام کر کے سب کو بڑادھچکا دیا گیا۔اس صورت حال پر ایک دوست نے یہ تبصرہ کیا کہ اس نتیجے کے پیچھے تحریک انصاف کو یہ پیغام بھی شاید پہنچایا گیا ہے کہ’’ 2013میں ایک سیٹ ،2015بلدیاتی میںتین کے بعد اب طشتری میں 14سیٹوںکے جشن کے پیچھے سارا کمال اور کریڈٹ جس کا بھی ہے اُسے یاد رکھنا ضروری ہے۔‘‘
ساتھ ہی نتائج دیکھ کر یہ تجزیہ بھی کیا جا رہا ہے کہ ،’ سیکولر ازم کی راہ ہموار کی جائے گی ۔‘ البتہ عمران خان کی پہلی تقریر انتہائی موثر ثابت ہوئی ۔اُس فی البدیہہ تقریر میں کیے گئے اعلانات نہایت پر کشش ، امید افزاء اور قابل تعریف کہے گئے ۔زید حامد نے ٹوئیٹ میںکہا کہ ،’’آج الیکشن کے بعد عمران خان کی تقریر سنی۔ اچھی بات کہی کہ میں پاکستان کو مدینے کی ریاست جیسا بنانا چاہتا ہوں۔میرا سوال، کیا آپ کے پاس پاکستان کو مدینے جیسی ریاست بنانے کیلئے صاحب نظر، اہل بصیرت، حق گو اور بے باک مشیر بھی ہیں؟‘‘شمع جونیجو نے تو خان صاحب کی تقریر کے ایک جملے کی پوسٹ کا اسکرین شاٹ ’’ مسٗلہ کشمیر کا حل بات چیت سے نکالا جائے گا‘‘کا حوالہ دیتے ہوئے تحریر کیا کہ ’’بھائی جان پہلے حلف لے لو، وہ پہلے ہی وتعز من تشاء وتعز من تشاء کے ٹوئیٹس کر رہے ہیں، کِتھے پُٹھے نہ پے جائیں۔‘‘اسی طرح معروف صحافی و اینکر عارف حمید بھٹی نے ٹوئیٹ میں تبصرہ کیا کہ ،’’عمران خان کی تقریر حاکم کی بجائے زمہ داری کا احساس تھااپوزیشن کی طرف سے مبینہ دھاندلی کے الزامات کے بعد عمران کی ہر قسم کی تحقیقات کی یقین دھانی پر احتجاج کی گنجائش نہیں تاہم خدشات دور ہونے چاہئے۔احتساب بلا امتیاز جاری رہنا چاہیے تاکہ عام شہری کی زندگی بہتر ہو سکے۔‘‘

حصہ