کراچی میں مجلسِ عمل کی ہوا بن چکی ہے

284

نون۔ الف
پاکستان میں جاری انتخابی مہم اب اپنے اختتام پر ہے۔ جب آپ ان سطور کو پڑھ رہے ہوں گے اس کے چوبیس گھنٹوں کے بعد یعنی پیر اور منگل کی درمیانی شب انتخابی مہم ختم ہو جائے گی۔ تجزیہ نگار کنڈلیاں نکا لنے میں مصروف ہیں۔ امیدواروں کا حال یہ ہے کہ بیشتر کمزور عقیدے والے امیدوار پیر اور پیرانیوں کے آستانوں پر جا بیٹھے ہیں۔ جو زیادہ ‘ پہنچا ‘ ہوا ہے اس نے پیر اور پیرنی کو اپنے ‘ دربار ‘ میں مستقل بنیادوں پر جگہ فراہم کردی ہے۔ تاکہ انتخابات میں کوئی چمتکار ہوجائے۔
میڈیا کی حد تک تو عمران خان وزیر اعظم بن چکے ہیں صرف رسمی کاروائی باقی ہے۔ مگر زمینی حقائق وہی کہہ رہے ہیں جو ‘ مقتدر حلقے ‘ نواز شریف کو سزا دلوانے سے قبل کہہ رہے تھے۔ یعنی کہ انھوں نے عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ ‘ ابھی کھیلنے کی ضد نہ کرو۔ حالات تمہارے حق میں نہیں ہیں ‘ مگر ضدی خان اپنی بات پر اڑے رہے کہ بس’ آپ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں اور میرے وزیر اعظم بننے کا انتظار کریں “۔ باوجود سمجھانے کے خان صاحب نے اپنی ضد جاری رکھی اور یوں عجلت اور مجبوری میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیا گیا۔
مگر چند دن کی مہم نے ہی مقتدر حلقوں کی اس پیش گوئی کو سچ ثابت کردیا کہ یہ وقت خان صاحب کے لیے مناسب نہیں !
جیسے ہی عام انتخابات کا اعلان ہوا عمران خان نے بہت طمطراق کے ساتھ ‘ الیکٹیبلز ‘ کے جلو میں اپنی انتخابی مہم شروع کی ، مگر ان کو اندازہ نہیں تھا کہ ہر سیاسی جماعت کے گھاٹ کا پانی پیا ہوا ، ڈیفالٹر ،پانامہ و نیب زدہ ‘ بھان متی کا کنبہ ‘ عمران خان کے گراف کو انتہا پر پہنچنے سے پہلے ہی زمین کا مزا چکھا دے گا۔ ان بدنام زمانہ ‘ الیکٹیبلز ‘ کے سہارے عمران خان نے اپنی مہم شروع تو کردی مگر جب وہ ووٹ مانگنے کے لیے اپنے انتخابی حلقوں میں جانے لگے تو انہیں چھٹی کا دودھ آگیا۔ عمران کے بیس پچیس سالوں سے رفیق سفر منہ دیکھتے رہ گئے۔ الیکٹیبلز نے عمران خان کے پارٹی فنڈ کے نام پر ٹکٹ کے عوض دو دو کروڑ روپے جمع کروائے۔ اس طرح برسوں کے بیروزگار عمران خان صاحب کی گزر بسر کے لیے معقول رقم کا بندوبست بھی ہوگیا۔
اس پر طرفہ تماشا کرا چی جیسے شہر میں تحریک انصاف نے جو ‘ ست رنگی ‘ امیدوار میدان میں اتارے ہیں ان کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر ہی ان کی کارنر میٹنگز بارہا ہنگامہ آرائی کی نذر ہوچکی ہیں۔ میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ ڈیفنس سے منتخب ہونے والے عارف علوی صاحب اور خرم شیر زمان جو تحریک انصاف کی میڈیا میں نمائندگی بھی کرتے ہیں اپنی کارنرز میٹنگز میں عوام کے سوالات کا سامنا نہیں کر پا تے اور پاؤں پٹختے ہوئے پنڈال سے رفو چکر ہوجاتے ہیں۔ یہی حال عارف علوی صاحب کا ہے۔ جو ڈھابے پر بیٹھے ، کبھی رکشہ چلاتے ، کبھی چائے پیتے تصویری کمپئن توچلا ؓ رہے ہیں ، مگر”قبر کا حال مردہ ہی جا نتا ہے’ کے مصداق عا رف علوی نے سیاست کے میدان میں آکر اپنی نیک نامی کو داؤ پر ضرور لگا دیا ہے۔ پچھلی مرتبہ کی بارش میں کراچی کے متاثرہ علاقے میں ‘ ریسکیو واٹر بوٹ ‘ لے کر جا پہنچے۔ جسے آدھے فٹ پانی میں نوجوان رسی سے دھکا لگا کر گھسیٹ رہے تھے۔ یہ تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور ان کی چڑ بن گئی۔
اسی طرح کی پے درپے حماقتوں نے تحریک انصاف کی رہی سہی ساکھ بھی برباد کردی۔ کراچی میں متواتر تین بڑے جلسوں کے اعلانات بھی انتہائی شرمناک حد تک ناکام ہوئے۔ جن میں مرکزی قائد عمران خان بنفس نفیس موجود تھے۔ برنس رود کی ایک چھوٹی سی گلی میں بمشکل دو سو کرسیاں بچا کر خان صاحب کو تقریر کی دعوت دی گئی۔ جلسی کے بعد عمران اسماعیل اور علی زیدی کا جو حشر ہوا اس کا احوال پھر کبھی سہی۔ گلستان جوہر اور ما ڈل کالونی کے جلسے بھی اجڑے دیار کا منظر پیش کرتے دکھائی دیے۔
اسی طرح کا معاملہ ابھی پنجاب میں دیکھنے میں آیا جہاں متواتر تین جلسے شدید ترین ناکامی سے دوچار ہوئے۔ اور اس طرح عمران خان ناکام جلسوں کی ہیٹ ٹرک مکمل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔تحریک انصاف کی جانب سے جہلم میں کیا جانے والا جلسہ مکمل طور پر فلاپ ہوگیا جس کے باعث سوشل میڈیا پر پارٹی کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کم لوگوں کو دیکھ کر جہاں عمران خان نے اپنا خطاب مختصر کردیا جبکہ عمران خان کا دعوی کہ یہ سونامی پلس ہوگا ، کہہ رہے تھے کہ جلسہ دیکھ کر سیاستدان تحریک انصاف میں شمولیت کے لیے ٹوٹ پڑیں گے۔ تحریک انصاف کے رہنما دعوی کر رہے تھے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہوگا۔ یہ تحریک انصاف کی الیکشن کمپین کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوگا۔ جلسے کی کامیابی کے لیے خود عمران خان نے شہر شہر جلسے کیے۔ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی اشتہاری کمپین کی گئی۔ ٹی وی چینلز کو اشتہارات سے بھر دیا گیا۔ ہر منٹ کسی نہ کسی ٹی وی اسکرین پر جلسے کا اشتہار چلتا ہوا نظر آتا تھا۔ اخبارات کے فرنٹ اور بیک پیجز کئی دنوں سے اشتہارات سے بھرے ہوئے تھے۔ اب انہوں نے کراچی میں جلسے کی تاریخ دے دی ہے۔ دیکھتے ہیں اب کی بار کیا معاملہ رہتا ہے ؟
ان حالات میں جب کراچی میں بڑی بڑی سیاسی جماعتیں جلسے کرنے سے گھبرا رہی تھیں ایم ایم اے کے مرکزی قائدین نے کراچی میں پاور شو کا مظا ہرہ کیا اور تمام مرکزی قائدین کو باغ جناح کے وسیع و عریض میدان میں اکھٹا کردیا۔ اتنا بڑا اجتماع اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آیا۔ مجلس عمل کا یہ جلسہ کراچی کی سیاست میں مجلس عمل کی ہوا بنا گیا۔ وہ تجزیہ نگار اور میڈیا کے دانشور جو پہلے مجلس عمل کو خاطر میں نہیں لا رہے تھے۔اس عظیم الشان جلسے کے بعد بغلیں جھانکتے دکھائی دیتے ہیں۔ داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ کے ساتھ جلسہ کرنے سے دامن بچا رہی تھیں ایسے میں متحدہ مجلس عمل کے قائدین نے ڈھکے چھپے الفاظ میں میڈیا کے یہی چمپئین اب اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ کراچی سے مجلس عمل قومی اسمبلی کی چار سے چھ نشستیں نکال سکتی ہے۔
متحدہ مجلس عمل کے پاور شو میں ایم ایم اے کے قائدین نے ملک میں اسلامی نظام کا نعرہ بلند کرکے مخالفین کو چیلنج دے دیا۔مولانا فضل الرحمن نے حکمرانوں کی ذہنیت کو بھی غلامانہ قرار دے دیا۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آج پاکستان کے عوام کی عدالت لگی ہوئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کراچی نے جو ناکام پالیسیوں کے مناظر دیکھے ہیں وہ کسی اور شہری نے نہیں دیکھے ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے مقروض ہیں جبکہ قرضوں کی ادائیگی کانظام موجودنہیں۔امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا خطاب میں کہنا تھا کہ عمران خان اور نوازشریف نے انتخابات کو متنازع بنادیا ہے،انہوں نے کہا کہ 2018 کا الیکشن افراد کے درمیان نہیں نظریات اور کلچر کے درمیان ہے۔
میڈیا کا سارا زور اب بھی تحریک انصاف اور نون لیگ کی حکومت بنوانے پر صرف ہورہا ہے۔ پیسے کی جنگ ہے جو میڈیا پر لڑی جارہی ہے۔ جبکہ گراؤنڈ ریلیٹی اس کے برعکس ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ میڈیا میں ان خبروں کا آنا ہے جس میں بتایا گیا کہ ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کے ذریعے قادیانیوں کے لیے گنجائش پیدا کرنے کی سازش میں تحریک انصاف اور نون لیگ دونوں کا عمل دخل ہے۔
ختم نبوت اور حرمت رسول کے حوالے سے پاکستان کے عوام خاص طور پر کراچی ہمیشہ سے ہی نہایت جذباتی رہے ہیں۔ یہ سلسلہ ایوب خان اور ذولفقار علی بھٹو کے زمانے سے چلتا چلا آرہا ہے۔ دستور میں خاموشی کے ساتھ آئینی ترمیم کروانے اور سازش کے مرتکب افراد کی نشان دہی میں جب تحریک انصاف اور مسلم لیگ دونوں ہی برابر کے مجرم قرار پائے تب سے اچانک عمران خان کے جلسوں میں بھوتوں نے ڈیرہ کرنا شروع کردیا۔ اسی طرح مزاروں پر سجدے کے معاملے نے بھی سنجیدہ ووٹر عمران خان سے دور کرتے ہوئے تحریک انصاف سے مایوس کیا۔ نامی گرامی لوٹوں کو پارٹی میں شامل کرکے انتخابی ٹکٹ دینے کی حرکت کی بھی کوئی معقول وجہ بتانے سے اب تک قاصر ہیں۔ خان صاحب کے دائیں بائیں وہی چور اور ڈیفالٹرز موجود ہیں جنھوں نے پاکستان کے قومی خزانے میں اربوں روپے کی نقب لگائی ہے۔ عمران خان اپنے ووٹرز کو خیبر پختون خواہ کے حوالے سے اچھی گورننس اور ترقی کا نمونہ دکھانے میں بھی کامیاب نہیں ہوئے۔ کے پی کے میں جو بھی ترقی ہوئی وہ جماعت اسلامی کے تین کامیاب وزیروں کی محنت اور کارکردگی کی مرہون منت ہے۔ گانے بجانے اور بے حیائی کے جس سیلاب کو وہ سونامی کا نام دے ر ہے ہیں ، یہ بھی کراچی میں ان کی مقبولیت کو کم کرنے کا سبب بنا ہے۔
کراچی کے جو امیدوار کھڑے ہوئے ان میں سے بیشتر کا ٹریک ریکارڈ انتہائی شرمناک ہے۔ مثال کے طور پر شیخ حلیم عادل کی شہرت لینڈ مافیا کے طور پر ہے۔ عامر لیاقت ، شیعہ و سنی دونوں حلقوں میں اپنی شیطانی چالوں اور منافقانہ رویے کے سبب بدنام ترین آدمی ہے۔ دیگر امیدواروں میں سے بہت سے وہ ہیں جو کراچی کے باہر سے آئے ہوئے ہیں۔
اس کے مقابلے پر مجلس عمل نے اپنے جو امیدوار میدان میں اتارے ہیں وہ سب کے سب اعلی تعلیم یافتہ ، تہذیب و تمدن کے زیور سے آراستہ ، سنجیدہ و شائستہ شخصیا ت ہیں۔ ان حالات میں کراچی میں جو صورتحال بنتی دکھائی دیتی ہے اس میں مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ مجلس عمل اپنی انتخابی مہم بہت مربوط انداز میں آگے بڑھا رہی ہے۔ مالی وسائل نہ ہونے کے باوجود ڈور تو ڈور رابطے کے ذریعے مجلس عمل کے امیدوار اپنے ووٹرز تک پہنچ رہے ہیں۔ ان کے مقابلے پر تحریک انصاف ، پیپلز پا رٹی اور دیگر جماعتیں جن میں ایم کیو ایم کے دونوں گروپ عوام میں جانے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر شدید ترین عوامی رد عمل کی وجہ سے اپنے اپنے مرکزی دفتر سے باہر نکلنے میں خوف محسوس کر رہے ہیں۔ سرکاری مکانات والے معاملے میں جو چور بازاری اور دھوکا دہی انھوں نے اپنے ہی ووٹر کے ساتھ کی ہے اب اس کی وجہ سے فاروق ستار مصطفی کمال اور صغیر صدیقی دونوں ہی منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔
کراچی کی سات قومی اور تیرہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے بارے میں کئی حلقوں میں یہ بات کی جارہی ہے کہ مجلس عمل کراچی کی سیاست میں بہت بڑا سر پرائز دینے جارہی ہے۔ مجلس عمل اور کتاب کی ہوا بن چکی ہے اس لیے کتاب کی ٹیم کو پیشگی مبارک باد۔ آپ کا نون۔ الف

حصہ