ہرفرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

270

گلزار فاطمہ
ہر طرف جھنڈے، ہر طرف بینر۔ کہیں کسی پول پر چڑھ کر کسی جماعت کا کارکن جھنڈے لگا رہا تھا اور کہیں نعروں سے فضا گونج رہی تھی۔
اگر محلے کے ایک نکڑ سے یہ صدا بلند ہوتی تھی کہ ’’اگر پاکستان کو بچانا ہے تو ہمارا ساتھ نبھانا ہے‘‘، تو دوسری طرف سے یہ آواز آتی تھی:
’’آپ کا ووٹ ہماری امانت ہے، آپ کی خدمت باعثِ راحت ہے‘‘
اور محلے کے شرارتی لڑکوں کے ٹولے کا تو اپنا ہی نعرہ تھا:
’’آوے گا بھئی آوے گا… کوئی نہ کوئی تو آوے گا‘‘۔
عبداللہ میاں بھی اس کام میں بھرپور حصہ لے رہے تھے۔
جی ہاں! یہ سماں تھا انتخابی مہم کا، جوآج کل اپنے عروج پر تھی، اور عبداللہ بھی اس میں زور و شور سے اپنا حصہ ڈال رہے تھے۔ حالانکہ شاید انہیں ووٹ کے ’’واؤ‘‘ سے بھی صحیح طرح واقفیت نہیں تھی، لیکن محلے کی کسی سرگرمی میں عبداللہ شامل نہ ہوں، ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
ابھی بھی وہ اتنے جذباتی ہوگئے کہ گھر جاتے ہی ابا سے سوال کر ڈالا ’’ابا جان میں ووٹ کیوں نہیں ڈال سکتا؟ مجھے بھی اپنے ملک کے لیے کچھ کرنا ہے‘‘۔ ان کی حب الوطنی دیکھتے ہوئے ابا نے انہیں پیار سے چمکارا کہ ’’بیٹا ابھی تمہارا شناختی کارڈ نہیں بنا ہے، جب تم 18 سال کے ہوجاؤ گے تب تم ووٹ دے پاؤ گے‘‘۔ عبداللہ نے بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ’’یعنی مجھے سات سال اور انتظار کرنا پڑے گا! مجھے بھی اس الیکشن میں کسی طرح حصہ لینا ہے، آپ بتائیں اباجان، میں کیا کروں؟‘‘
اباجان کچھ دیر سوچتے رہے اور پھر عبداللہ سے مخاطب ہوئے ’’اچھا بیٹا تم ایسا کرو کہ اپنی دادی جان کو ووٹ ڈالنے کے لیے راضی کرلو‘‘۔
’’ابا جان دادی جان ووٹ نہیں ڈالیں گی، لیکن کیوں!‘‘ عبداللہ میاں کی حیرانی عروج پرتھی، ان کی معلومات کے مطابق تو ووٹ ڈالنا ہر پاکستانی کی اوّلین ذمے داری ہے۔
ابا جان ان کی حیرانی پر مسکرائے اور انہیں اپنے پاس بٹھاتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی’’بس بیٹا وہ تھوڑی مایوس ہوگئی ہیں پاکستان کے حالات سے‘‘۔ اس پر عبداللہ باپ کی بات کاٹتے ہوئے جلدی سے بولے ’’پر مایوسی تو کفر ہے اباجان‘‘۔
’’شاباش میرا بیٹا، بس یہی بات دادی جان کو سمجھانی ہے اور اُن میں پھر سے امید جگانی ہے‘‘۔
’’لیکن ابا جان! میں دادی جان کو یہ بات کیسے سمجھاؤں گا! میری معلومات تو بہت ناقص ہے الیکشن کے طریقہ کار اور ووٹرز کے حوالے سے۔‘‘
’’اچھا یہ بتاؤ کہ تم کیوں ووٹ ڈالنا چاہ رہے تھے؟‘‘ اباجان نے عبداللہ سے سوال کیا، جس پر عبداللہ نے جواب دیا ’’ابا جان میں اپنے حصے کا کردار ادا کرکے پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن اور خوشحال دیکھنا چاہتا ہوں‘‘۔
’’ہاں تو میرا بیٹا، بس یہی بات دادی جان کو سمجھانی ہے کہ اُن کا ایک ووٹ بھی پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتا ہے۔ تم نے علامہ اقبال کا وہ شعر تو سنا ہوگا
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ‘‘
عبداللہ نے جلدی سے جواب دیا ’’جی ابا جان، بہت دفعہ سنا ہے‘‘۔ (اب یہ اور بات تھی کہ ہر دفعہ یہ شعر ان کے سر پر سے گزر جاتا تھا لیکن ان کے وجود میں ایک جذبہ ضرور جگا دیتا تھا)
رات کو بستر پر لیٹتے ہی انہوں نے پوری منصوبہ بندی کرلی کہ دادی جان کو کیسے منانا ہے۔ اگلے دن حسبِ معمول ابا جان آفس کے لیے نکل گئے، امی جان برآمدے میں بیٹھ کر دن کے کھانے کے لیے سبزیاں کاٹنے لگیں، اور دادی جان چوکی پر نیم دراز دھوپ سینک رہی تھیں۔
عبداللہ جلدی سے چوکی پر بیٹھے اور جھٹ دادی جان کا پیر دبانے لگے۔ دادی جان جو کہ غنودگی میں جانے لگی تھیں، اچانک ہڑبڑا گئیں اور عبداللہ کو پیر دباتا دیکھ کر واری صدقے ہونے لگیں ’’ارے میرا چندا، ارے میرا راجا، ارے میری آنکھوں کا تارا، جیتے رہو، جیتے رہو‘‘۔ عبداللہ نے جب دادی جان کو واری صدقے ہوتے دیکھا تو جلد اپنے مدعا پر آگئے ’’دادی جان آپ ووٹ کیوں نہیں ڈالیں گی؟‘‘ یہ بات سننا تھی کہ دادی جان نے اپنے پیر جھٹ کھینچے اور ناگواری سے بولیں ’’یہ کیا تم کسی سیاسی کارندے کی طرح ہم سے ووٹ کی بابت پوچھ رہے ہو، ہمارا ووٹ ہماری مرضی‘‘۔ دادی جان شانِ بے نیازی سے بولیں۔ اس پر عبداللہ نے برجستہ جواب دیا ’’دادی جان آپ کا ووٹ ملک و قوم کی امانت‘‘۔ دادی جان کو تھوڑا شک ہوا ’’اے عبداللہ بیٹا! تم نے کسی سیاسی پارٹی کی رکنیت تو حاصل نہیں کرلی ہے؟ ویسے اتنے چھوٹے بچے کو رکنیت دیتے تو نہیں ہیں، کیوں بہو؟‘‘ اس بات پر تو اماں جان بھی پریشان نظر آئیں اور سبزی چھوڑ چھاڑ عبداللہ کو جا لیا اور لگیں گھورنے۔ اب تو عبداللہ بھی اپنی دادی اور ماں کی پریشانی کو دیکھ کر تھوڑے متفکر نظر آئے کہ کیسے اپنی بات بیان کی جائے۔ انہوں نے اپنے لہجے میں دنیا جہان کی معصومیت سموتے ہوئے اظہار کیا ’’ارے میری پیاری دادی جان، مجھے تو سیاسی جماعت کا مطلب بھی نہیں پتا، آپ خوامخواہ ہی پریشان ہورہی ہیں۔ میں تو بس یوں ہی پوچھ رہا تھا۔ وہ میرا دوست ہے ناں الیاس، اُس کی دادی نے تو نیا سوٹ بنوایا ہے ووٹ ڈالنے کے لیے‘‘۔ ’’ہاں بیٹا اب تو لوگ اسی لیے ووٹ ڈالتے ہیں کہ نیا جوڑا پہننے کو مل جائے، یا موئی وہ جو سیلفی ہوتی ہے وہ کھینچ کر ڈال سکیں، اصل مقصد تو فوت ہی ہوگیا ہے الیکشن کا‘‘۔ ’’بالکل صحیح کہہ رہی ہیں اماں آپ، جعلی ووٹ ڈال ڈال کر بیلٹ باکس بھر دیے جاتے ہیں اور پھر وہی حکمران ہمارے سروں پر مسلط ہوجاتے ہیں، پتا نہیں کب تک چلے گا یہ نظام‘‘۔ اماں جان نے بھی ساس کی تائید کرتے ہوئے جلے دل کے پھپھولے پھوڑے۔ اس بات پر دادی جان نے بھی پہلو بدلا اور گویا ہوئیں ’’پچھلی دفعہ تو محلے کا ریاض ہمیں بھی گاڑی میں بٹھاکر 5 دفعہ ووٹ ڈلوانے گیا تھا۔‘‘
’’دادی جان آپ نے پانچ ووٹ ڈالے تھے!‘‘ حیرت سے عبداللہ کی آنکھیں ابل پڑی تھیں۔ دادی جان تھوڑی شرمندہ سی نظر آئیں اور بولیں ’’ہم مانتے ہیں ہم نے غلطی کی تھی، لیکن ہمیں یہ خوش فہمی تھی کہ شاید اس طرح ایک قابل اور مخلص عوامی نمائندہ جیت جائے گا۔ لیکن تب بھی نتیجہ وہی رہا‘‘۔ دادی جان نے اپنی بات ختم کرکے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔ عبداللہ نے کچھ دیر دادی جان کی افسردگی کو محسوس کیا اور پھر گویا ہوا’’دادی جان اِس دفعہ میرے کہنے پر اپنا جائز ووٹ ضرور ڈالیے،کیا پتا آپ کا ایک ووٹ ہی ملک کی تقدیر بدل دے،آپ ڈالیں گی ناں ووٹ؟‘‘ دادی جان نے اپنے پوتے کی آنکھوں میں امید کی لوکو جلتے دیکھا اور اثبات میں سر ہلا دیا۔
آج عبداللہ کے گھر کا ایک ایک فرد ووٹ ڈال کر آیا تھا اور دادی جان کے ووٹ ڈالنے پر عبداللہ اور ابا جان اتنے خوش تھے جیسے ان کے ہاتھ قارون کا خزانہ لگ گیا ہو۔ اور اب سب کو نتیجے کا بے صبری سے انتظار تھا۔ دادی جان بھی تسبیح پڑھتے ہوئے نتائج کے اعلان پر کان لگائے بیٹھی تھیں۔ اناؤنسر نے جب نتائج کے اعلانات نشر کرنا شروع کیے تو سب کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں، اور جب ان کے حلقے کی باری آئی تو اناؤنسر نے اُسی نمائندے کا نام لیا جو ہر سال ہی یہاں سے جیتتا تھا، نتیجہ سنتے ہی دادی جان نے شکوہ کناں نظروں سے بیٹے اور پوتے کو دیکھا کہ اچانک اناؤنسر کی پُرجوش آواز سنائی دی ’’ارے یہ کیا ناظرین! اس ایک ووٹ نے تو پاکستان کی تاریخ بدل ڈالی، جی ہاں ناظرین حلقہ نمبر 588 سے صرف ایک ووٹ کی بنا پر پہلی بار دوسری پارٹی کے نمائندے نے بازی مار لی ہے‘‘۔ یہ سننا تھا کہ دادی جان فوراً سجدے میں جاگریں۔ عبداللہ اور ابا جان نے ایک دوسرے کو فاتحانہ نظروں سے دیکھا، کیونکہ یہ وہی نمائندہ تھا جسے دادی جان نے ووٹ دیا تھا، اور آج ووٹر کی حقیقتاً جیت ہوئی تھی۔ عبداللہ نے تو ووٹ نہ ڈال کر بھی اپنا کردار ادا کیا، آپ بھی اپنا کردار اور فرض ضرور ادا کیجیے، جائز ووٹ ڈال کر، یا ڈلوا کر، کیوں کہ بقول اقبال:
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

حصہ