مہرالنساء، سچی کہانی

233

فارحہ شبنم (کینیڈا)
(چھٹی قسط)
ابھیشک کے اپنے دوستوں میں تو تقریباً سبھی دو دو odd جابز کررہے تھے، میرے باربار کہنے پر اُس نے عاصم بھائی سے بات کی اور پھر اُن کے مشورے پر اپنی ڈگری اَپ گریڈ کرنے کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ پڑھائی نے اسے خاصا مصروف کردیا تھا، اور جب تک وہ گھر لوٹتا، سونیا سوچکی ہوتی۔ ساری کسر وہ ویک اینڈ پر نکالتا، اور وہ بھی اس کے ساتھ خوب خوش رہتی۔ البتہ ہم دونوں کے آپس کے تعلقات میں وہی سردمہری قائم تھی۔
ستمبر کا آغاز ہوتے ہی موسم دوبارہ تیزی سے ٹھنڈا ہونے لگا تھا۔ تیز اور ٹھنڈی ہوائیں جب درختوں کے زرد، سرخ اور عنابی پتے گراتیں اور اپنے ساتھ لے کر انجانی منزلوں کی طرف چلتیں تو مجھے ایسا لگتا کہ شاید میں بھی ایسی ہی کسی نامعلوم منزل کی مسافر ہوں جسے حالات کے تھپیڑے اِدھر اُدھر اڑائے پھرتے ہیں۔ ایک بے یقینی کی سی کیفیت تھی جو مجھے گھیرے رہتی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ معاملات کیسے اور کتنے عرصے اس طرح چل سکیں گے۔ مسئلہ یہ تھا جس مشکل کا میں شکار تھی اُس میں مَیں نے خود چھلانگ لگائی تھی۔ اب اس کا حل مجھے ہی صبر کے ساتھ تلاش کرنا تھا۔
کچھ عرصے میں ابھیشک کی پڑھائی مکمل ہوئی تو اُس نے دوبارہ مختلف کمپنیوں میں سی وی ڈالنا شروع کیا۔ عاصم بھائی نے بھی دوبارہ اُس سے سی وی لیا۔ اسی دوران ان دونوں کی اتنی بات چیت ہوگئی تھی کہ کبھی کبھار ساتھ کافی شاپ بھی چلے جاتے۔
سونیا کی اِس مرتبہ دوسری سردی تھی۔ انتہائی احتیاط کے باوجود اس کو زکام اور کھانسی ہوگئی۔ ڈاکٹر کو دکھاکر دوائی شروع کی مگر اس کی طبیعت سنبھل ہی نہیں رہی تھی۔ مستقل بخار اور کھانسی سے وہ نڈھال ہوچکی تھی، اور میں بھی اس کی تیمارداری میں دن رات کی جگار سے ذہنی اور جسمانی دونوں لحاظ سے تھک رہی تھی۔ اس کی بگڑتی حالت دیکھ کر ابھیشک کے بھی ہاتھ پاؤں پھولنے لگے اور بالآخر ہم اس کو ایمرجنسی میں لے کر بھاگے۔ ڈاکٹر نے فوراً ہسپتال میں داخل کرنے کے لیے کہا اور ایکیوٹ برونکائٹس کی ٹریٹمنٹ شروع کردی۔ اگلے کچھ گھنٹے بھی طبیعت بہتر نہ ہوئی تو میں وہیں اس کے کمرے کے ایک کونے میں کپڑا بچھاکر نماز پڑھنے کھڑی ہوگئی اور اللہ سے خوب دعا مانگی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں اس طرح ابھیشک کے سامنے نماز پڑھ رہی تھی۔ وہ کھڑکی سے باہر جھانکنے لگ گیا تھا۔ شاید مجھ سے نظریں چرانا چاہتا تھا، مگر ہم دونوں جانتے تھے کہ سونیا کی زندگی کے لیے ہم کچھ بھی کرنے کو تیار تھے۔ نماز کے بعد میرے دل میں آیا تو میں نے اسے عاصم بھائی سے مشورہ کرنے کے لیے کہا۔ انتہائی پریشانی میں اس نے عاصم بھائی کو فون کیا اور سونیا کی کنڈیشن بتائی۔ انہوں نے اپنے کسی دوست ڈاکٹر سے بات کروائی جو اسی ہسپتال میں کام کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے سارے ٹیسٹ اور ایکس رے رپورٹ دیکھ کر فوراً برونکائٹس کی میڈیسن روک کر نمونیا کی ٹریٹمنٹ شروع کروائی۔ اس دوران عاصم بھائی کا بہت سہارا رہا۔ وہ مستقل ابھیشک سے رابطے میں تھے۔ آہستہ آہستہ طبیعت سنبھلنی شروع ہوئی اور ہماری جان میں جان آئی۔ شام میں عاصم بھائی سونیا کو دیکھنے ہسپتال آئے تو ابھیشک اُن کے گلے لگ کر تقریباً رو ہی پڑا۔ اگلے دو دن میں سونیا کی طبیعت واضح طور پر بہتر محسوس ہورہی تھی۔ اس میں ہماری جان تھی اور ایسا لگتا تھا گویا وہ ہمارے ہاتھوں سے نکل کر واپس آئی ہے، اور اس کے لیے ابھیشک عاصم بھائی کا بہت احسان مند تھا۔ ہفتہ بھر بعد ڈاکٹر نے کافی احتیاط کی ہدایات کے ساتھ گھر بھیجا۔ خاص طور پر اس کو سگریٹ کے دھویں سے بچانے کی تاکید کی۔
تقریباً پوری سردیاں سونیا کی تیمارداری میں ہی گزر گئیں۔ وہ بہت حساس، ضدی اور کمزور ہوگئی تھی۔ کبھی کبھار میں اس کو لے کر باجی ثمرین کے گھر چلی جاتی، یا ان کی بچیوں کو بلالیتی تو وہ بہت خوش ہوتی، مگر ان کے جاتے ہی پھر چڑچڑانا شروع ہوجاتی۔ ہر وقت توجہ مانگتی اور مجھے کچھ نہ کرنے دیتی۔ فروری کے مہینے میں ہی عاصم بھائی کے آفس سے انٹرویو کی کال بھی آگئی، اوراللہ نے کرم کیا کہ ابھیشک کو وہاں جاب مل گئی۔ جاب کا روٹین بنا تو اس کے مزاج میں بھی فرق آنے لگا۔ اکثر واپس آتا تو میری دن بھر کی مصروفیات پوچھتا۔ سونیا کی وجہ سے اسموکنگ بھی گھر سے باہر جاکر کرتا۔ موسم بہتر ہوا تو میں نے سونیا کو لے کر باہر نکلنا شروع کیا جس سے اس کا موڈ خاصا بہتر ہوگیا۔ اس سال دورہ قرآن شروع ہوا تو وہ بھی میرے ساتھ ہوتی۔ لیکن اس دفعہ ایک دوسری خاتون نے کنڈکٹ کروایا۔ ثمرین باجی کسی اور علاقے میں کروا رہی تھیں۔ وہ مزا تو نہیں آیا جو پچھلے سال آیا تھا کیونکہ سونیا کو بھی دیکھنا پڑتا، مگر پھر بھی بہت کچھ سن لیتی۔ قرآن کی برکت سے اس محفل میں محض شامل ہوکر بھی بڑا لطف اور سکون ملتا۔
(جاری ہے)

حصہ