بادل کی نصیحت

549

جاوید اقبال
آسمان پر کالے بادل چھائے ہوئے تھے بادل اتنے گہرے تھے کہ دن میں بھی رات کا گماں ہورہا تھا ذیشان تیزی سے اپنے کھیتوں کی طرف جارہا تھا تاکہ اگر بارش آجائے تو وہ گندم کے گٹھوں کو پلاسٹک کی چادر سے ڈھانپ دے کچی سڑک پر وہ تیز تیز قدم اٹھاتا چلا جارہا تھا گھنگور گھٹاؤں سے ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی موسلا دھار بارش شروع ہوجائے گی پھر چند ہلکی ہلکی بوندیں برسیں تو ذیشان نے بھاگنا شروع کردیا اچانک اس نے ایک آواز سنی آواز ایسی تھی جیسے کوئی کسی ویران کنویں کے اندر سے بولا ہو ذیشان کے قدم رک گئے اس نے ادھر ادھر دیکھا کوئی بھی نظر نہ آیا، یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے پھر یہ آواز کہاں سے آئی اس نے زیرِلب کہا یہ میں ہوں سر اٹھا کر اوپر آسمان پر دیکھو وہی آواز پھر آئی۔
ذیشان نے آسمان کی طرف دیکھا آسمان پہ اسے بادل کا بڑا سا ٹکڑا نظر آیا پھر اسے بادل کی آنکھیں اور ہونٹ بھی نظر آئے۔ تم کون ہوں ذیشان نے ڈرتے ڈرتے پوچھا میں بادل ہوں آواز آئی۔ لیکن میں نے اس شکل میں تمہیں پہلے کبھی نہیں دیکھا ذیشان نے کہا۔
میں قطب شمالی کے برف پوش پہاڑوں کے اوپر رہتا ہوں اب دنیا دیکھنے نکلا ہوں ہوائیں مجھے ملک ملک لیے پھر رہی ہیں اب تک آدھی دنیا دیکھ چکا ہوں یہ ملک کون سا ہے؟ یہ میرا پیارا وطن پاکستان ہے ذیشان نے فخر سے کہا۔ بادل نے کہا مجھے اپنے وطن کے بارے میں کچھ بتاؤ!‘‘ کیوں نہیں۔
ذیشان بولا میرا ملک ہرے بھرے میدانوں گھنے جنگلوں میٹھے پانی کے چشموں بل کھاتی ندی نالوں شور مچاتے آبشاروں اور ملک بوس پہاڑوں کا دیس ہے اس کے چار موسم ہیں گرمی سردی، بہار اور خزاں، ہر موسم کا الگ مزہ ہے یہاں مٹی کو سونا بنانے والے مزدور اور کسان ہیں سمندروں کا سینہ چیرتے ملاح فضا میں اڑنے والے شاہین صفت ہوا باز ہیں ہمارے فلک میں درس گاہیں ہیں تخلیق و جستجو کے سمندر سے آگہی کے موتی چننے والے سائنس داں ہیں ہم دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہیں ہمارا ملک اقوامِ عالم میں بھائی چارے اور امن کے فروغ کا خواہش مند ہے ہم نے یہ پیارا وطن بڑی قربانیاں دے کر حاصل کیا ہے اور اس کی حفاظت اور حرمت کی خاطر سر پر کفن باندھے ہر وقت کٹ مرنے کے لیے تیار ہیں ذیشان بڑے جذبے سے یہ سب کہہ رہا تھا اور بادل کے ہونٹوں ہر مسکراہٹ تھی۔
بادل نے کہا اپنے وطن کے بارے میں تمہارے جذبات کی میں بے حد قدر کرتا ہوں مگر یہ دیکھ رہا ہوں کہ یہاں کے اکثر لوگ وطن کی بہتری پر توجہ نہیں د ے رہے ہیں سر سبز درختوں کو بے دردی سے کاٹ رہے ہیں یہ درخت فضا کو آلودگیوں سے پاک رکھتے ہیں لوگوں میں شجر کاری کا رجحان نہیں ہے کارخانوں اور گاڑیوں کا دھواں بھی فضائی آلودگی پیدا کررہا ہے اس زہریلے دھویں میں سیسہ ہوتا ہے جو انسان کی ذہنی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے شور بھی انسان کے مزاج پر اثر ڈالتا ہے شور کا شمار بھی آلودگی میں ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ مختلف ذہنی امراض میں تیزی سے مبتلا ہورہے ہیں ان سب خرابیوں کی وجہ تعلیم کی کمی بھی ہے تم لوگوں کو چاہیے کہ جگہ جگہ درخت لگاؤ تاکہ ماحول بہتر ہو اور ذہنی اور جسمانی صحت اچھی رہے میری نصیحت یاد رکھنا اور یہ بھی نہ بھولنا کہ آج جو مفت کی نصیحت قبول نہیں کریں گے کل وہ مہنگے داموں افسوس خریدیں گے۔
اس وقت تیز ہوائیں چلنے لگیں درختوں کی شاخیں شائیں شائیں کرتی ہلنے لگیں بادل نے کہا اچھا دوست خدا حافظ پھر ہوائیں اسے اپنے دوش پر لیے دور افق کی طرف بڑھ گئیں اچانک بارش کی بوچھار سے جیسے ذیشان کو ہوش آگیا اس نے چونک کراپنے آس پاس دیکھا اسے ایسا لگا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہا تھا پھر وہ اپنی گندم کو بارش سے بچانے کے لیے تیزی سے کھیتوں کی جانب دوڑا۔

حصہ