دو سہیلیاں

429

مرتب: بشریٰ طاہر
ایک دن ایک شہد کی مکھی بہت پیاسی تھی۔وہ پانی پینے ایک دریا کے کنارے پہنچی لیکن اچانک ایک تیز لہر آئی اور وہ لہروں کے ساتھ بہنے لگی۔ اسے سمجھ نہ آتا تھا کہ دریا کی زور دار لہر سے کیسے پیچھا چھڑائے جو اسے تیزی سے اپنے ساتھ بہائے لے جارہی تھی۔
ایک چڑیا اپنے گھونسلے میں بیٹھی یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ اسے سمجھ ا?گیا کہ مکھی اب اڑ نہیں سکتی اور ڈوبنے والی ہے تو اسے مکھی پر ترس آگیا اور اس نے درخت سے ایک پتا توڑا اور مکھی کے قریب پھینک دیا۔
وہیں قریب ہی کوا بھی بیٹھا تھا مگر اس نے شہد کی مکھی کی مدد نہ کی۔ چڑیا کی مدد سے مکھی اس پتے پر چڑھنے میں کامیاب ہوگئی۔ اس نے دھوپ میں اپنے پر خشک کئے اور اڑنے لگی۔ اب وہ اڑتے اڑتے چڑیا کے گھونسلے کے اوپر پہنچی اور نہایت مودب ہو کر چڑیا کا شکریہ ادا کیا۔
’’آپ نے آج میری جس طرح مدد کی، وہ صرف ایک سچی سہیلی ہی کر سکتی ہے۔ میں آپ کا احسان کبھی نہیں بھولوں گی۔‘‘
چڑیا بولی، ’’ارے سہیلی! شکریہ کی ضرورت نہیں، یہ تو میرا فرض تھا، میں تمہیں اس حال میں دیکھ کر تنہا کیسے چھوڑ سکتی تھی۔‘‘
’’آپ کو کسی مدد کی ضرورت ہو تو مجھے بتائیے، میں آپ کے کام آکر خوشی محسوس کروں گی۔‘‘ اس طرح وہ دونوں سہیلیاں بن گئیں اور ایک دوسرے سے اکثر ملنے لگیں۔ چڑیا اپنے بچوں کے لیے دانہ لینے باہر جاتی تو شہد کی مکھی کو ہمیشہ کام میں مصروف دیکھتی، وہ اس کی محنت سے متاثر ہوتی تھی جو دن رات شہد نکالنے کے باوجود کبھی شکایت نہیں کرتی تھی۔ چڑیا اپنے بچوں کو بھی سہیلی شہد کی مکھی جیسا محنتی بننے کی تلقین کیا کرتی۔
ایک دن شہد کی مکھی سخت محنت سے شہد بنانے کے بعد کچھ دیر کے لیے چڑیا سے ملنے اس کے گھونسلے کی جانب آ رہی تھی کہ اس کی نظر چڑیا کے گھونسلے پر نشانہ باندھنے کی تیاری کرنے والے ایک ظالم شکاری پر پڑی، جو شاید ابھی جنگل میں آیا تھا اور آتے ہی نیلی چڑیا کا دشمن بن بیٹھا تھا۔ اس وقت چڑیا اپنے درخت کی شاخ پر بیٹھی تھی۔جب شکاری نے اسے دیکھ لیا۔اب اس نے نشانہ لگانے کے لیے اپنی غلیل سیدھی کی۔ مکھی سب کچھ دیکھ رہی تھی۔تب ہی اس نے شکاری کے ہاتھ پر ڈنک ماردیا۔شکاری کو اچانک جھٹکا محسوس ہوا اور اس کا نشانہ چوک گیا۔بندوق کی آواز سن کر چڑیا اڑ گئی اور اپنی زندگی بچالی۔اس طرح اس کو نیکی کا بدلہ مل گیا تھا۔

حصہ