جرأت کا پھل

172

ریان امجد
قادر علی ایک ذہین بچہ تھا جس نے کسی معاشی ضرورت کے باعث کچھ عرصہ شہر میں گزارا تھا یہ عرصہ تو زیادہ نہیں تھا لیکن اس کے دل میں علم کے حصول کی خواہش پیدا کر گیا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی یہ خواہش بڑھتی جاتی تھی وہ سوچتا کہ کاش ہمارے گائوں میں اسکول ہوتا اور ہم پڑھتے… گائوں پر وڈیرہ اللہ بخش کی حکمرانی تھی اللہ بخش ایک نرم دل آدمی تھا وہ اپنے مزارعوں کا ہر طرح خیال رکھتا وہ ظلم و زیادتی سے پرہیز کرتا مگر معلوم نہیں کیوں اسے اسکول کے نام سے چڑ تھی۔ وہ سمجھتا تھا گائوں کے لوگ اگر لکھ پڑھ گئے تو آنے والے دن میرے منہ کو آئیں گے قابو سے باہر ہو جائیں گے لہٰذا محکوم کو تعلیم دلا کر اپنا حاکم بنانا ایک غلط قدم ہوگا۔
وڈیرہ اللہ بخش نے آج گائوں میں ایک تقریب کا اعلان کیا ہوا تھا۔ گائوں میں رونق لگی ہوئی تھی بچے بڑے سب خوش تھے اور اس تقریب میں چلے آرہے تھے جس مین وڈیرہ اللہ بخش کے دوست جو کہ اسمبلی کے امیدوار تھے تشریف لا رہے تھے ان کا خطاب تھا اور گائوں بھر کے لیے کھانے کا انتظام ویسے یہ کوئی نہیں بات نہیں تھی ہمیشہ انتخاب کے موقع پر ایسا ہوا کرتا تھا گائوں کے لوگ جمع ہو جاتے تقریر سنتے، کھانا کھاتے نعرے لگاتے وڈیرہ اللہ بخش گائوں کے سارے ووٹ اپنے دوست کی جھولی میں ڈال دیتا کسی کی مجال نہیں تھی کہ وہ دوسرے امیدوار کے بارے میں سوچ بھی سکے۔
اس ماحول میں صرف قادر علی تھا جو ناخوش تھا وہ سوچ رہا تھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے گائوں کے سارے لوگوں کے ووٹ کا ایک شخص کے کہنے پر دے دیے جاتے ہیں مسائل کے حل کی کوئی بات نہیں ہوئی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اسکول ہے یہ کیوں قائم نہیں ہوتا قادر علی نے طے کر لیا کہ آج وہ ضرور امیدوار کے سامنے اپنا مطالبہ رکھے گا قادر نے اپنے ہم عمر دوستوں سے مشورہ کیا اور انہیں اپنا ہم نوا بنایا اس نے سوچا کہ بڑوں سے بات کرنا بے کار ہے وہ پہلے ہی وڈیرے کے احسان تلے دبے ہوئے ہیں وہ ہمیں بات کرنے سے بھی روک دیں گے جب امیدوار صاحب تقریر کرنے آئیں تو اچھے انداز میں ان کے سامنے اسکول کا مطالبہ رکھا جائے۔
جلسے کا آغاز ہوا وڈیرہ اللہ بخش نے امیدوار کا تعارف کرایا آئندہ انتخابات میں ووٹ کی رسمی اپیل کی جب امیدوار تقریر کرنے کھڑے ہوئے قادر علی بھی کھڑا ہو گیا اور کہا کہ جناب میرا ایک سوال ہے سوال نہیں بلکہ ایک مطالبہ ہے اگرچہ تم بچوں کا ووٹ نہیں ہے لیکن آپ یہ ہمارا بھی حق ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ یہاں ایک اسکول قائم کیا جائے تاکہ علم کی روشنی سے یہ گائوں روشن ہو امیدوار صاحب نے اعلان کیا کہ انتخابات اور ووٹ کی بات ایک طرف لیکن آپ کا مطالبہ جائز ہے میں اسکول کے قیام کا اعلان کرتا ہوں تاکہ یہاں علم کی روشنی پھیلے سب پورا گائوں بچوں کے نعروں سے گونج اٹھا قادر علی کی ہمت اور جرأت سے اسکول کا قیام عمل میں آگیا۔

مسکرائیے

٭ جج (ملزم سے) تمہاری آخری خواہش کیا ہے ملزم آم کھائوں گا۔
جج لیکن یہ تو آم کا موسم نہیں۔
ملزم: چلیں انتظار کر لیتے ہیں۔
٭٭٭
٭ ایک پاگل (دوسرے باگل سے) جب میں چھوٹا تھا تو مینارِ پاکستان سے گر گیا تھا۔
دوسرا پاگل: کیا تم زندہ رہے یا مر گے۔
پہلا پاگل: یاد نہیں اس وقت میں بہت چھوٹا تھا۔
٭٭٭
٭ ارشد: تمہیں ڈرامے میں کتوں کے ساتھ لڑائی میں کیا معاوضہ ملا
امجد: چودہ ٹیکے وہ بھی پیٹ پر
٭٭٭
٭ ایک فیشن ایبل دادی اماں نے فیشن کے شوق میں اپنے بال کٹوا دیے انہوں نے بالوں کو سنوارتے ہوئے اپنی پوتی سے پوچھا اب میں تمہاری بوڑھی دادی اماں لگتی ہوں۔
ہرگز نہیں اب تو آپ دادا ابا لگتی ہیں۔
٭٭٭
٭ مالک (نوکر سے) پودوں کو پانی دو
نوکر صاحب جی باہر بارش ہو رہی ہے۔
مالک: ابے کاہل چھتری لے کر جائو اور پودوں کو پانی دو۔
٭٭٭
٭استاد ٹیسٹ کے دوران (عامر سے):’’جلدی سے 16 پھلوں کے نام بتائو۔‘‘
عامر(اٹکتے ہوئے): ’’آم، سیب، انار، کینو…‘‘
استاد:’’ہاں ٹھیک ہے، چار ہوگئے، مزید 12 نام بتائو؟‘‘
عامر: ’’ایک درجن کیلے۔‘‘
٭٭٭
٭استاد: ’’انسان وہ ہے جو دوسروں کے کام آئے۔‘‘
طالب علم: ’’سر! تو پھر امتحان کے دوران آپ ہمیں انسان کیوں نہیں بننے دیتے۔‘‘

حصہ