افضل خان او ر اک عمر کی مہلت

940

نذیر خالد
اپنے حلیے سے سخن ساز نہ لگنے والے ہم یہاں دوسرے شاعر ہیں عدم پہلے تھے
(افضل خان شاعر ہیں مگر لگتے نہیں اور کتنے ہی ایسے ہیں جو شاعر لگتے ہیں مگر شاعر ہیں نہیں )
بہاولپور میں رہنے والے معروف شاعر افضل خان یوں تو ایک عرصہ سے جدیدغزل کہنے کی بنا پر ملکی سطح پر علمی و ادبی حلقوں میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں لیکن حال ہی میں ان کا جو دوسرا شعری مجموعہ ” اک عمر کی مہلت “( پہلا مجموعہ “توبھی میں بھی” کے نام سے چند سال پہلے شائع ہوا تھا) چھپ کر قارئین کے سامنے آیا ہے، نے مزید حیرت زدہ کیا ہے۔
وہ اس طرح کہ بیشتر شعراء￿ کے مجموعوں میں فقط چند ایک ہی کام کی غزلیں ہوتی ہیں اور ان غزلوں میں اکا دکا اشعار ہوتے ہیں لیکن افضل خان کے مذکورہ شعری مجموعے میں ہر غزل گرفت کرنے والی اور ہر شعر دل کو چھونے والا ہے،میرے استاد مکرم پروفیسر غلام جیلانی اصغر صاحب (مرحوم) فرماتے تھے کہ جو شعر آپ کو پکڑ نہ لے وہ کہاں کا شعرہے۔
افضل خان کے اس مجموعہ میں بیسیوں نہیں سینکڑوں ایسے اشعار موجود ہیں جو آپ کی سوچ کو مہمیز لگاتے ہیں،آپ کو گرفت کرتے ہیں ،آپ پر ایک خوشگوار لمحہ وارد کرتے ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ آپ کوسوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔
نئے سے نئے ردیف قافیے کا استعمال،مضامین کا تنوع،موضوعات کی کہکشاں اور ہر شخص کی روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے حالات،تجربات اور واقعات ہر صفحے پر بکھرے پڑے ہیں اور کتاب پڑھنے والے کوایک لمحے کیلئے بھی اس مر کا احساس نہیں ہوتا کہ وہ محض کسی دوسرے شخص کی زندگی کے واقعات یا قلبی واردات کا مطالعہ کر رہا ہے بلکہ اسے یوں لگتا ہے جیسے وہ اپنی ہی کتاب حیات کی ورق گردانی کررہا ہے البتہ اندازبیان ایسا ہے کہ یہ ہر ایک کو نصیب نہیں۔
شاعروں کے ہاں جو اندھا دھند محبت ،جنوں اور عشق و محبت کا مضمون جس خاص پیرائے میں بیان کیا جاتا ہے،افضل خان کے ہاں ایسا نہیں ہے،معاشرے کا ایک سلجھا ہوا فرد جسے اپنے گھر،معاشرے اور اپنے ذریعہ معاش ،کی بہتر فکر ہے،کے ہاں محبت کا بیان ضرور ہے مگر پاگل پن والا معاملہ نہیں ہے۔
یوں بھی ان کی کسی بھی غزل کو اٹھا لیجئے،اگر اس میں عشق و محبت کا بیان ہے بھی تو محض شعری روائت کو نبھاتے ہوئے بڑے ہی لطیف اشارے کنائے میں اور وہ بھی بہت جچے تلے اور سلجھے ہوئے انداز میں۔مختصراً یہ کہ ان کے شعری مجموعے میں محبت کا کوئی ایسا شعر یا مصرعہ مشکل سے ہی تلاش کیا جا سکے گاجو کسی ٹین ایجر کے کام آسکتا ہو،بالفاظ دیگر میری دانست میں یہ تمام کا تمام مجموعہ پختہ اذہان اوربالغ النظر لوگوں کے لئے ہے۔
اب چلتے ہیں ان کے اشعار سے لطف اندوز ہونے کے لئے۔ کتاب کے آغاز میں حمد اور نعت رسول مقبول دی گئی ہیں،حمد کے دو اشعار دیکھئے ؛
پائے گا کون بھلا تیرے سوا راز ترا
جب کہ معلوم نہیں نقطہ ء￿ ِ آغاز ترا
تیری دنیا مجھے کافر نہیں ہونے دے گی
ذرہ ذرہ تری دنیا کا ہے غماز ترا
اور جب رسالت مآب صلعم کے حضور ہدیہ عقیدت کی باری آئی تو یوں گویا ہوئے :
یہ جو اس دل کو جنوں میں بھی سکوں ہے،یوں ہے
ذہن پر اسم محمد کا فسوں ہے ، یوں ہے
میں مدینے سے پلٹنا ہی نہیں چاہتا تھا
“تو نے پوچھا تھا نمی آنکھ میں کیوں ہے ،یوں ہے ”
غزل تو خیر وہ خاص میدان ہے جس میں افضل خان بہت آزادی کے ساتھ ،کھل کر کھیلتا ہے ،ملاحظہ فرمائیں :
مجھے رونا نہیں آواز بھی بھاری نہیں کرنی
محبت کی کہانی میں اداکاری نہیں کرنی
تحمل اے محبت ! ہجر پتھریلا علاقہ ہے
تجھے اس راستے پر تیز رفتاری نہیں کرنی
وصیت کی تھی مجھ کو قیس نے صحرا کے بارے میں
یہ میرا گھر ہے اس کی چاردیواری نہیں کرنی
افضل خان کے ہاں غزل کے بارے میں ایک عجب اپنائیت اور محبت کا جذبہ نمایاں ہے :
کہتے ہیں : غزل کو کم نگاہوں کی پہنچ سے دور کھتا ہوں
مجھے بنجر دماغوں میں شجر کاری نہیں کرنی
ایک دوسری جگہ کہتے ہیں : مری شاعری مرے ناقدین پہ کیا کھلے
مجھے باندھنے کو خیال خام نہیں ملا
غزل سے اپنی جذباتی وابستگی کا اظہار یوں کرتے ہیں : اپنی دم توڑتی سانسیں بھی غزل کو دے دوں
یونہی ممکن ہے کہ آئے مرے اشعار میں جان
ایک جگہ غزل کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے : کیا مجھ سے غزل کا پوچھتے ہو
بوڑھی تھی جوا ن ہو چکی ہے ۔
۔۔۔
ہمارے ہجر کو نہ تول وصل کی امید سے
یہ قیمتِ فروخت کم ہے قیمتِ خرید سے
ارادہء￿ غزل ہو ا تو خود بخود اتر گئے
جدید سی زمین میں خیال کچھ جدید سے
اپنے مخالفین کو یوں زچ کرتے ہیں : یار لوگوں نے بہت خود کو اچھالا اوپر
ہو سکا پھر بھی مرے قد سے نہ افضل کوئی اور
پھر یہ اعلان کرتے بھی نظر آتے ہیں : رگوں میں اب جو لہر ہے وہ خوں نہیں ہے زہر ہے
ضروری ہو چکے ہیں سانپ آستین کے لئے
مرا گواہ آ گیا ہے عین فیصلے کے وقت
برا شگون ہے مرے مخالفین کے لئے
میں انتقام لوں گا دوستوں میں پھوٹ ڈال کر
سزا تو ہونی چاہئے منافقین کے لئے
اور یہ پیغام بھی یقیناً مخالفین کے لئے ہی ہو گا : دوغلے پن کا ہنر سیکھ لیا ہے میں نے
اب مجھے شہر میں آنے کی اجازت دی جائے ۔
۔۔۔۔
ندرت خیال ملاحظہ ہو ،عام سے مضامین میں بھی اپنے اندازبیان سے کیسے جان ڈال دیتے ہیں :
اب اس لڑائی میں ممکن ہے سر چلا جائے
جسے بھی جان ہو پیاری وہ گھر چلا جائے
بضد رہا جو بغاوت پہ میرا دل تو پھر
اسے کہوں گا بدن چھوڑ کر چلا جائے
بچھڑنے والے اکھٹے نہ دل کو یاد آئیں
شکستہ پل پہ قدم توڑ کر چلا جائے ۔
۔۔۔۔۔۔
ختم ہوئی آخر بے خوابی دریا میں
ڈوب گئی ہے اک مرغابی دریا میں
میں تو کب سے اس کو آگ لگا دیتا
لیکن کچھ مخلوق ہے آبی ، دریا میں
اپنے کنارے خود ہی کاٹنے لگتا ہے
پڑ جاتی ہے روز خرابی دریا میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگ جب زعم کے جنجال میں آجاتے ہیں
اوج افلاک سے پاتال میں آجاتے ہیں
تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں
ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آجاتے ہیں
جتنے غم پالے ہیں اے دامن دنیا تو نے
اتنے غم تو مرے رومال میں آجاتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور خوبصورت غزل جس کا ہر شعر دل کو چھو لیتا ہے۔ملاحظہ ہو: مکیں سے ترسے ہوئے غار کومبارک باد
میں گھر میں ہوں درو دیوار کو مبارکباد
سزائے موت پہ فریاد سے تو بہتر ہے
گلے لگا کے کہوں دار کو مبارکباد
وگرنہ تیر کسی کا نہ چھو سکا تھا مجھے
مری طرف سے مرے یار کو مبارکباد۔
۔۔۔۔۔۔
یہ حقیقت ہے کہ محمد افضل خان نیظاہری وضع قطع، لباس اور بالوں کی تراش خراش کے ذریعے اپنے آپ کو شاعروں کے گیٹ اپ میں نہیں ڈھالا،یہی نہیں انہیں اپنے آپ کو جگہ جگہ بطور شاعر متعارف کروانے یا اپنا کلام سنانے کا شوق بھی نہیں اور مشاعروں میں بھی ایک آدھ غزل پڑھ کر سٹیج کو چھوڑ دیتے ہیں،ان کے یہ سارے رویے غیر شاعرانہ ہیں اور انہیں خود بھی اس امر کا واضح شعور ہے اسی لئے وہ کہہ اٹھے ہیں : ا اپنے حلیے سے سخن ساز نہ لگنے والے ہم یہاں دوسرے شاعر ہیں عدم پہلے تھے
ان کی یہ غزل کافی مدت تک مقامی ادبی حلقوں اور ان کے احباب میں توجہ کا مرکز بنی رہی ،دیکھئے : تبھی تو میں محبت کا حوالاتی نہیں ہوتا
یہاں اپنے سوا کوئی ملاقاتی نہیں ہوتا
گرفتار وفا ٰ ! رونے کا کوئی ایک موسم رکھ
جو نالہ روز بہہ نکلے وہ برساتی نہیں ہوتا
بچھڑنے کا ارادہ ہے تو مجھ سے مشورہ کر لو
محبت میں کوئی بھی فیصلہ ذاتی نہیں ہوتا
تمہیں دل میں جگہ دی تھی نظر سے دور کیا کرتے
جو مرکز میں ٹھہر جائے ، مضافاتی نہیں ہوتا
اور اب اس بات پر بھی مجھ سے میرے یار الجھتے ہیں
کہ میں ہر بات سن لیتا ہوں ، جذباتی نہیں ہوتا
ندرت خیال ملاحظہ ہو : کچھ تو ہے تجھ میں بات کہ تجھ کو ہر ایک شخص
پھر دیکھتا ضرور ہے اک بار دیکھ کر
وہ آنا چاہتا تھا مرے خواب میں مگر
واپس چلا گیا مجھے بیدار دیکھ کر۔
۔۔
ہمارے خون کے پیاسے پشیمانی سے مر جائیں
اگر ہم ایک دن اپنی ہی نادانی سے مر جائیں
کہیں ایسا نہ ہویا رب کہ یہ ترسے ہوئے عابد
تری جنت میں اشیا کی فراوانی سے مر جائیں
افضل خان نے زندگی کو ایک سٹیج اور لوگوں کو اس کے کرداروں کی صورت میں دیکھا ہے اور اس موضوع پر انہوں نے مختلف غزلوں میں بہت عمدہ اشعار کہے ہیں جیسے :
تجھ کو راس آئے گا مر ا پس پردہ ہونا
میرے مرنے سے پڑے گی ترے کردار میں جان
ایک اور شعر میں یوں اظہار کرتے ہیں : کہانی میں کوئی رد و بدل کر
مرا مرنا ابھی بنتا نہیں ہے۔
۔۔۔
بولنا اور ہے کچھ، صورتِ حال اور ہے کچھ
میرا کردار نہیں میری کہانی کی طرح (جاری ہے)

حصہ