کرپٹ عناصر بھاگنے نہ پائیں!

282

محمد انور
اور پھر وہ دن آہی گئے جن کا ذکر صدرِ مملکت ممنون حسین نے 14 مئی 2017ء کو کیا تھا۔ اُن کے لہجے میں بہت جرأت اور اللہ کے نظام پر یقین کی پختگی تھی۔ ملک کی تاریخ میں میرے سامنے اس قدر جرأت مند اور صاف گو کوئی صدرِ مملکت نہیں گزرا جس نے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا ہو۔ کراچی میں تاجروں کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بااثر کرپٹ عناصر کے خلاف اگر صدر مملکت نے بغیر ارادے کے یہ سب کچھ فی البدیہ کہہ دیا تھا تو پھر یقین کرنا ہوگا کہ یہ بات صدرِ محترم ممنون حسین سے اللہ نے کہلوائی تھی۔ یہ وہ جملے تھے جو دورِ حاضر میں کسی صدرِ مملکت سے سننے کی کوئی توقع نہیں تھی، مگر پھر بھی وہ بول گئے اور سب ہی کو حیران کردیا۔
صدرِ مملکت ممنون حسین نے گزشتہ سال کراچی کی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’کرپٹ لوگوں میں بھی مختلف درجات ہیں، کوئی بہت زیادہ کرپٹ ہے، کوئی درمیانہ کرپٹ ہیں، کوئی ایکسٹرا آرڈنری کرپٹ ہیں۔ جو ایکسٹرا آرڈنری کرپٹ ہیں کبھی آپ دیکھیے گا کہ منحوس چہرے ہوتے ہیں منحوس، ان کے چہرے پر نحوست ٹپک رہی ہوتی ہے، اللہ کی لعنت ان چہروں پر ہوتی ہے جس سے نظر آتا ہے کہ یہ بہت بڑا کرپٹ آدمی ہے، کبھی غور کیجیے گا اس پر، یہ جو پاناما لیکس کا معاملہ اٹھا ہے ناں، آپ دیکھ لینا یہ بھی قدرت کی طرف سے اٹھا ہے، اس کی وجہ سے نجانے کون کون سے معاملات اٹھیں گے، بہت سارے لوگ اطمینان سے بیٹھے ہوئے ہیں کہ ہم نے تو یہ کرلیا، وہ کرلیا، ہمیں کوئی نہیں پکڑ سکتا، آپ دیکھیے گا کیسے کیسے لوگ پکڑ میں آئیں گے، یہ بات میری یاد رکھیے گا، کبھی کوئی واقعہ دو ماہ بعد ہوگا، کوئی چار ماہ بعد ہوگا، کوئی چھ ماہ بعد ہوگا، کوئی ایک سال بعد ہوگا… یہ اللہ کا ایک نظام ہے۔‘‘
واقعی، ممنون حسین نے جو کہا بالکل ویسے ہی ہورہا ہے۔ نوازشریف پاناما کیس میں نہیں پھنسے مگر پاناما میں نشاندہی کی جانے والی جائداد کے چکر میں آگئے۔ اگر نوازشریف نے اپنی حق حلال کی آمدنی سے یہ پراپرٹی بنائی ہوتی تو یقینا اس کے ثبوت پیش کرکے بچ جاتے، مگر انہوں نے تو نہ صرف قومی اسمبلی کے ایوان میں ان اثاثوں کے بارے غلط بیانی کی بلکہ کسی بھی طرح اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے مزید جھوٹ بولے۔ اس مقصد کے لیے قطری خط کا بھی ذکر کردیا۔
نوازشریف نے ایک جھوٹ چھپانے کے لیے کئی جھوٹ بولے اور قومی اسمبلی کے ایوان میں تمام معزز اراکین کے سامنے جھوٹ بول کر ایوان کو بھی دھوکا دینے کی کوشش کی۔ اس طرح جس ووٹ کے ذریعے وہ اس ایوان میں پہنچے سب سے پہلے خود ہی اس ’’ووٹ کو بے عزت کیا‘‘۔ اور اب خود ہی ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگارہے ہیں۔ میاں صاحب! ووٹ کا تو آپ نے ہی مذاق بنایا تھا، اسے آپ ہی نے بے عزت کیا، بلکہ جن ووٹرز نے آپ کو ایوان میں وزیراعظم کی حیثیت سے چنا، اُن ووٹرز سے جھوٹ بول کر اُن کی اور ان کے ووٹوں کی بھی تذلیل کی۔ اللہ کا شکر ہے کہ آپ اب اللہ کے نظام کی پکڑ میں آچکے ہیں۔ ذلت کی بات تو یہ بھی ہے کہ آپ اپنی بیٹی اور داماد کے ہمراہ قانون کی سخت گرفت میں ہیں۔ مگر شاید اب بھی آپ یہاں سے بچ نکلنے کے لیے مزید جھوٹ بولنے کی تیاری کررہے ہوں گے۔
میاں صاحب! کیا آپ کو اب بھی سبق نہیں مل سکا؟
میاں نوازشریف کی کرپشن ثابت نہیں ہوئی لیکن ان اثاثوں کے اصل مالک ہیں وہ بھی تو ثابت نہیں ہوسکا۔ اب اس ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کے باہر جھگڑا کرنے کے الزام میں نوازشریف کا نواسہ اور پوتا دونوں ہی گرفتار ہوگئے۔ ان دونوں کی گرفتاری نوازشریف اور ان کی بیٹی کی گرفتاری سے پہلے ہوگئی۔
صدر ممنون حسین نے بالکل درست کہا تھا کہ کوئی واقعہ ایک سال بعد ہوگا۔ نوازشریف اور ان کا خاندان ایک سال بعد ’’باہر سے آکر اندر ہوگیا‘۔ ‘جبکہ ان کی نسل جو باہر لندن میں ہے، وہ وہیں پر ’’اندر‘‘ ہوگئی۔
دوسری طرف ملک کے سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ بھی کرپشن کے الزامات میں قانون کی گرفت میں آنے والی ہیں۔ آصف علی زرداری اپنے آپ کو احتسابی عمل سے بچانا چاہتے ہیں، اس مقصد کے لیے انہوں نے سیاسی بیان دے ڈالا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ وقت احتساب کا نہیں انتخابات کا ہے، احتساب انتخابات کے بعد کیا جائے، یا پہلے کرنا چاہیے تھا ‘‘۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین شاید یہ بات بھول چکے کہ وہ الیکشن سے بہت پہلے بلکہ 2013ء کے انتخابات کے بعد اپنے دوستوں کے خلاف کرپشن کے الزامات پر کی جانے والی چھاپہ مار کارروائی پر بھی چلاّ اٹھے تھے اور ’’اینٹ سے اینٹ بجانے‘‘ کی دھمکی دے کر خود ہی ڈر گئے تھے اور ملک سے تقریباً دو سال کے لیے چلے گئے تھے۔ اس لیے تحقیقاتی اداروں کو خدشہ ہے کہ کہیں اِس بار بھی جب خود ان کے خلاف بینک کرپشن کے الزام میں تحقیقات کی جارہی ہے، وہ ملک سے باہر نہ چلے جائیں۔ کرپشن کے الزام پر تحقیقات کرنے والی ایف آئی اے کی جے آئی ٹی نے اُن کا اور اُن کی بہن فریال تالپور کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش اسی شبہ پر کی ہے۔
الحمدللہ لوگوں کی خواہشات کے مطابق سیاست کی آڑ میں کرپشن کرنے والے چیمپئنوں سمیت تمام ہی بدعنوانوں کے خلاف عدلیہ اور قومی احتساب بیورو فعال ہے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ کرپشن کے حوالے سے مشکوک افراد کا نام بھی بلا رعایت ای سی ایل میں ڈال دیا جائے۔ ورنہ کرپٹ عناصر چالاکی سے کسی وقت بھی ملک سے فرار ہوسکتے ہیں۔

چور کی داڑھی میں تنکا

چیف جسٹس ثاقب نثار نے جمعرات کو منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس میں کہا ہے کہ عدالت نے آصف زرداری اور فریال تالپور کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی یہ دونوں ملزم ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہر شخص کا اپنا وقار اور حرمت ہے، کسی کی تضحیک نہیں ہونے دیں گے، ایسا حکم نہیں دیں گے جس سے کسی کا حق متاثر ہو، آصف زرداری اور فریال تالپور کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا ہم نے نہیں کہا، پھر ان کا نام ای سی ایل میں کیوں ڈالا؟ آصف زرداری اور فریال تالپور ملزم نہیں، عدالت نے صرف ملزمان کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا کہا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ کیا ہم نے آصف زرداری کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا، اعتزاز احسن نے پریس بریفنگ کی، عدالت نے پیرا گراف نمبر 4 کے ملزمان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا، پیرا گراف 4 میں صرف ملزمان کے نام ہیں، اگر عدالتی حکم میں ابہام تھا تو عدالت سے رجوع کر لیتے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ تحقیق کرنا چاہتے ہیں کہ 35 ارب کے بوگس بنک اکاؤنٹ کیوں کھولے گئے، زرداری گروپ کے اکاؤنٹ میں ڈیڑھ کروڑ کس نے ڈالا، اگر ڈیڑھ کروڑ رقم کے ذرائع قانونی ہیں تو بتا دیں، ہمارا مقصد یہ ہے کہ ایف آئی اے صاف شفاف تحقیقات کرے، اس کے علاوہ ہمارا کوئی مقصد نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آصف زرداری کو نہ ذاتی حیثیت میں طلب کیا نہ ہی ان کا نام ای سی ایل میں ڈالا، عدالت نے ایف آئی اے کو الیکشن تک آصف زرداری اور فریال تالپور کو شامل تفتیش کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ کیس سے متعلق نیا وضاحتی حکم جاری کریں گے۔ عدالت نے کیس کی سماعت 6 اگست تک ملتوی کردی۔چیف جسٹس کے ان ریمارکس کے بعد قوم پریشان ہے کہ آخر یہ غلط خبر کیوں باہر آئی اس پر آصف زرداری سمیت پیپلز پارٹی کے لوگوں نے کیوں ردعمل دیا۔ ایف آئی اے نے آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالیور کو طلب کرنے کا نوٹس کیوں جاری کیا ؟ کیا پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن سمیت سب ہی عدالت کے حکم میں ابہام کا شکار تھے ؟ یا پھر معاملہ ’’چور کی داڑھی میں تنکا‘‘ کا تھا ؟ یادرہے کہ عدالت کے طلبی کے حکم کے بعد پیپلز پارٹی کا اعلی سطحی اجلاس آصف زرداری کی صدارت میں ہوا تھا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور نہ عدالت میں پیش ہوں گے نہ ایف آئی اے کی جے آئی ٹی کے روبرو۔

حصہ