احتساب سب کا

489

سید اقبال چشتی
الیکشن کی گہما گہمی جاری ہے اور عوام اپنے آئندہ کے نمائندے چننے کے لیے سوچ بچار کر رہے ہیں کہ کس کو اقتدار کی مسند پر بٹھایا جائے ملکی دولت کو لوٹنے والوں کو مسترد کیا جائے یا منتخب ابھی قوم اس بارے میں سوچ ہی رہی تھی کہ احتساب اپنے ووٹ سے کرکے کرپٹ عناصر کو ان کی حیثیت بتلائی جائے مگر دوسری طرف احتساب کے نام پر سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ایوان فیلڈ ریفرنس کیس میں سزا سنائی گئی اس سزا پر وہی ردعمل سامنے آیا جس کا اندازہ تھا کہ سزا اس جرم پر دی گئی جو ثابت ہی نہ ہو سکا اس لیے قانونی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ کچھ نہیں ہو گا کیوں کچھ نہیں ہو گا کرپشن کرنے پر سزا پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوگا اس کا اندازہ پاناما کیس کے باقی لوگوں کے ساتھ نرم رویہ اور کچھوے کی رفتار کے ساتھ مقدمے کو آگے بڑھانا ہے 436 میں سے صرف ایک فرد اور اس کے خاندان کو مجرم ثابت کرنا اور دوسروں سے صرف نظر کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کچھ نہیں ہوگا کیو نکہ جب تک اس ملک پر حکمرانی کرنے والے بیوروکریٹس سے لے کر جج اور سیاستدانوں کے ساتھ فوجی جنرلز تک کا احتساب نہیں ہوتا اس وقت تک پاکستان کرپشن کی دلدل سے نہیں نکل سکتا۔
کرپٹ سیاسی قیادت کا خاتمہ عوام کے احتساب سے ہی ممکن ہے محترم قاضی حسین احمد مرحوم کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے کہا کرتے تھے کہ احتساب کا عمل قیام پاکستان سے نہیں تو کم از کم 1985 سے ہی کیا جائے مگر احتساب کا یہ خوشنما نعرہ ہر دور حکومت میں گونجتا رہا مگر احتساب کا عمل ’’اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں اپنوں کو‘‘ کی مثال کی طرح ہی رہا جس کی وجہ سے احتساب کا عمل وردی اور شیروانی والوں کے دور حکومت میں ایک مذاق بن گیا گزشتہ دس سالوں میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے پانچ سال پورے کئے لیکن ملک ترقی کرنے کے بجائے معاشی اور سیاسی لحاظ سے بہت پیچھے چلے گیا حکومتی ادارے بد عنوانی اور کرپشن کی مثال بن گئے عوام بنیادی ضرویات زندگی روٹی ، پانی اور بجلی سے بھی محروم کر دیے گئے ان حالات میں ملک کی قیادت کو جس بالغ نظری اور جس قومی یکجہتی کے ساتھ ملک وقوم کی خدمت کرنی چاہیے تھی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس کا دور دور تک کہیں نشان نہیں ملتا بلکہ اقربا پروری اور زیادہ سے زیادہ مال جمع کر نے کی حرص نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا اس ملک کی تباہی میں سیاست دانوں کے ساتھ فوج ، پولیس اور حکومت کے ہر ادارے نے ملکی دولت کو مال مفت دل بے رحم سمجھ کر خوب لو ٹا اور کرپشن کی بہتی گنگا میں سب نے ہاتھ دھوئے اس لیے اب کہا جارہا ہے کہ جب تک سب کا احتساب نہیں ہو گا کسی ایک کو سزا دینے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا
احتساب عدالت کے جج جسٹس محمد بشیر ہی رائل پام گلف کلب بد عنوانی پر دائر کیس کی سماعت کر رہے ہیں احتساب عدالت نے ریلوے اراضی کیس میں ملوث پاک فوج کے سابق اعلیٰ افسران سمیت دیگر کے خلاف مقدمہ چلانے اور ان نامزد افراد کو ملک واپس لانے کے لیے اقدامات کے لیے کہا تھا لیکن آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل جاوید اشرف قاضی ریلوے بورڈ کے سابق چیئر مین لیفٹنٹ جنرل ریٹائرڈ سعیدالزمان اور دیگر افراد نے رپورٹ کے مطابق 141 ایکڑ زمین معمولی قیمت پر الاٹ کی جس سے قومی خزانے کو 4 ارب 82 کروڑ کا نقصان پہنچا نے والوں کے وارنٹ گرفتاری جاری نہیں ہوئے جبکہ جسٹس دوست محمد کا کہنا ہے کہ جر نیلوں اور ججز سمیت سب کا احتساب ہو نا چاہئے مگر یہ احتساب کون کرے گا سب کو معلوم ہے کہ کس کی کیا ذرائع آمدنی ہے مگر آمدنی سے بڑھ کر جائدادیں رکھنے والوں کے گریبانوں پر ہاتھ کون ڈالے صرف ایک پولیس آفیسر جو آئی جی بھی نہیں رائو انوار جن کے خلاف آمدنی سے بڑھ کر جائداد بنانے اور بے گنالوگوں کو پولیس مقابلے میں قتل کرنے کے شواہد موجود ہونے کے بعد ضمانت مل جانا قانون اندھا ہوتا ہے کا پتہ چلتا ہے جو فرد ایک ماہ سے بھی زیادہ روپوش رہا اور جس نے گرفتاری نہیں دی مگر نواز شریف کے داماد صفدر دو دن روپوش رہے تو آڈر آگئے کہ سہولت کاروں اور ان کی گرفتاری میں رکاوٹ بنے والوں کے خلاف بھی مقدمے قائم کیے جائیں گے مگر رائو انوار کے سہولت کار اس جرم سے استثنا رکھتے ہیں اس لیے سیاسی قیادت کے خلاف سزا کو مذاق کے طور کہا جا رہا ہے کہ ایک فرد کو سزا دے کر مٹھائی کی دکان پر نانا جی فاتحہ والا معاملہ ہے دو نظریات کے ساتھ احتساب کا عمل کبھی آگے نہیں بڑھ سکتابلکہ کرپشن کے خلاف بلا تفریق مقدمات کو آگے بڑھانے اور سزا دے کر ملکی دولت کو واپس لا نے کا عمل تیز ہو نا چاہیے۔
کرپشن نا صرف ایک ناسور ہے بلکہ پورے معاشرے کو یہ ناسور دیمک کی طرح اندر ہی اندر چاٹ رہا ہے آج عوام حکمرانوں کی کرپشن پر آواز نہیں اُٹھا رہی اور اپنے ووٹ کے ذریعے ان کا احتساب کر نے کا کو ئی ارادہ نہیں رکھتے اس لیے کہ ایک عام آدمی سے لے کر اعلیٰ عہدے پر فائز سرکاری افسر بھی کرپشن میں ملوث ہے اور کرپشن کو حکومتی سپورٹ حاصل ہو نے کی وجہ سے آج کرپشن اپنی مختلف شکلوں میں پاکستانی معاشرے میںموجود ہے مالی کرپشن کے ساتھ اب نظریاتی کرپشن بھی ہو رہی ہے قانونی کرپشن کا بازار بھی گرم ہے اخلاقی اور میڈیائی کرپشن بھی اپنے عروج پر ہے جس میں دوسرے کا لیڈر چور اور اپنا لیڈر زندہ باد ہے یہی وجہ ہے کہ جو ادارے کرپشن کے خاتمے کے لیے بنائے گئے وہ آج تک کرپشن کے خاتمے کے بجائے پلی بارگین کے قانون متعارف کرا کر اس بات کی اجازت دے رہے ہیں کہ لوٹ مار کرو اور کچھ حصہ حکومتی خزانے میں جمع کرائو اور دودھ کے دھلے بن جانے کی سند لے جائو یعنی جرم بھی حکومتی سرپرستی بھی کیا اس طرح کرپشن میں اضافہ ہو گا یا کمی اس کی کئی مثالیں گزشتہ ادوار میں ہمیں ملتی ہیں ایڈمرل ریٹائرڈ منصور الحق اگوسٹا سب میرین کرپشن کیس جنرل رضوان اختر کا استعفیٰ اورسیاسی اُفق پر ڈاکٹر عاصم جن کے خلاف نیب نے تحقیقات کیں تو پتہ چلا کہ اربوں کی کرپشن ان صاحب نے کی لیکن موصوف اب بھی بڑے مزے سے گھوم رہے ہیں کہا جا تا ہے کہ موصوف زردای کے خاص آدمی ہیں اس لیے کچھ نہیں ہو گا مگر اب کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف کے بعد آصف علی زرداری کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے جو یہ باتیں لکھ اور کہہ رہے ہیں کیا انہیں معلوم نہیں کہ اس سے قبل سرے محل کے حوالے سے بھی خبریں چلیں تھیں اور بے نظیر بھٹو نے اسمبلی کے فلور پر یہ کہا تھا کہ سرے محل سے میرا اور میرے شوہر کا کو ئی تعلق نہیں ہے مگر بعد میں جنرل مشرف کے دور حکومت میں مشرف اور مسٹر زرداری میں کیا بات ہو ئی کہ آصف علی زرداری نے بر طانوی انتظامیہ کو تحریری حلف نا مہ پیش کیا کہ یہ محل ان کا ہے الطاف حسین کے لیے کی جانے والی کروڑوں ڈالر کی منی لانڈرنگ اور ایم کیو ایم کی قیادت کے بارے میں ہو نے والے انکشافات بابر غوری کی اربوں روپے کی لوٹ مار چائنا کٹنگ ، بھتے کے لیے معصوم انسانوں کو بلدیہ فیکٹری میں زندہ جلا دینا جنرل مشرف کا ظالموں کو تحفظ فراہم کرنا اور یہی جنرل صاحب سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر سب سے پہلے اپنی جان بچا کر ملک لوٹ کر فرار ہو گئے کیا یہ سب کرپشن نہیں ہے کیا اب تک ملک اور قوم کو اربوں روپے کا چونا لگانے والے کسی بھی مجرم کے خلاف کو ئی فیصلہ آیا ہے پولیس افسران پر معزز عدلیہ کے جج بر ہمی کا اظہار کرتے ہیں کہ فاروق ستار، عامر خان، جنرل مشرف کے وارنٹ گرفتاری جاری ہیں کیوں ان کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیااس سے اندازہ ہو تا ہے کہ سب اپنے حصے کا کام کر رہے ہیں مگر ہو گا کچھ نہیں کیونکہ پورا نظام ہی کرپٹ ہو چکا ہے اس لیے جس نے بھی یہ بات کہی ہے کہ نواز شریف پر کیس ختم ہو گیا تو یہ سب فراڈ ہو گا ۔
عوام کے سامنے پاکستان کا مستقبل ہے اگر عوام اسی طرح کرپٹ ٹولے کے پیچھے چلتے رہے جنھوں نے ملکی دولت کو لوٹ کر کھایا ہے اور بیرون ملک اثاثے بنائے اور عوام کو محرومیوں کے تحفے دیے ہیں تو پھر وہی چہرے اور لوگ اسمبلی میں آگئے تو بچا کچا پا کستان بھی یہ لوگ لوٹ کر کھا جائیں گے اس لیے احتساب کا عمل کسی ایک فرد کے خلاف نہیں بلکہ ہر اُس فرد کے خلاف ہو نا چاہئے جو کرپشن میں ملوث ہو چاہے وہ سیاست دان ہوں، جنرل ہوں جج ہوں یا ایک عام آدمی سب کے خلاف بلا امتیاز عہدہ اور شخصیت دیکھے بغیر احتساب ہو گا تو ملک ترقی کرے گا اور اس ملک کی بقاء کرپشن سے پاک قیادت اور کرپشن فری پاکستان میں ہی چھپی ہو ئی ہے ۔

حصہ