ہمارے امیدوار کیسے ہوتے ہیں

274

نون۔ الف
جولائی جیسے جیسے نزدیک آرہا ہے ویسے ویسے ملک بھر میں انتخابی گہماگہمی بڑھتی جارہی ہے۔ انتخاب کا اصل مزا تو صوبہ پنجاب میں ہے ، جہاں الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی خوب جگ ہنسائی ہورہی ہے۔ امیدواروں نے اے ٹی ایم مشینوں کے منہ کھول دیے ہیں۔
کروڑوں روپے تشہیر کے نام پر اور سیاسی رشوت کے طور پر تقسیم کیے جارہے ہیں۔ سننے میں آرہا ہے کہ تحریک انصاف اور نون لیگ کی جانب سے پانچ شناختی کارڈ رکھواکر ایک موٹر سائیکل فراہم کی جارہی ہے۔
اس لحاظ سے اگر کیلکولیشن کی جائے تو پچاس ہزار ووٹ حاصل کرنے کے لیے صرف چالیس کروڑ روپے کی انویسمنٹ درکار ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ممبر منتخب ہوجانے کے بعد کسی بھی میگا پروجیکٹ کے بہانے چالیس کروڑ روپے پہلے ایک طرف رکھ دیے جائیں گے۔ اس کے بعد جتنا بھی ترقیاتی کام ہوگا اس کا ” کٹ ” یعنی نرا منافع بن کر جیب میں آتا جائے گا اور یہ کام پورے چار سال اسی طرح جاری رہے گا۔ اندرون پنجاب میں دیہاتوں میں امیدوار ہر گھر میں روزانہ کی بنیاد پر بریانی پہنچا کر غریب ووٹر کی دعائیں لے رہے ہیں۔
انتخابی کھلاڑیوں اور جماعت اسلامی کے امیدواروں میں ایک وا ضع فرق رہا ہے۔ جماعت اسلامی نے انفرادی حیثیت یا اتحادی سیاست، دونوں میں ہی اپنے اس بنیادی معیار پر کبھی کوئی کمپرومائز نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اور مجلس عمل کے جو بھی امیدوار میدان میں اترے ہیں ان کے بارے میں کوئی ایک فرد بھی نہیں کہہ سکتا کہ ان کا نام پانامہ لیکس میں یا کسی اور مالی و اخلاقی اسکینڈل میں ہے۔
یہاں تک کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تک نے نواز شریف کے مقدمے میں امیر جماعت اسلامی جو اس مقدمے میں ایک فریق ہیں کے بارے میں تاریخی جملہ کہا ” اگر امین و صادق کی شرط والی بات کی جائے تو پوری پارلیمنٹ میں صرف ایک ہی فرد باقی بچے گا اور وہ سراج الحق ہوگا “۔
سابق چیف جسٹس کے یہ ریمارکس در حقیقت جماعت اسلامی کی پوری تاریخ اور امیدواروں کے کردار کی عکاسی کرتا ہے۔
آج کی نہیں بلکہ ملکی تاریخ کے پہلے انتخابات سے لے کر آج تک جما عت اسلامی نے ہمیشہ اپنے بہترین افراد نمائندگی کے لیے میدان میں اتارے۔
ان میں سب کے نام پاکستان کی آئینی تاریخ کا روشن باب ہیں۔
خدا ترس، مڈل کلاس اور اخلاقی اعتبار سے قبل تقلید رہنما کو ہی یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اسلامی ریاست کے اندر عوام کی نمائندگی کرے۔
1970ء کے ملکی انتخابات میں پورے پنجاب سے صرف ڈیرہ غازی خان ایک ایسا ضلع تھا، جہاں سے جماعت نے ایک قومی اور ایک صوبائی اسمبلی کی نشست جیتی تھی۔ اور یہ امیدوار تھے جناب ڈاکٹر نذیر احمد شہید، جنھیں پیپلز پارٹی کے غنڈوں نے جون 1972ء کو ڈیرہ غازی خان میں شہید کردیا تھا۔
ڈاکٹر نذیر کون تھے؟ یہ بات ڈیرہ غازی خان کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ 1945ء میں ایف اے کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر سنٹرل ہومیو پیتھک کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ انہی دنوں مولانا مودودی کی دعوت سے متعارف ہوئے اور اپنی تمام صلاحیتوں کو جماعت اسلامی کے لیے وقف کردیا۔ 1946ء میں صوبہ بہار کے امدادی کیمپوں میں خدمات انجام دیں۔ بعد ازاں سید مودودی کی ہدایت پر ڈیرہ غازی خان کو مرکز دعوت و تبلیغ بنایا اور کسب معاش کے لیے ہومیو پیتھک پریکٹس شروع کی۔ مرحوم انتہائی بے باک،مخلص اور جری انسان تھے۔ شخصی خوبیوں اور عظمت کردار کے باعث عوام میں اس قدر مقبول تھے کہ 1970ء میں جاگیرداروں اور سرداروں کے مضبوط گروپ کو شکست دے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔
ڈاکٹر نذیر احمد شہید واقعی عوامی لیڈر تھے، بالعموم کھدر کا لباس پہنتے اور کاندھے پر کھدر کی چادر رکھتے تھے۔ ان کے وجود سے نکلتا ہوا نور، بولتی ہوئی آنکھیں، چہرے پر خوب صورت داڑھی، گفتگو کرتے تو مخاطب کو مسحور کردیتے۔ وہ ہومیوپیتھی ڈاکٹر تھے، ڈیرہ غازی خان میں ان کے کلینک پر مریضوں کا ہجوم رہتا تھا کیوں کہ ان میں سے بیش تر کا وہ مفت علاج کرتے تھے۔
محمود اعظم فاروقی:
ہجرت کرکے کراچی آنے والے، کراچی سے 1962ء میں مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور اپنی ذہانت، حاضر جوابی اور محنت سے بہت جلد پورے ملک میں شہرت حاصل کر لی۔
وہ کراچی یونی ورسٹی میں سینیٹ کے منتخب رکن رہے اور کراچی میونسپل کارپوریشن میں 1958ء میں پہلی مرتبہ کونسلر منتخب ہوئے۔ بی ڈی سسٹم کے تحت منعقد ہونے والے اسمبلیوں کے انتخابات میں فاروقی صاحب کراچی سے مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اسمبلی میں وہ سات سال تک رہے اور اپنی خطابت و ذہانت کا لوہا منوایا۔ 1970کے عام انتخابات میں وہ کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن چنے گئے اور بھٹو کی آمریت میں جرأت کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرتے رہے۔ 1977 کے جنرل الیکشن میں بھی وہ کراچی سے بھاری اکثریت سے ایم این اے منتخب ہو گئے تھے مگر بھٹو کی انتخابی دھاندلیوں کی وجہ سے قومی اتحاد نے انتخابات کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرکے عوامی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا۔
عبدالستار افغانی
مڈل کلاس کی بات کی جائے اور امانت داروں کا ذکر ہو یا کراچی کے خیرخواہوں کی بات کی جائے تو زبان پر جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی کانام آجاتا ہے کراچی نے سب سے پہلے عبدالستار افغانی کی شکل میں متوسط ہی نہیں بلکہ ایک غریب قیادت کو کراچی کا میئر بنایا۔ اس سے قبل افغانی صاحب خان بوٹ ہاؤس میں کام کرتے تھے یہ جوتوں کی دکان لائٹ ہاؤس پر ان کے بہنوئی کی تھی افغانی صاحب اس میں مینیجر بھی تھے اور اس کے ورکر بھی تھے۔ ساٹھ گز کے فلیٹ میں زندگی گزارنے والے مئیر کراچی کا جنازہ بھی ساٹھ گز کے اسی فلیٹ سے اٹھایا گیا جہاں انہوں نے زندگی گزاری تھی۔ ایک روپے کی کرپشن کا داغ ان کے اوپر نہیں تھا۔ یہی معاملہ سابق ناظم کراچی جناب نعمت اللہ خان کا اور ان کی ٹیم کا رہا۔
آج بھی جماعت اسلامی نے حقیقی معنوں میں اپنے بہترین لوگ عوام کے سامنے پیش کیے ہیں جو نہ صرف اعلی تعلیم یافتہ ہیں بلکہ اخلاقی اعتبار سے بھی کراچی کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ محمد حسین محنتی صاحب کراچی کے حلقہ 247 قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں، اکاؤنٹینٹ اور اعلی تعلیم یافتہ ، سابق ممبر قومی اسمبلی، حافظ نعیم الرحمان ، امیر جماعت اسلامی، پیشے کے اعتبار سے انجینئر اور حلقہ 250 قومی اسمبلی، کراچی کے حقوق کی جدوجہد علامت، اور عوام کا دکھ رکھنے والے حافظ نعیم الرحمن کی تعریف مخالفین بھی کرتے ہیں۔ 243 قومی اسمبلی سے ڈاکٹر اسامہ رضی، پی ایچ ڈی ڈاکٹرہیں۔ جامعہ کراچی کے سابق طالب علم رہنما، مڈل کلاس علاقے کی ہر دل عزیز شخصیت ہیں۔ 244 قومی اسمبلی کے امیدوار جناب زاہد سعید معروف نیک نام کاروباری شخصیت، محنتی اور مخلص ترین اس سے پہلے بھی بلدیہ میں علاقے کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ 245 قومی اسمبلی کی نشست سے جناب سیف الدین ایڈو کیٹ، ماہر قانون، جماعت اسلامی کے شعبہ بلدیاتی و شہری امور کے سربراہ۔ صدر پبلک ایڈ کراچی۔ جنھوں نے پانی، بجلی اور شنا ختی کارڈز کی جدوجہد کو بام عروج تک پہنچانے میں دن رات ایک کردیے۔ سابق ناظم جامعہ کراچی اسلامی جمعیت طلبہ، ڈاکٹر معراج الہدی صدیقی، پیتھالوجسٹ۔ اسد اللہ بھٹو صاحب قومی اسمبلی حلقہ 242 ان کے علاوہ بھی تمام قومی و صوبائی اسمبلی کے نمائندگان وہ ہیں جو مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں ان تمام افراد پر کرپشن کاکوئی داغ نہیں ہے، جن کے اخلاق و کردار کا گواہ ایک زمانہ ہے۔ یہ وہ افراد ہیں جن کا مقابلہ نامی گرامی چوروں، بھتہ مافیا، ڈرامہ باز نوسر بازوں سے ہے۔ اب مجلس عمل نے اپنے بہترین امیدوار آپ کے سامنے رکھے ہیں۔ ہمارا کا م ہے کہ عوام کو اس جانب راغب کرنے کی کوشش و سعی کریں۔
اس کے ساتھ ہی دیکھتے ہیں کراچی کی سیاسی صورت حال میںجو ان دنوں کچھ تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ اور پا ک سرزمین پارٹی نے بھی اپنے بکھرے ہوئے ” کنفیوز’ ووٹرز کو سمیٹنے کا کام شروع کردیا ہے۔ جس کے لیے “جاگ مہاجر جاگ” جیسے لسانی ترانوں کی دھن پر موبائل پبلسٹی کی جارہی ہے۔
کراچی انتظامیہ کی غیر معمولی جانب داری نے کراچی انتخابی عمل کو ابھی سے مشکوک بنا دیا ہے۔ سابق مئیر کراچی مصطفیٰ کمال کی پارٹی پاک سرزمین اور متحدہ کی فاروق ستا ر اینڈ کمپنی، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی جکڑ بندیوں سے آزاد ہوکر اپنی اپنی مہم چلا رہے ہیں۔ ان کے جہازی سائز کے بینرز تو شہر میں آویزاں ہیں مگر مجلس عمل کے بینرز کو پولیس اور انتظامیہ کی مدد سے گلیوں تک سے اتا را اور پھاڑا جارہا ہے۔ اس ضمن میں مجلس عمل کے نمائندوں نے بارہا انتظامیہ کی توجہ بھی مبذول کروائی، مگر تا حال کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
آج ملک بھر میں سیاسی حوالے سے بہ یک وقت کی اشوز کارفرما ہیں۔ ان میں سب سے بڑا اشو میاں نواز شریف کی وطن واپسی اور لاہور کی ناکا بندی بھی شامل ہے اس کے ساتھ ساتھ خیبر پختون خواہ میں لگاتار دو بم دھماکے جن میں اے این پی کے امیدوار کئی افراد کے ساتھ جاں بحق ہوگئے جبکہ آج ہی مجلس عمل کے ا میدوار اور سابق وزیر اعلی خیبر پختون خواہ کے قافلے پر بم دھماکا بھی اہم ہے۔ عمران خان کے گھریلو اسکینڈلز کی بابت ریحام کی کتاب بھی انٹر نیٹ پر دستیاب ہوچکی ہے۔ اچانک منظر نامے کی اس تبدیلی کے باوجود انتخابی عمل کے ساتھ جاری ہے۔ امید ہے کہ اسی طرح چلتا رہے گا۔
کراچی میں متحدہ مجلس عمل آج ایک بہت بڑا جلسہ ہے جس میں مجلس عمل کے مرکزی قائد جناب مولانا فضل الرحمن، سراج الحق سمیت دیگر مرکزی قائدین خطا ب کریں گے۔ آج کا یہ جلسہ کراچی میں مجلس عمل کی انتخابی مہم میں جان ڈال سکتا ہے۔
ہمارے پاس امیدواروں کے جائزے اور انتخابی مہم کے تجزیے کے لیے اب اس اتوار کے بعد صرف ایک اتوار باقی بچا ہے جس میں کوشش کریں گے کہ مکمل تجزیہ آپ کے سامنے پیش کریں جب تک کے لیے اجازت دیں۔

حصہ