اولاد کی تعلیم و تربیت میں سختی کس حد تک جائز ہے

2877

افروز عنایت
میری ایک دوست (کولیگ) نے بتایا کہ میں کسی کام سے گھر سے باہر نکلی، واپسی میں اپنی گلی کے نکڑ پر لوگوں کا ہجوم دیکھا اور ایک بچے کے رونے چلاّنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ معلوم ہوا کہ بچہ گھر سے نکل کر کھیل کود میں اتنا مگن ہوگیا کہ نماز نہ پڑھ سکا۔ باپ کو پتا چلا تو بیچ چوراہے میں اس کی وہ ٹھکائی کی کہ بچہ درد اور تکلیف سے چلاّنے لگا۔ اس بچے کی آنکھوں میں عجیب جھنجھلاہٹ تھی اور غصہ بھی تھا۔ بچے کی حالت دیکھ کر مجھے افسوس کے ساتھ خوف بھی آرہا تھا کہ وہ دس بارہ سال کا لڑکا باپ سے ہاتھ چھڑا کر کہیں بھاگ نہ جائے۔
یہ واقعہ سن کر مجھے بھی افسوس ہوا کہ والدِ محترم کو اس قدر تشدد سے گریز کرنا چاہیے۔ دینِ اسلام نے زندگی کے تمام معاملات حل کرنے، تعلقات استوار کرنے، بلکہ دین کے معاملے میں بھی اعتدال کا راستہ دکھایا ہے۔
حضرت معاذؓ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس باتوں کی وصیت کی: (1) ’’اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، گو تُو قتل کردیا جائے یا جلا دیا جائے۔ (2) والدین کی نافرمانی نہ کرنا، گو وہ تجھے حکم کریں کہ بیوی کو چھوڑ دے یا سارا مال خرچ کردے۔ (3) فرض نماز جان کر نہ چھوڑنا، جو شخص فرض نماز چھوڑ دیتا ہے اللہ اس سے بری الذمہ ہے۔ (4) شراب نہ پینا کہ یہ ہر برائی اور فحش کی جڑ ہے۔ (5) اللہ کی نافرمانی نہ کرنا کہ اس سے اللہ کا غضب و قہر نازل ہوتا ہے۔ (6) لڑائی میں نہ بھاگنا، چاہے سب ساتھی مرجائیں۔ (7) اگر کسی جگہ وبا پھیل جائے (جیسے طاعون وغیرہ) تو وہاں سے نہ بھاگنا۔ (8) اپنے گھروالوں پر خرچ کرنا۔ (9) ’’تنبیہ کے واسطے ان پر سے لکڑی نہ ہٹانا‘‘۔ (10) اللہ تعالیٰ سے ان کو ڈرانا۔‘‘
تنبیہ کے واسطے لکڑی نہ ہٹانے کا مطلب ہے کہ ان سے بے فکر نہ ہوجائو کہ وہ کچھ بھی کرتے پھریں۔ بلکہ ان کو حدودِ شرعیہ کے ماتحت کبھی کبھی مارتے رہنا چاہیے اگر بات کرنے سے سمجھ میں نہ آئے۔ یعنی پہلا طریقہ پیار و محبت کا ہے، پھر سختی کی جائے، اگر ضرورت پڑے تو کبھی کبھار مارنا بھی ضروری اور جائز ہے… والدین کا بچوں کی تربیت سے لا پروا ہونا سخت نقصان دہ ہے۔ دینِ اسلام کے طریقے کے مطابق اعتدال میں رہ کر بچے پر تھوڑی بہت سختی لازمی ہے۔ نہ کرنے کی صورت میں آگے چل کر اس کے برے نتائج سامنے آتے ہیں جو تباہی و ذلت کا موجب بنتے ہیں۔ مجھے اپنے بھائی کا واقعہ آج بھی یاد ہے بلکہ وہ اس واقعے کو بارہا اپنے بچوں سے شیئر کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے والدین نے ہماری کس طرح تربیت کی جس کے اچھے نتائج آج سب کے سامنے ہیں۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ پڑوس کے کچھ لڑکے بھائی کے دوست بن گئے۔ دو تین مرتبہ بھائی رات کا کھانا کھا کر اُن کے ساتھ گپ شپ کرنے کے لیے گھر سے باہر چلے گئے۔ والدِ محترم بہت بردباد اور نرم لب و لہجے کے مالک تھے، البتہ ضرورت کے وقت ہم بہن بھائیوں پر ذرا سختی کرتے۔ بھائی کا اس طرح رات کو دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا انہیں پسند نہ آیا۔ بابا کا کہنا تھا کہ اسی طرح جوان لڑکوں میں برائی اور بے حیائی پھیلتی ہے۔ لہٰذا بابا نے انہیں اس بات سے منع فرمایا، لیکن اگلے دن بھی بھائی دوستوں کے پاس چلے گئے (حالانکہ وہ اپنی گلی میں ہی ان لڑکوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے)۔ جیسے ہی بھائی گھر واپس آئے، بابا نے انہیں ایک چھڑی ماری اور ذرا سخت لہجے میں کہا ’’آئندہ ایسا نہ کرنا‘‘۔ بھائی سمجھ گئے کہ میری یہ حرکت بہت بری اور خراب ہے اسی لیے بابا نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا، کیونکہ بابا بچوں پر ہاتھ اٹھانے سے گریز فرماتے تھے۔ اس ہلکی سی مار سے بھائی نے دوبارہ رات گئے گھر سے باہر دوستوں میں گزارنے سے توبہ کرلی۔ بھائی آج فخر سے کہتے ہیں کہ میرے والد کا یہ رویہ میری اصلاح کے لیے ضروری تھا اور اس کا اثر میری تمام آئندہ زندگی میں پایا جاتا ہے۔ دینِ اسلام ہمیں اولاد کی تعلیم و تربیت کی تلقین فرماتا ہے۔ بچوں کی اصلاح کے لیے ان کو دینی فرائض کی ادائیگی اور حقوق العباد سے وابستگی کا دھیان دلانا والدین کا فرض ہے، لیکن بے جا سختی، مارکٹائی سے بچہ مائل ہونے کے بجائے باغی ہوسکتا ہے۔ ہمارا مثبت رویہ بچوں کو ہر کام کی طرف مائل کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ ہاں ’’اگر گھی سیدھی انگلیوں سے نہ نکلے تو انگلیاں ٹیڑھی کرنی پڑتی ہیں‘‘۔ اب ایسا بھی نہ ہو کہ پورا ہاتھ ہی گھی میں ڈبو دیں… گھی بھی خراب اور ہاتھ بھی خراب۔ استاذہ فرحت ہاشمی کا یہ جملہ میرے لیے بچوں کی تربیت میں رہنما ثابت ہوا کہ بچوں سے یہ نہ کہو کہ ’’جائو نماز پڑھو‘‘، بلکہ کہو ’’آئو نماز کا وقت ہوگیا ہے، ہم نماز پڑھیں‘‘۔
اکثر والدین بچوں پر دنیاوی فرائض اور امور کے سلسلے میں تو بے جا سختی کرتے ہیں، جبکہ دینی امور کے سلسلے میں غفلت برتتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ وقت آنے پر خود ہی عمل پیرا ہوجائیں گے۔ یہ غلط روش ہے۔ اسکول کے لیے تو صبح چھ بجے مار پیٹ تک کرکے بچوں کو جگایا جاتا ہے، جبکہ فجر کی نماز کے لیے والدین اٹھانے سے بے فکر رہتے ہیں۔ اللہ کے احکامات کی طرف بچوں کو شروع سے مائل کرنا ضروری امر ہے، اور خود بھی اس پر عمل کرنا والدین کے لیے ضروری ہے۔
اپنے والدِ محترم کو ہم نے حقوق العباد کی ادائی میں ہمیشہ سرگرم دیکھا، جس کی وہ ہمیں بھی تلقین کرتے تھے۔ آج یہ خوبی ہم بہن بھائیوں میں نمایاں ہے۔ کسی بھی دینی فریضے کی ادائی کے بعد بچوں کے سامنے اس کا اظہار کریں کہ الحمدللہ ہم نے یہ فریضہ بخوبی انجام دیا اور اللہ کی مدد سے ہم اس پر پورے اترے۔ میں بچپن سے بچوں سے رزقِ حلال کی خوبیوں پر تبصرہ کرتی رہتی تھی کہ دیکھیں ہم اس رزقِِ حلال میں کس طرح اپنی جائز ضرورتوں کو پورا کرنے کے اہل ہیں اور اللہ نے کس طرح برکت دی ہے جس کا اجر ہمیں آخرت میں بھی ملے گا، اس رزقِ حلال میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے اللہ چاروں طرف سے دروازے کھولتا ہے۔ میرے بچے ماشاء اللہ آج جوان ہیں، اپنے پیروں پر کھڑے ہیں، وہ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہمارے والدین نے ہمیں رزقِ حلال سے پالا ہے اور ہمیں جو نعمتیں آج حاصل ہیں وہ سب اسی کی بدولت حاصل ہیں۔
ان بچوں کی نظر میں رزقِ حلال کی بڑی اہمیت ہے، اور ان کا ہاتھ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے رکتا نہیں (سبحان اللہ)۔ یہ چیز، یہ سوچ ان میں میری مثبت ترتیب اور رویّے سے پیدا ہوئی۔ آج بھی میں ان جوان بچوں کو نماز، روزے کی تلقین کرتی رہتی ہوں۔ اگر کسی میں نماز کی کوتاہی نظر آتی ہے تو وہیں ٹوک دیتی ہوں لیکن اکیلے میں، محبت سے، تاکہ وہ اس بات کو اپنی بے عزتی نہ جانیں۔
عموماً دیکھا گیا ہے کہ کسی چیز کے لیے یا کسی کام کی انجام دہی کے لیے والدین بہت زیادہ سختی روا رکھیں یا بچوں کو سب کے سامنے ٹوکیں اور برا بھلا کہیں تو انہیں بے عزتی محسوس ہوتی ہے، وہ اس کام سے ہی چڑ جاتے ہیں، والدین کے خوف و ڈر سے شاید کچھ وقت کے لیے کرلیں لیکن دل سے نہیں کریں گے، بلکہ وہ والدین سے بھی چڑ جاتے ہیں اور باغی ہوجاتے ہیں۔ اس لیے شروع میں پیار و محبت سے قائل کیا جائے، نہ ماننے کی صورت میں ہلکی پھلکی مار بھی جائز ہے، اور یہ بھی باور کروائیں کہ مارا کیوں گیا، آپ پر کس لیے اس فعل کی ادائی کے لیے زور ڈالا جا رہا ہے۔ دنیاوی تعلیم کے لیے تو والدین بچوں پر سختی بھی کرتے ہیں اور باور بھی کراتے ہیں کہ تعلیم کے آپ کو کیا فوائد پہنچیں گے، کس منزل پر آپ کو یہ تعلیم پہنچائے گی… تو آخرت کی کھیتی کے لیے، فائدے کے لیے دینی تعلیم و تربیت کے لیے بچے پر اعتدال کے ساتھ سختی جائز ہے۔ دینی احکام اس بارے میں ہمیں ملتے ہیں۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’بچے کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم کرو، اور دس برس کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر مارو۔‘‘
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ بچوں کی نماز کی نگرانی کیا کرو، اور اچھی باتوں کی ان کو عادت ڈالو۔
حضرت لقمان حکیم کا ارشاد ہے کہ باپ کی مار اولاد کے لیے ایسی ہے جیسے کہ کھیتی کے لیے پانی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ کوئی شخص اپنی اولاد کو تنبیہ کرے، یہ ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔ (ایک صاع تقریباً ساڑھے تین سیر غلہ کا ہوتا ہے)۔
ایک اور جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد اس طرح ہے کہ کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے افضل عطیہ نہیں دے سکتا کہ اس کو اچھا طریقہ تعلیم کرے۔ ان ارشادات سے نہ صرف بچوں کی تعلیم و تربیت کرنے کی اہمیت واضح ہے بلکہ تعلیم و تربیت میں کسی حد تک سختی اور مار بھی والدین کے لیے جائز ہے، تاکہ اولاد کی آخرت بھی سنور جائے اور ایسی راہ ہدایت پر چلنے والی اولاد والدین کے لیے صدقۂ جاریہ بھی ثابت ہو۔ جبکہ ان کی دینی تعلیم و تربیت سے چشم پوشی کرنا ان کی آخرت گنوانے کے مترادف ہے۔ اللہ رب العزت ہم سب کو اولاد کی صحیح دینی تعلیم و تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

حصہ