چاچا شرفو مرگیا

545

زاہد عباس
’’شیدے، کیا حال ہے، آج کل کہاں رہتا ہے، سب ٹھیک تو ہے ناں؟‘‘
’’جی جی چودھری صاحب، سب ٹھیک ہے۔ آپ کے ہوتے ہوئے بھلا کیا مسئلہ ہوسکتا ہے! آپ مائی باپ ہیں ہمارے، آپ کو دیکھ کر جی اٹھتے ہیں۔‘‘
’’یہ رفیق نظر نہیں آرہا، محلے میں بھی رونق نہیں ہے، اور چاچا شرفو کی دکان بھی بند ہے، سب مزے میں تو ہیں ناں؟‘‘
’’جی چودھری صاحب سب مزے میں ہیں، چاچا شرفو تو فوت ہوگیا ہے، اور رفیقہ گاؤں چھوڑ گیا ہے۔‘‘
’’چاچے کا انتقال ہوگیا ہے! کب؟‘‘
’’اِس بار گندم کی کٹائی پر چاچے کی فوتگی کو چوتھا سال لگ جائے گا۔‘‘
’’اور رفیق کو کیا ہوا جو برادری کو چھوڑ کر چلا گیا؟‘‘
’’کیا کرتا، نمبردار اس کے پیچھے پڑ گیا تھا، اور پھر پٹواری نے بھی تو اچھا نہیں کیا، اُس کی زمین پر شریکوں سے قبضہ کروا دیا۔ سنا ہے اپنے سسرالیوں میں جا بسا ہے۔‘‘
’’اوہو بڑی زیادتی ہوئی ہے۔ یار اتنا کچھ ہوگیا تُو نے مجھے اطلاع تک نہیں دی! چاچا شرفو میرا قریبی تھا، مرنے سے پہلے میرے بارے میں سوچتا ہوگا کہ چودھری اشرف بے وفا ہوگیا ہے۔ یہ سب تیرا ہی قصور ہے، دیکھ اگر چاچا اپنے دل میں میرے بارے میں کوئی غلط فہمی لے کر مر گیا ہے تو قیامت کے روز تُو میرا مجرم ہوگا۔‘‘
’’نہیں نہیں چودھری جی ایسی کوئی بات نہیں، چاچا تو مرتے وقت بھی آپ کو ہی یاد کررہا تھا، کہتا تھا کہ چودھری اشرف اب بڑا آدمی بن گیا ہے، وزیر ہوگیا ہے، اُس کے پاس ہم جیسے غریبوں کے لیے وقت کہاں! اور ویسے بھی آپ سے ملتے بھی کیسے؟ کئی مرتبہ کوشش کی، کوئی ملنے نہیں دیتا تھا، ہر مرتبہ جواب ملتا کہ چودھری صاحب مصروف ہیں۔ پھر سوچا ہم جیسے غریبوں کو بھلا کون ملنے دے گا!‘‘
’’یار یہ سیاست بھی عجیب ہوتی ہے، اپنوں سے ملنے بھی نہیں دیتی۔ خیر تُو اپنا دل چھوٹا نہ کر، اب میں آگیا ہوں، سب پہلے کی طرح ٹھیک ہوجائے گا۔ اچھا اب کام کی بات سن، ابھی تو میں جلدی میں ہوں، شام کو سارے پنڈ کا چکر لگانا ہے، رفیق اور حنیف والوں کو بھی پیغام بھیج دے کہ الیکشن آگئے ہیں، برادری کا نام اونچا کرنا ہے۔‘‘
’’چودھری صاحب رفیق سے تو کہہ دوں گا، پر حنیف کا وعدہ نہیں کرتا، جب سے اُس کا بیٹا پڑھ لکھ گیا ہے آپے سے باہر ہوگیا ہے۔‘‘
’’یہ باتیں چھوڑ، میرا بتانا کہ چودھری اشرف خود آیا تھا، باقی میں دیکھ لوں گا۔ بس تجھے سب کو یہی پیغام دینا ہے کہ شام کو بوڑ والے میدان میں جمع ہوجائیں، باقی باتیں وہیں پر کروں گا، آخر کو اتنی بڑی برادری ہے۔‘‘
چودھری کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق شیدے پر سارے ہی پنڈ والوں کو بوڑ والے میدان میں جمع کرنے جیسی بھاری ذمے داری آن پڑی تھی، خیر برادری کا مسئلہ تھا اس لیے چودھری کے آنے کی خبر سارے ہی پنڈ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ اِس مرتبہ لوگوں کے ذہن بدل چکے تھے، یہی وجہ تھی کہ بوڑ والے میدان میں لوگ چودھری کی سننے کے بجائے اپنی باتیں سنانے کو جمع ہورہے تھے۔ اب انتظار تھا تو فقط چوھدری اشرف کی آمد کا… کوئی کہتا کہ پانچ سال غائب رہ کر اب ووٹ مانگنے آگیا ہے، تو کہیں سے برادری کے نام پر پیسہ کمانے کا الزام لگایا جاتا، کوئی سڑکوں اور گلیوں کی خستہ حالی پر سیخ پا دکھائی دیتا، تو کوئی روزگار نہ ملنے پر انتہائی غصے میں نظر آتا… غرضیکہ وہاں موجود ہر شخص اپنے ذہن کے مطابق کسی نہ کسی حوالے سے چودھری اشرف کی مخالفت کررہا تھا۔ شام گہری ہوتی جارہی تھی کہ اسی اثناء میں گاؤں کی جانب آتی خستہ حال سڑک پر آنے والے گاڑیوں کے قافلے کو دیکھ کر لوگوں کے جذبات مزید بھڑک اٹھے، اور وہ بڑی تعداد میں سڑک کے کنارے جمع ہونے لگے۔ سڑک کے دونوں طرف لوگوں کا جم غفیر چودھری اشرف کے لیے حیران کن تھا، وہ استقبال کو آئے لوگوں کی کیفیت سے بے خبر تھا، وہ دل ہی دل میں اپنے لیے برادری والوں کی محبت کے بارے میں سوچتا بوڑ والے میدان تک آن پہنچا۔ جوں ہی وہ گاڑی سے اترا، لوگوں نے اسے اپنے حصار میں لیتے ہی بولنا شروع کردیا۔ شور کی وجہ سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی۔ کوئی بھی چودھری کی بات سننے کو تیار نہ تھا…کوئی فوتگیوں پر نہ آنے کا گلہ کرتا، تو کوئی ٹریکٹر ٹرالی کے لیے قرض نہ دینے کا شکوہ… کوئی مہنگی کھاد کا ذکر کرتا تو کہیں سے گاؤں میں مڈل اسکول کی تعمیر کا وعدہ یاد دلانے کے لیے آوازیں لگائی جاتیں… اس صورتِ حال میں برادری سے ووٹ مانگنا تو درکنار، چودھری اشرف کے لیے اپنی عزت بچانا بھی مشکل ہوگیا تھا۔ لوگ اس کی بات کسی صورت بھی سننے کو تیار نہ تھے، پر چودھری بھی تو اسی برادری کا تھا، بھلا ہار کیسے مان سکتا تھا! لوگوں کے درمیان خاصی دیر خاموش کھڑے رہنے کے بعد اپنی سیاسی بصیرت کا کمال دکھاتے ہوئے اپنے پیروں سے جوتے اتارکر چاچا غلامو کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے بولا ’’چاچا سو جوتے مار لے، اب آگیا ہوں برادری کو راضی کیے بغیر نہیں جاؤں گا۔ تُو بڑا ہے، تیرا ہر فیصلہ مجھے منظور ہے، اگر میں پانچ سال برادری سے دور رہا تو اس کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ میں اپنوں سے کٹ گیا ہوں۔ پانی میں لاٹھی مارنے سے پانی کے دو ٹوٹے نہیں ہوتے، پانی پھر مل جاتا ہے۔ برادری والوں کی باتیں سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ میں اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں، سزا دے لے، مگر ایسا تو نہ کر۔ برادری کی عزت تیری عزت ہے، اور تیری عزت میری عزت ہے۔ غیر مارے تو دھوپ میں پھینک دے، اپنا مارے گا تو کم سے کم چھاؤں میں تو پھینکے گا۔ اگر مخالف جیت گیا تو ہماری دو ٹکے کی عزت بھی نہیں رہے گی۔ برادری کا شملہ اونچا کرلے یا اس کی عزت مٹی میں ملا دے، اب تُو جو چاہے فیصلہ سنادے۔‘‘
چودھری کی باتیں سنتے ہی بوڑ والے میدان میں خاموشی چھا گئی، چودھری کی طرف سے کھیلاگیا ’’برادری کارڈ‘‘ کام کرگیا۔ چاچا غلامو نے ایک موقع اور دیتے ہوئے چودھری اشرف کو گلے لگالیا۔ تعلیم اور صحت جیسے بنیادی حقوق کے حصول کے مطالبات پر برادری سسٹم غالب آگیا۔ بوڑ والے میدان میں جہاں کچھ دیر پہلے تک اپنے جائز حقوق کی عدم فراہمی پر احتجاج کیا جارہا تھا، اب وہاں ڈھول کی تھاپ پر رقص کیا جانے لگا، دعائے خیر کروائی گئی اور پورا پنڈ ’’جیتے گا بھئی جیتے گا… چودھری اشرف جیتے گا‘‘ جیسے نعروں سے گونج اٹھا۔
………٭٭٭………
پاکستانی سیاست میں وڈیروں، مَلکوں، چودھریوں اور جاگیرداروں کا کردار نیا نہیں۔ یہ ہمیشہ سے ہی نئی پارٹی اور نئے مونوگرام کے ساتھ اپنی اپنی برادریوں اور خاندانوں کے ووٹوں کی بنیاد پر حکمرانی کرتے آئے ہیں۔ ذات پات اور مسلک کی بنیاد پر سیاست کرتے ان الیکٹ ایبلز کا خاصہ رہا ہے کہ یہ اپنی اپنی برادریوں کے معصوم اور مظلوم عوام کو اپنی چکنی چپڑی باتوں میں پھنسانے کا خوب ہنر جانتے ہیں۔ آپ کو ایسے ہی کردار الیکشن 2018ء کے دوران بھی نظر آئیں گے، جو آپ لوگوں کے ساتھ ان گلی محلوں میں جہاں سے گزرنا بھی وہ اپنی توہین سمجھتے ہیں، بیٹھیں گے۔ وہ آپ کے ساتھ ایسے گھل مل جائیں گے جیسے برسوں کا یارانہ ہو۔ آپ کے ساتھ چارپائی پہ بیٹھ کر کھانا کھائیں گے، آپ کے ساتھ ہمیشہ کی طرح بڑے بڑے وعدے کریں گے۔ یہ خود کو عام آدمی جیسا ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔ آپ کے مسائل اور پریشانیوں کو اپنا ذاتی مسئلہ سمجھیں گے۔ کسی غریب بچی کی شادی کے انتظامات کرنا ان کی اوّلین ترجیح ہوگی۔ گاؤں میں انتقال کرجانے والوں کے گھروں میں جاکر فاتحہ خوانی کرنا اور اپنی غلطی مان کر ناراضیاں ختم کرنا ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہوگا۔ وہ دعائے خیر بھی کروائیں گے۔ واضح رہے کہ گاؤں کے رسم ورواج کے مطابق دعائے خیر کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے، یہ ایک قسم کا ایسا زبانی حلف نامہ ہوتا ہے جس سے انحراف ممکن نہیں۔ یہ دعا ایک طرح سے اس شخص کو ووٹ دینے کا پابند کرتی ہے۔ جب ایک شخص کے لیے یہ دعائے خیر ایک مخصوص گائوں یا برادری کی طرف سے ہوجاتی ہے تو پھر کسی دوسرے کے لیے نہیں ہوسکتی… یعنی پہلے آئیے پہلے پائیے… جھوٹ بولیے، جھوٹے وعدے کیجیے اور غریبوں کے ووٹ کے حق دار بن جائیے۔
اسی طریقہ کار کو دیکھتے ہوئے چودھری اشرف جیسے شاطر سیاست دانوں کی کوشش ہوتی ہے کہ جلد سے جلد بڑی اور خاص طور پر اپنی اپنی برادریوں کو لچھے دار باتوں میں پھنسا کر اپنا ووٹ پکا کیا جائے۔گزشتہ ستّر برسوں سے ہم یہی کچھ دیکھتے اور سنتے چلے آرہے ہیں۔
بس اب بہت ہوچکا… اگر پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو موروثی سیاست کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ ڈر اور خوف کی فضا کو ختم کرنا ہوگا۔ پانچ سال مسائل میں گھرے رہنے سے بہتر ہے کہ اپنے اچھے مستقبل کے لیے ایک دن کی سختی برداشت کرلی جائے۔ گھر بیٹھ کر اپنا ووٹ ضائع کرنے کے بجائے ایک ایک ووٹر کو نکلنا ہوگا۔ جو ووٹ نہ ڈالیں اُن کی بھرپور مخالفت کرنا ہوگی۔ بقول اجمل سراج

دور سے دیکھتے ہیں جو بھی تماشا اپنا
اُن سے اب پُرسشِ حالات نہیں کرنی ہے
ووٹ جو ڈالنے گھر سے نہیں نکلیں اجملؔ
ایسے لوگوں سے تو اب بات نہیں کرنی ہے

ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جو پانچ سال پہلے بالکل اسی طرح آپ کے شہروں، محلے کی گلیوں میں آئے تھے اور کامیاب ہوجانے کے بعد آپ ان کی شکل دیکھنے کو بھی ترستے رہے۔
خدارا ان لوگوں کی باتوں پر آنکھیں بند کرکے یقین مت کیجیے گا، ورنہ اگلے پانچ سال پھر دربدر کی ٹھوکریں ہی آپ لوگوں کا مقدر بنیں گی۔ ان لوگوں کو پہچانیے جو ہر بار نئی سیاسی پارٹی میں شامل ہوکر خود کو نظریاتی اور اصولی سیاست کا شاہکار بنانے کی کوشش کریں گے۔
پچھلے الیکشن سے پہلے انہی لیڈروں کی طرف سے کیے گئے وعدوں کو ذرا ذہن میں لایئے۔ ان وعدوں میں کسی موٹروے کی تعمیر، بڑے ہسپتال اور میڈیکل کالج کی تعمیر، کسی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ، یا پھر کسی شہر کو ضلع کا درجہ دینے کا وعدہ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر ان وعدوں میں سے کوئی ایک بھی وفا ہوا ہو تو پھر یہ سیاست دان سچے ہیں۔ اور اگر یہ وعدے پورے نہیں ہوئے تو پھر سوچ سمجھ کر اور دانش مندی کے ساتھ کسی پڑھے لکھے سیاست دان کو ووٹ دینا ہے۔
عوام کو ووٹ دیتے وقت یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ان کے ووٹ کی کتنی اہمیت ہے، کیونکہ اس ووٹ کی بدولت ہی کوئی سیاست دان ملک کا وزیراعظم، وزیراعلیٰ یا پھر وزیر بن سکتا ہے۔ اور اگر عوام کسی سیاست دان کو مسترد کردیں تو پھر وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے منظر سے غائب بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے ووٹ کو کسی سیاست دان کی طرف سے دیے گئے صرف ایک دن کے مفت کھانے، چند پیسوں، یا پھر کچھ دن کی مفت کی گاڑی استعمال کرنے کی خاطر قربان نہ کریں، بلکہ اپنے ضمیر کی آواز سنیں اور صحیح وقت پر صحیح فیصلہ آپ کے اپنے اختیار میں ہے۔ اگر ہم اپنے ملک کا مفاد اپنے ہاتھ میں لے لیں اور اپنے لیے مخلص حکمران ڈھونڈ لیں تو یقینا ہمارے مسائل کا حل نہ صرف ممکن ہے بلکہ نئی اور روشن راہوں کا سفر بھی ہمارا نصیب بن جائے گا۔

حصہ