جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ

1319

سعیدہ آغا
معلمہ جامعات المحصنات منصورہ سندھ
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ فلسفہ ، سائنس اور طب کے میدان میں مغرب کے جن کارناموں سے آج دنیا بہت زیادہ مرعوب اور متاثر ہے۔ ان کے اصولوں کو مرتب و منضبط کرنے اور انکی بنیادی تحقیق اور دریافت کا سہرا ان مسلم فلسفیوں ، سائنسدانوں اور ماہرین کیمیا کے سر ہے جنھوں نے خداداد ذہانت اور تحقیق اور تجسس سے کام لے کر زندگی کے مختلف میدانوں اور علم کے مختلف شعبوں میں تحقیق و ایجادات اور مختلف حقائق و شواہد کی دریافت سے ترقی کی نئی راہیں کھولیں۔
یورپ نے ہسپانیہ میں مسلمانوں کے زوال اور عیسایت کے غلبے کے نتیجے میں بیش قیمت علمی تحقیقات و تصنیفات کے ذخیرے حاصل کئے، انکے کئی زبانوں میں تراجم کیے اور انہی تحقیقات کو بنیاد بنا کر سائنس کے میدان میں پیش قدمی کی اور کیمیا ، ریاضی، اور طبیعات کے میدان میں وہ ترقی کی کہ ساری دنیا کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں ،
انتہا یہ ہے کہ مسلمانوں کے جدید تعلیم یافتہ طبقے میں ان علمی ترقیوں اور تحقیق و ایجادات کے میدانوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ علم و سائنس کی ساری ترقی اہل یورپ کا کارنامہ ہے مسلمانوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے اس کی وجہ اسکے سوا اور کچھ نہیں کہ یہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ اپنے اسلاف کی سائنسی تحقیقات و ایجادات سے بالکل لا علم اور بے خبر ہے۔
نامور سائنسدان
قدیم زمانے میں لفظ سائنسدان کی اصطلاح تو نہ تھی مگر ہر وہ عالم و فاضل جو علوم وفنون میں کامل مہارت رکھتا تھا نمایاں حیثیت کا مالک ہوتا تھا اسے حکیم کے نام سے پکارتے تھے جو لوگ علوم وفنون میں ماہر ہوتے تھے ان کے لیے یہ لفظ مخصوص ہوتا تھا ۔
اس قدیم دود میں سائنس کی مشہور شاخیں یہ تھیں ۔۔۔۔۔ علم ریاضی ، علم ہئیت و نجوم ، علم کیمیا ، علم طب اور حیاتیات جن میں سے علم ریاضی اور علم ہئیت ونجوم کو خاص حیثیت حاصل تھی واپس لیے، پورے اسلامی دور میں جن سائنسدانوں نے کام کیا ۔ علم لے دربار میں باریاب ہوئے اور نام پایا انکی اکثریت علم ریاضی علم ہئیت ونجوم اور فن طب سے متعلق تھی جن میں سے چند کے سائنسی کارنامے درج ذیل ہیں:۔
۱۔ خالد بن یزید:۔
خالد بن یزید کو علم کیمیا سے خاص دلچسپی تھی اور علم ہئیت سے بھی لگاؤ تھا ۔وہ شاہی خاندان سے تھا مگر شاہانہ کروفر سے دور تھا۔عالم ِ اسلامی میں خالد بن یزید ہیلا سائندان گزرا ہے اس نے کئی فنی کتابوں کے ترجمے کرائے اور علم ہئیت میں کرہ بھی بنوایا اور آسمان کا یہ کرہ خالد کی ہدایت کے مطابق تیار کیا گیا تھا یہ دھات کا تھا۔
۲۔ابو اسحاق ابراہیم بن جندب:۔
ابراہیم بن جندب اجرام فلکی کے مشاہدے میں مہارت رکھتا تھا اس نے فلکیات (Astonomy) میں تحقیق کی۔ علم نجوم میں بھی ماہر تھا ۔
وہ دنیا کا پہلا عالی دماغ نجومی (astrologar) تھا ماہر صنّاع میکانک (Mechanics) ہونے کے سبب اس نے چاند، تاروں اور اجرام فلکی کے صحیح مشاہدے کے لیے ایک نیا آلہ ایجاد کیا اس انوکھے آلے کو اصطرلاب کا نام دیا گیا ۔
اصطرلاب ایک قسم کی دور بین تھی (Telescpoe) تھی اس دور بین کے ذریعے بآسانی چاند تاروں کا مشاہدہ کیا جاسکتا تھا اوراور ان کے فاصلے کی پیمائش کی جاسکتی تھی۔ عجائبات فلک کے مشاہدے کے لے یہ پہلی سیدھی سادھی دور بین تھی، حقیقت یہ ہے کہ دور بین کا موجد ابراہیم بن جندب تھا۔
عبداللہ جش حاس:۔
علم ریاضی کا ماہر تھا اس علم میں اس نے کئی نئی دریافتیں کیں۔علم الحثلث یعنی ٹرگنومیٹری(trignometry) کا محقق تھا ٹریگنومیٹریکل کا نقشہ مرتب کرکے اسے رواج دیا جس سے فن انجینئرنگ میں بڑی سہولتیں پیدا ہوگئیں ۔ یہ طریقہ آج بھی برتاجارہا ہے۔
۵۔ عبدالمالک اصمعی:۔
عبدالمالک اصمعی حیاتیات سے کمال دلچسپی رکھتا تھا ۔ یہ پہلا سائنسدان ہے جس نے علم الحیوانیات پر پانچ کتابیںتصنیف کر کے معلومات کا خزانہ ہمارے سامنے بکھیر دیا ۔ ۱۔کتاب الخیل ۲۔کتاب الابل ۳۔کتاب الشاۃ ۴۔کتاب الوحوش (جنگلی جانور وپرندے) ۵۔ خلق الانسان، علم اصمعی نے ان سب جانوروں کی خصوصیات ، عادات ، اطوار کو بیان کیا ، اس نے علم حیاتیات کو ان پانچ حصوں میں تقسیم کرکے ہرایک حصے کے جانوروں کی خصوصیات بیان کی ہیں ۔ پانچویں کتاب انسانوں پر ہے یہ کتابیں دنیا میں پہلی تصنیف کہی جاتی ہیں۔
عطارو الکاتب
عطارو الکاتب اچھا خوش نویس تھا کاتب کا لفظ اس کے نام کا جز بن گیا لیکن وہ معدنیات سے دلچسبی رکھتا تھا اس نے سینکڑوں قسم کے پتھروں کے نمونے جمع کیے ان میں سفید رنگین ہر قسم کے پتھر تھے اس نے ان پتھر ون کی ماھیت معلوم کیں ان کے اثرات اور خصوصیات کا پتہ لگایا ان کی شناخت کے طریقے بتائے عطارو الکاتب نے علم معدنیات میں تحقیقی جستجو کر کے کمال پیدا کر دیا اور اس فن کا ماہر بن گیا وہ معدنیات کا پہلا ماہر تھا اس موضوع پر اس نے تجربات و مشاہدات کو ایک کتاب میں جمع کردیا علم معدنیات پر یہ ایک مستند کتاب سمجھی جاتی ہے
حجاج بن عیسی اضطرابی
علم ہیت کا ماہر اور ہونہار صناع تھا آلہ سدس زمین سے اجرام فلکی یعنی شاند تاروں اور سورج کے درمیان فاصلہ کتنا ہوگا اس کی پیمائیش کا طریقہ ایجاد کیا اور آلہ سدس تیار کیا کیا جس سے کم سے کم فاصلہ بھی معلوم کیا جاسکتا ہے یہ کمپاس کی شکل کا دائرہ نما آلہ ہے جو آ لہ سولہویں صدی میں تیار کیا ۔
ابو جعفر محمد موسی شاکر
علم ہیت فلسفہ اور ریاضی کا ماہر تھا اس کی تعلیم و تربیت بیت الحکمت سے ہوئی اسے علم فن سے دلچسبی تھی کیمیاوی ترازو محمد نے ایک کیمیا وی ترازوں ایجاد کیا اس ترازو میں یہ خوبی تھی کہ کم سے کم مقداروں کا صحیح وزن معلوم کرنے میں بہت کار آمد ثابت ہوئی اور آج بھی یہ ترازو سائنس میں استعمال ہوتی ہے۔ابو عباس احمد بن کثیر فرغانی علم ہیت کا کامیاب سول انجینئر اور صناع تھا یہ زمین کے محیط کی پیمائیش کرنے والوں کی جماعت کا ممبر تھا طغیانی ناپنے کا آلہ یجاد کیا اس آلے کے ذریعے دریا کے پانی کا صحیح اندازہ ہو جاتا ہے دھوپ گھڑی انھوں نے دھوپ گھڑی ایجاد کی جس سے دن میں وقت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔
فرغانی نے کئی نے کئی کتابیں مرتب کیں مشہور کتاب جوامع علم النجوم ہے اس کتاب کا ترجمعہ لاطینی جرمنی اور فرانسیسی زبانوں میں کیا گیاسب کتابیں نادر خیالات ونظریات کی حامل ہیںلیکن جن کتابوں نے اسے خاص اہمیت دی اور سائنسدانوں کی صف اول میںاسے لابٹھایا ان میں یہ دو کتابیں خصوصیت سے قابل ذکرہیں: القانون ا و ر کتاب الشفاء۔
کتاب الشفاء میں فلسفہ و حکمت پر سیر حاصل بحث کی ہے علم کیمیا بھی گہرا اور تحقیقی فضاء میں ہیں۔
شیخ کی کتابیں یورپ میں:
ساتویں صدی کے بعد جن مسلمانوں کا علمی خزانہ یورپ کے ہاتھ لگا تو ان کی آنکھیں کھل گئیں یورپ اپنے اس دور میں جہالت سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا اس لیے انفرادی طور پر اس علمی خزانے سے فائدہ اٹھانے کی تدبیر یں کرنے لگا علمائے یورپ نے شیخ کی کتابیوں کو اپنی زبان میں منتقل کر کے یورپ نے شیخ کی بڑی قدر کی فن طب میں مشہور کتاب القانون یورپ کے میڈیکل کالج میں صدیوں داخل نصاب رہی سولہویں صدی میں یہ بیس مرتبہ یہ کتاب چھپی لاطینی زبان میں بھی اس کا ترجمہ ہوا۔ آج اس نئے دور میں علم طب بہت ترقی کر گیا ہے نئے نئے انکشافات ہو رہے ہیں نئی نئی کتابیں شائع ہورہی ہیں نئے نئے میڈیکل کالج قائم ہو رہے ہیں علاج کے نئے نئے طریقے سامنے آرہے ہیں لیکن یہ سب کام اس دائرے میں ہورہے جس پر الشیخ نے القانون کی بنیاد رکھی تھی۔
ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی:
البیرونی مسلامانوں کے ایک فلسفی علم ہیت کے ماہر زمین کے متعلق گہری تحقیق کرنے والے دنیا کے مشہور مقامات کے طول البلد اور عرض البلد دریافت کرنے والے زمین کے محیط کی صحیح تحقیق کرنے والے تھے البیرونی نے پہلے زمین کا نصف قطر معلوم کیا پھر اسے یعنی (۴×17 ۱۴ء۳ ) کے ساتھ اس طرح ضرب دے کر زمین کا محیط دریافت کر لیا البیرونی کے حساب سے زمین کا محیط (۷۴۷۷۹) میل ہوتا ہے جو بہت ھد تک صحیح ہے۔اس نئے دور میں بھی آج کل کی تحقیق کے مطابق زمین کا محیط (۸ ۷۴۸۵ میل ہے ۔ اس لحاظ سے البیرونی کی پیمائیش میں آج کی نسبت(۸) میل کی کمی ہے اور مامونی کے مقابلے عہد ِ مامونی کی نسبت (۱۷)غلطی تھی۔ لیکن البیرونی کی پیمائیش میں یہ غلطی صرف (۳ء) فیصد ثابت ہوئی یہ غلطی اس قدیم دور کے حالات کو دیکھتے ہوئے کوئی غلطی نہیں ہے ۔زمین کے نصف قطر اور محیط کی اتنی صحیح پیمائیش کر لینا البیرونی کے کمال کا ایک واضح ثبوت ہے۔
امام محمد بن احمد الغزالی:
امام غزالی دنیا ئے اسلام کے ایک عظیم مفکر اور مدبر ،علم اخلاق یا روحانیت پر فلسفیانہ انداز سے بحث کرنے والا جدید فلسفہ اخلاق کے موجد اور محقق تھے
امام غزالی نے تعلیم کے لیے بحث کا طریقہ ایجاد کیا تعلیمی بحث ان ہی کی ایجاد ہے امام غزالی نے تمام علوم و فنون کو دین کا خادم بنا دیا وہ جملہ علوم پر فلسفیانہ نظر ڈالتے ہیںامام صاحب نے بہت سی کتابیں مختلف موضوع پر لکھی ہیں فارسی زبان میں کیمیائے سعادت مشہور ترین کتاب ہے لیکن ان کتابوں احیائے علوم کا درجہ بہت بہت بلند ہے۔ امام صاحب نے مذہب کو حسن کے ساتھ ترتیب دیکر احیائے علوم تصنیف کی ہے اس کتاب نے اتنی مقبولیت حاصل کی کہ ایک طرف تو آئمہ اسلام نے اسکو الہامات ربانی کا درجہ دیا تو دوسری طرف غیروں نے بھی اس کتاب کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا اور امام غزالی کی قابلیت و علمیت کو تسلیم کیا چناچہ ہنری لوئیس تاریخ فلسفہ میں احیائے علوم کی تعریف کرتے ہوئے لکھا یورپ میں جدید فلسفہ اخلاق کا بانی دیکارٹ کے زمانے میں اگر احیائے علوم کا ترجمہ فرنچ زبان میں ہو چکا ہوتا تو ہر شخص یہی کہتا کہ ڈیکارٹ نے احیائے علوم کے مضامین چرائے ہیں۔
حرف أخر:
اسلام نے حق پسندی صداقت طلبی اور علم دوستی کا جو مزاج پیدا کیا اور قرآن و سنت نے جو علم اور سچائی پر زور دیا اور زمین میں پھیلے ہوئے آثار اور تاریخی حقائق کیمیا کے مشاہدے کے لیے لوگوں کو دعوت فکر و نظر دی اس سے دنیائے انسانیت میں علم و تحقیق کی ایک فضا بن گئی قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے روم اور ایران و ہندوستان کے مروجہ علوم و فنون پر تنقیدی نظر ڈالی اور نئے علمی و اصول و نظریات ایجاد کیے ۔مگر اسی کے ساتھ یہ تاریخ کا عبرت اناک واقعہ ہے کہ سائنس کی عظیم الشان خدمات انجام دینے کے بعد عرب اور مسلمان اپنی تحقیقی و علمی روش بھول گئے اور تجربہ اور مشاہدہ کو وسیع کرنے کے بجائے مقلدان و روایتی ذہنیت کا شکار ہوگئے جس کے نتیجے میں وہ سائنسی و صنعتی میدان میں مغرب سے پیچھے رہ گئے اور ان ہی سے سیکھے ہوئے علمی سائنسدان حربوں اور ہتھیاروں سے مغرب نے انھیں غلام بنانا شروع کر دیا اور ان کا استعمال کرنے لگا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اپنی بھولی ہوئی تحقیقی روش کو اپنائیں اور مفید و بامقصد طریقے پر سائنس و صنعت کو فروغ دیں اور مسلمان ماہرین فن و سائنسدانوں کی فن وعلمی تحقیقات کا جائزہ لیں اور ان سے استفادہ کر کے تحقیق و جستجو اور تجربہ و مشاہدہ کے میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں ۔

اٹھ کے اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

حصہ