نور احمد میرٹھی کی یاد میں ادبی ریفرنس و مشاعرہ

391

ڈاکٹر نثار احمد نثار
گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین کورنگی نمبر 4 کراچی میں ادارۂ فکر نو کراچی کے تحت ممتاز ادیب و محقق نور احمد میرٹھی کی ساتویں برسی کے موقع پر ادبی ریفرنس و مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ اعجاز رحمانی نے صدارت کی سعید الظفر صدیقی مہمان خصوصی اور ظفر محمد خاں ظفر‘ مہمان اعزازی تھے۔ رشید خان رشید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ عزیز الدین خاکی اور فرید احمد خورشیدی نے نعتیں پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ محمد علی گوہر نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم نور احمد میرٹھی کی قائم کردہ ادارے کے پلیٹ فارم سے اردو ادب کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہیں ہم ایک ٹیم ورک کے تحت اس ادارے کو چلا رہے ہیں جو لوگ ہمارے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں ان کے لیے ہمارے دروازے کھلے ہیں وہ آئیں اور ہمیں Join کریں۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ ہر ماہ مشاعرہ کے علاوہ سالانہ نعتیہ مشاعرہ‘ محفل مسالمہ‘ خالد علیگ کی یاد میں ادبی ریفرنس اور نور احمد میرٹھی کے لیے پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ ہمارے ادارے کی خدمات رو روشن کی طرح عیاں ہیں ہم نوجوان نسل قلم کاروں کی حوصلہ افزائی بھی کر رہے ہیں اور لانڈھی کورنگی کے ٹیلنٹ کو سامنے لارہے ہیں۔ ظفر محمد خان ظفر نے اپنے طویل مقالے میں کہا کہ نور احمد میرٹھی 7 جنوری 1948 میں دہلی میں پید اہوئے جب کہ ان کی پرورش ان کے نانا نے کی جو کہ میرٹھ میں رہائش پزیر تھے اسی حوالے سے وہ نور احمد میرٹھی کہلائے۔ انھوں نے 1966 سے ادبی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ 1977 میں ادارۂ فکر نو قائم کیا وہ صاحبِ دل اور شگفتہ مزاج صاحب قلم تھے ان کی علمی اور ادبی سرگرمیوں سے انکار ممکن نہیںانھیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عشق تھا۔ انھوں نے کئی نعتیہ مجموعے ترتیب دیے وہ شاعر نہیں تھے مگر شاعر گر تھے وہ بہترین مصنف و مؤلف تھے انھوں نے غیر مسلم شعرا کے نعتیہ کلام پر مشتمل نعتیہ کتابیں شائع کیں وہ اپنے ادارے کے تحت متعدد قلم کاروں کی کتابیں بھی منظر عام عام پر لائے ان کا ادبی کام اتنا ہے کہ انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی جانی چاہیے۔ صدر محفل نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ نور احمد میرٹھی اپنی ذات میں انجمن تھے۔ ان کی زندگی اردو ادب کے لیے وقف تھی‘ وہ ہمہ جہت شخصیت تھے ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ادب کی خدمت کریں‘ نوجوان نسل کی حوصلہ افزائی کریں‘ اپنے بڑوں کا ادب کریں اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ آج کا مشاعرہ ایک یادگار محفل ہے جس میں بہت اچھی شاعری سامنے آئی امید ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ سعید الظفر صدیقی نے کہا کہ ادارۂ فکر نو کے عہدیداران و اراکین نے نور احمد میرٹھی کے ادبی ریفرنس کا اہتمام کیا ہے یہ ایک قابل ستائش کام ہے وہ قومیں زندہ رہتی ہیں جو کہ اپنے اسلاف کو یاد رکھتی ہیں۔ نور احمد میرٹھی اردو ادب کے عظیم قلم کار تھے جن کی تصانیف و تالیفات سے قارئین ادب فیض یاب ہو رہے ہیں‘ ان کی کتب ہماری زبان و ادب کا اثاثہ ہیں وہ قلندر صفت انسان تھے۔ وہ لوگوں کو علاج معالجے کی سہولیات بھی فراہم کرتے تھے اس حوالے سے بھی ان کی انسانی خدمات قابل ذکر ہیں۔ آج ہم ان کی ساتویں برسی کے موقع پر جمع ہیں آیئے ہم سب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی مغفرت فرمائے۔ گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کی پرنسپل میڈم رقیہ صاحبہ نے کلمات تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا کالج ادبی سرگرمیوں کے لیے حاضر ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ مشاعروں کے ذریعے اردو زبان و ادب کی آبیاری ہورہی ہے نیز آج کے مشاعرے میں سامعین بھی بھرپور انداز میں حصہ لے رہے ہیں جس کی وجہ سے مشاعرہ بہت پُر لطف رہا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہمارے کالج کی ہم نصابی سرگرمیوں میں اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی شامل ہے ہم اس سلسلے میں کالج کی سطح پر تقاریب سجاتے ہیں۔ اس موقع پر ظفر محمد خان ظفر کو نور احمد یادگاری ایوارڈ 2018 پیش کیا گیا۔ احمد خیال اور رشید خاں رشید نے نور احمد میرٹھی کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔ راقم الحروف کو یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ رشید خاں رشید نے اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے کامیابی سے مشاعرہ چلایا اورکسی وقت بھی مشاعرے کا ٹیمپو ٹوٹنے نہیں دیا نیز تقدیم و تاخیر کا کوئی مسئلہ بھی پیدا نہیں ہوا۔ مشاعرے کے اختتام پر ادارۂ فکر نو کے روحِ رواں اختر سعیدی نے راقم الحروف کو بتایا کہ آج شہر میں کئی ادبی پروگرام چل رہے ہیں لیکن ہمارے پروگرام میں وہ تمام لوگ آئے ہیں کہ جن کو ہم نے دعوت دی تھی انھوں نے مزید کہا کہ ہم ان لوگوں کے ممنون اور شکر گزار ہیں کہ یہ ہمارے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔ اس پروگرام کے پہلے حصے میں نور احمد میرٹھی پر گفتگو ہوئی اور دوسرے دور میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ رشید اثر‘ غلام علی وفا‘ الیاس شاہد‘ انورانصاری‘ پروفیسر شاہد کمال‘ اختر سعیدی‘ سلیم فوز‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف نثار احمد‘ یوسف چشتی‘ عبدالمجید محور‘ عظمیٰ جون‘ حامد علی سید‘ شاہد اقبال شاہد‘ گل انور‘ ماہ نور خان زادہ‘ سخاوت علی نادر‘ ظفر بھوپالی‘ احمد خیال‘ محسن سلیم‘ سلمان عزمی‘ فخر اللہ شاد‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ اسحاق خان اسحاق‘ تنویر سخن‘ عادل شاہ جہاں پوری‘ یاسر صدیقی‘ عرفانہ پیرزادہ‘ عاشق شوکی علی کوثر‘ زبیر صدیقی اور غزالی بن جاوید نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔

حصہ