کراچی پریس کلب کی عید ملن اور محفل سُر سنگیت

269

خدا کا شکر ہے کہ کراچی کی رونقیں بحال ہورہی ہیں اس وقت کراچی میں ادبی سرگرمیاں زوروں پر ہیں۔ کراچی پریس کلب شہر کے امن میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار عبدالمالک غوری نے کراچی پریس کلب کی عید ملن پارٹی اور محفل سُر سنگیت کے موقع پر بحیثیت مہمان خصوصی کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ آج کی شاندار تقریب اس بات کی دلیل ہے کہ لوگ امن پسند ہیں اور تفریحی مشاغل کے دلدادہ ہیں اس لیے آج کراچی پریس کلب میں زندگی کے اہم شعبوں کے اہم لوگ موجود ہیں اس ادارے کی عہدیداران و اراکین بالخصوص احمد خان ملک‘ علاء الدین خانزادہ اور زیب اذکار ادبی پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں اسکے علاوہ بھی فنون لطیفہ کی دیگر شاخوں پر بھی یہ لوگ توجہ دے رہے ہیں۔ آج کی محفل سُر سنگیت بھی اسی حوالے سے منعقد کی گئی ہے۔ اس موقع پر کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے روح رواں زیب اذکار نے کہا کہ ہم اپنے محدود وسائل کے باوجود اردو ادب کی خدمت میں مصروف ہیں۔ احمد خان ملک کی قیادت میں کراچی پریس کلب نے کئی اہم سنگِ میل عبور کیے ہیں آج کی یہ شام کئی اعتبار سے یاد رکھی جائے گی کہ آج نئے اور سینئر شعرا کے کلام سے سامعین بہت محظوظ ہوئے۔ حنیف عابد نے کہا کہ آج کا پروگرام بہت عمدہ ہے ایسی تقریب ہوتی رہنی چاہیے تاکہ اس پُر آشوب دور میں سکون کے لمحات حاصل ہوسکیں۔ پروگرام کے مہمان اعزازی سخاوت علی نادر نے ادبی کمیٹی کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ اردو ادب کی ترویج و اشاعت میں ہم سب نے مل جل کر کام کرنا ہے اس زبان کی ترقی ہمارا قومِی فریضہ ہے۔ اس پروگرام میں معروف گلوکار استار ذوالفقار علی اور عظمیٰ اظہر نے محفل میں موجود کئی شعرا کی غزلیں گا کر خوب داد وصول کی۔ یہ تقریب رات گئے تک جاری رہی جس میں مہمانوں کو پھولوں کے تحائف اور اجرکیں پیش کی گئیں۔

بزمِِ تقدیس ادب کا مشاعرہ

زمِ تقدیس ادب پاکستان کراچی کے زیر اہتمام 61 واں ماہانہ مشاعرہ پروفیسر منظر ایوبی کی صدارت میں احمد سعید خان کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا سہیل غازی پوری مہمان خصوصی تھے اور ڈاکٹر جاوید منظر مہمان اعزازی تھے۔ اس مشاعرے میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ (احمد سعید خان) کے علاوہ سید آصف رضا رضوی‘ سید علی اوسط جعفری‘ سید فیاض علی فیاض‘ عبیداللہ ساگر‘ عظمیٰ جون‘ نجیب عمر‘ شاعر حسین شاعر‘ شاہد اقبال شاہد‘ عبدالوحید تاج‘ سحر تاب رومانی‘ حجاب عباسی‘ کشور عدیل جعفری‘ ڈاکٹر طاہر حسین‘ پرویز نقوی‘ عبدالمجید محور‘ آسی سلطانی‘ خالد میر‘ شارق رشید‘ تنویر سخن‘ کامران طالش‘ شاہین شمس زیدی‘ ضیا حیدر زیدی‘ یوسف اسماعیل‘ ذوالفقار حیدر پرواز‘ چاند علی اور دیگر نے اپنا اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ مشاعرے کے سامعین ہر اچھے شعر پر داد دے رہے تھے۔ صاحب صدر نے کہا کہ مشاعروں کا رواج ہماری تہذیبی اقدار کا حصہ ہے ہر زمانے میں یہ ادارہ عروج و زوال کا شکار ہوتا رہا لیکن اس کی اہمیت اور افادیت آج بھی قائم ہے۔ جو لوگ ادب کی خدمت کر رہے ہیں وہ قابل مبارک ہیں کراچی میں کام کرنے والی ادبی تنظیموں میں بزم تقدیس ادب بھی شامل ہے جس کے تحت ہر ماہ مشاعرے ہو رہے ہیں۔ مہمان خصوصی نے کہا کہ اردو زبان و ادب کی ترقی میں ادبی تنظیموں کا اہم کردار ہے حکومتی سطح پر ادیبوں اور شاعروں کے مسائل پر بھرپور توجہ نہیں دی جارہی جب کہ قلم کاروں کا طبقہ معاشرے کی ترقی میں سب سے اہم کردار کا حامل ہے۔ مہمان اعزازی نے کہا کہ اردو زبان ایک بین الاقوامی زبان ہے دنیا بھر کے اہم ممالک میں اردو پہنچ گئی ہے اردو لٹریچر میں مطالعاتی اور تحقیقی کام ہو رہا ہے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دی جارہی ہیں اردو کی ترقی کا سفر جاری ہے لیکن عدالتی حکم کے باوجود ابھی تک اردو کو عملی طور پر سرکاری سطح پر نافذ نہیں کیا گیا اس سلسلے میں تمام قلم کاروں کو آگے آنا ہوگا تب ہمارے حقوق ہمیں ملیں گے۔

اکادمی ادبیات پاکستان کا مشاعرہ

اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے زیر اہتمام سندھ کے نامور صوفی شاعر شاہ عنایت کی یاد میں مذاکرہ و مشاعرہ کا انعقاد اکادمی کے کراچی دفتر میں کیا گیا جس کی صدارت سندھی زبان کے نامور شاعر فتاح ملک نے کی۔ مہمان خاص اردو کی معروف شاعرہ ریحانہ روحی تھیں اور اعزازی مہمان فہمیدہ مقبول‘ شہناز رضوی‘ عظیم حیدر سید تھے۔ صدر محفل سابق ایڈووکیٹ جنرل سندھ‘ سندھی زبان کے نامور شاعر فتاح ملک نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ صوفی شاہ عنایت چاہتے تھے کہ وہ سماج میں باہمی رقابت گروہی مذہبی طبقاتی رنجشوں کا خاتمہ کرسکیں‘ آپ نے انسانی نظریہ کا درس دیا اور آپس میں ہمہ گیر فکر دیگر انسانوں کو نفرتوں سے آزاد کرانے کا خوب صورت راستہ دکھایا‘ آپ کا پیغام روح تھا تاکہ انسان کی روح بیدار ہو۔ آپ نے اپنے پورے پیغام میں اوّلیت زمین کو دی آپ سمجھتے تھے کہ انسانوں کے جینے کا ذریعہ زمینی معاش ہے اس وقت صنعتی سرمایہ داری کا دور نہ تھا اس لیے سب سے زیادہ اہمیت زراعت کی تھی اس لیے انہوں نے اپنی ساری زمینیں لوگوں میں بانٹ دی۔ مہمان خاص ریحانہ روحی نے کہا کہ صوفی شاہ کے دور میں مذاہب اور فرقہ بندیوں میں نفرتوں کی بنیاد پر لوگوں کو لڑایا جاتا تھا اور ان میں ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں پیدا کی گئی تھیں۔ شاہ عنایت اس کے بالکل برعکس تھے آپ نے انسان ذات کو مساوات کی فکر اور درست راستہ کا درس دیا آپ کی تعلیمات کی بنیاد ہی وحدت الوجود‘ وحدت مذاہب‘ وحدت انسانی‘ اپنے آپ کو پہچاننا‘ وطن دوستی اور قوم کا معاشی نظام ٹھیک کرنا‘ ظلم و جبر کے خلاف انصاف مہیا کرنے جیسے افکار پر تھا۔ اس موقع پر ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو نے کہا کہ شاہ عنایت صوفی شہید 1656 میں پیدا ہوئے اور 1718 میں وفات پائی آپ کی پیدائش ٹھٹھہ میں ہوئی آپ اپنے دور کے بہت بڑے عالم دین تھے آپ سندھ کے پہلے سوشلسٹ صوفی تھے۔ آپ نے برابری کی بنیاد پر حکمرانوں اور زمین داروں سے حصہ لینا تھا‘ انھوں نے مغل نوابوں سندھ کے وڈیرے اور جاگیرداری نظام کے خلاف مزاحمتی جنگ لڑی اس غیور درویش کو اپنے کتنے ہی ساتھیوں سمیت شہید کیا گیا آپ اپنی زندگی میں اعلیٰ درجے کے شاعر تھے آپ کے مزار پر روایتی مشاعرے آج تک ہوتے ہیں‘ آپ کی آخری آرام گاہ ضلع ٹھٹھہ کے مقام بلوی شریف سے 3 میل کے فاصلے پر جھوک شریف میں ہے۔ آخر میں مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جن شعرا نے کلام پڑھا ان میں فتاح ملک‘ ریحانی روحی‘ فہمیدہ مقبول‘ شہناز رضوی‘ عظیم حیدر سید‘ سیف الرحمن سیفی‘ اوسط علی جعفری‘ سید منیف اشعر‘ شگفتہ شفیق‘ عشرت حبیب‘ حنا علی‘ طاہر سلیم سوز‘ تاج علی رعنا‘ اتش پہیار‘ گل افشاں‘ سیما ناز‘ حمیرا گل تشنہ‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ محمد رفیق مغل‘ غفران احمد غفران‘ الطاف احمد‘ اقبال رضوی‘ ڈاکٹر رحیم ہمروق‘ محمد اسلم بھٹی‘ ڈاکٹر ساجدہ سلطانہ‘ عظمیٰ جون‘ اقبال سہیوانی‘ شبیر نازش‘ اقبال افسر غوری‘ وحید محسن‘ وہاب شورو‘ فرح کلثوم شامل تھے۔

غزل

افشاں سحر

اپنے کردار کو نبھایا ہے
ڈوب کر بھی اُسے بچایا ہے
قید کاٹی ہے یا جلا وطنی
جب بھی میں نے قلم اٹھایا ہے
چھپ کہ بیٹھا تھا دکھ نہ جانے کہاں
اِک ہنسی سے اُسے رلایا ہے
لاپتا ہو گئے ہیں جس کے مکیں
میں نے اِک ایسا گھر بنایا ہے
قتل میرا کیا گیا ہے سحر
ہاں مگر حادثہ بتایا ہے

حصہ