مہرالنساء ، سچی کہانی

476

فارحہ شبنم (کینیڈا)
(پانچویں قسط)
کچھ لمحوں کے بعد اس نے سونیا کو میرے برابر لٹا دیا اور بستر سے اٹھ کر کمرے کی کھڑکی کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا۔ وہ دور کسی غیر مرئی نکتے پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ میں دل ہی دل میں دعائیں پڑھ رہی تھی۔ بالآخر تھوڑی دیر بعد اس کی دھیمی آواز میری سماعت سے ٹکرائی ’’مہرو! کاش تم کچھ اور مانگ لیتیں…کچھ ایسا جو میں تمہیں دے سکتا۔‘‘ اس کی آواز کا درد اور بیچارگی مَیں اپنے دل پر محسوس کرسکتی تھی۔ بچپن سے جس دھرم کو برا سنتا اور جانتا آرہا تھا اس کو پڑھنے اور سچ جاننے کا تصور بھی اُس کے لیے آسان نہ تھا۔ اس کا نتیجہ اس کی اپنی شخصیت، اپنے ماضی، اپنی جڑوں، اپنے خاندان اور اپنے سوشل سرکل سے کٹنے کی شکل میں بھی سامنے آسکتا تھا۔ اس لیے میں جلدی سے بولی :
’’ابھیشک! تم پلیز پریشان نہ ہو، take your time، تم نے میری خواہش پوچھی تھی، تو جو میرے من میں تھا میں نے کہہ دیا۔ ضروری نہیں ہم آج ہی اس پر آخری بات کریں۔ جب تم ریڈی feel کرو گے تو ہم دوبارہ بات کرلیں گے۔‘‘ میں اپنے اندر افسوس محسوس کررہی تھی کہ شاید میں نے صحیح وقت کا انتخاب نہیں کیا اور جلدی کردی۔ لیکن میں اس معاملے کو زیادہ کھینچنا بھی اپنی ازدواجی زندگی کے لیے شرعی لحاظ سے مناسب نہیں سمجھ رہی تھی۔
’’مہرو! میں چاہتا ہوں کہ ہم اس چیپٹر کو یہیں کلوز کردیں۔ تم جو صحیح سمجھ رہی ہو،کررہی ہو اور مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ تمہیں اس کا حق ہے۔ ضرور کرو، مگر میں جیسے زندگی گزارنا چاہوں، مجھے بھی گزارنے دو۔ ہم ایک دوسرے پر اپنی مرضی تھوپے بغیر بھی تو ساتھ چل سکتے ہیں۔‘‘
مجھ سے کچھ بولا نہ گیا، میرے گلے میں آنسوؤں کا پھندا سا لگ گیا اور میں صرف سر اثبات میں ہلا کر رہ گئی۔ اب میرے پاس اپنی دعاؤں میں اضافے کے سوا، کرنے کے لیے اور کچھ نہ بچا تھا۔ اگلے دن ہاسپٹل سے ڈسچارج ہوئی تو باہر موسم بہت دلکش تھا۔ ہاسپٹل کے کوریڈور اور باہر بھی ہر طرف رنگ برنگے پھول خوبصورت ارینجمنٹ میں آنکھوں کو لبھانے کے لیے موجود تھے، مگر میری نظروں کو آج کچھ نہیں بھا رہا تھا۔ دل بہت اداس اور بھاری محسوس ہورہا تھا۔ لگتا تھا کہ دنیا کا سب سے بڑا غم شاید مجھے ہی لگ گیا ہے۔ میں کوشش کررہی تھی کہ ابھیشک کی باتوں کا خوشدلی سے جواب دوں، لیکن ہر بار گلے میں آواز پھنس پھنس جاتی۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے اُس کے مجھ سے محبت کے سارے دعوے جھوٹے تھے اور میں محض ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔
دورہ قرآن کے دوران کئی بار باجی نے صبر اور توکل کی آیات پر تفصیل سے سمجھایا تھا۔ انبیاء کی زندگی سے آزمائش اور اس میں ثابت قدمی کی مثالیں بتائی تھیں، مگر مجھے لگتا تھا کہ میرا ایمان تو بہت ہی کمزور نکلا۔ میں تو آزمائش کے پہلے ہی ہلّے میں ڈھے گئی۔ مجھے تو ابھی بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔ اس دوران مجھے حضرت آسیہ اور ان کے صبر کی بھی بار بار یاد آئی۔ ان کو دیکھو تو اندازہ ہوتا کہ میری مشکل تو کچھ بھی نہیں تھی۔ تاہم اس تمام صورتِ حال میں ایک بات بالکل یقینی سمجھ میں آگئی کہ ابھیشک سے زیادہ ابھی مجھے خود اپنے لیے دعاؤں کی ضرورت ہے۔ ہاسپٹل سے گھر آئی تو میرے منع کرنے کے باوجود کئی دن تک باجی ثمرین اور عاصم بھائی کے گھر سے کھانا پک کر آتا رہا، یہاں تک کہ مجھے ابھیشک کے اصرار پر خود انہیں سختی سے منع کرنا پڑا۔
بعد کے دن بڑے مشکل اور آزمائش سے پُر تھے۔ میں جتنی بھی کوشش کرتی مگر اس سے تعلقات نارمل نہ ہوپاتے۔ ہم دونوں کے درمیان ایک عجیب سی کشیدگی آگئی تھی۔ بات چیت بھی بہت کم اور ضرورت کے تحت ہی ہوتی۔ صورت حال اتنی پرسنل اور پیچیدہ تھی کہ میں کسی سے ڈسکس بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ ڈپریس دکھنے لگا تھا اور آہستہ آہستہ اسموکنگ بھی شروع کردی تھی۔ گھر میں فضا اکثر مکدر سی رہتی۔ البتہ سونیا کی وجہ سے ہم دونوںتھوڑا خوشگوار وقت بھی گزار ہی لیتے۔ وہ اب ہم کو دیکھ کر مسکرانے اور کچھ رسپونس بھی دینے لگ گئی تھی۔ باجی سے کبھی کبھار فون پر بات ہوتی۔ آج کل اُن کے شوہر کی بھی جاب چھوٹی ہوئی تھی، پھر بھی اُن سے بات کرکے کافی حوصلہ بڑھتا۔ انہوں نے مجھے ہفتہ وار درس میں اسکائپ کے ذریعے شامل کرلیا تھا۔ اسی دوران ابھیشک کی جاب بھی ختم ہوگئی۔ پورے Ontario کی ہی مارکیٹ ڈائون جارہی تھی اور بہت سے لوگوں کو lay offکیا جارہا تھا۔ اب وہ اکثر گھر میں ہوتا اور ملازمت کے لیے اپلائی کرتا رہتا۔ اس کی اسموکنگ بڑھ گئی تھی اور اکثر میرا اُس سے جھگڑا ہوجاتا۔ میں اس کو منع کرتی کہ کم از کم گھر میں سگریٹ نہ پیا کرے، مگر وہ کم ہی سنتا تھا۔ میرے لیے یہ اُس کا ایک بالکل مختلف روپ تھا۔ کچھ عرصے بعد اس نے گولڈن ٹیکسی میں ڈرائیونگ شروع کردی تو میں نے سکون کا سانس لیا۔ مگر وہاں بھی حالات کچھ بہت اچھے نہیں چل رہے تھے۔ میں نے اب اسکارف بھی لینا شروع کردیا تھا۔ اُس نے ایک آدھ دفعہ ناگواری کا اظہار کیا لیکن ہمارا ایک ساتھ بہت زیادہ باہر نکلنا نہ ہوتا تھا، اس لیے زیادہ مشکل نہ ہوئی۔ کھانے پینے میں بھی زیادہ دقت کا سامنا نہ ہوا کیونکہ ہم دونوں ہی ترکاریاں شوق سے کھاتے تھے۔
(جاری ہے)

حصہ