جانوروں پر شفقت

451

خدیجہ عبدالرزاق
اکرم ایک غریب آدمی تھا اور گدھا گاڑی چلاتا تھا۔ وہ گدھا گاڑی پر لوگوں کا سامان لاد کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتا تھا اور اس سے ہونے والی آمدنی سے اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔ وہ غریب ہونے کے باوجود ایک ظالم انسان تھا۔اسے جانوروں سے کوئی ہمدردی نہ تھی، وہ اپنے گدھے کے ساتھ بہت برا سلوک کرتا تھا، اس سے کام زیادہ لیتا اور کھانا کم دیتا تھا، جس کی وجہ سے اس کا گدھا بہت بیمار رہتا تھا مگر اکرم کو اس سے کوئی دلچسپی نہ تھی کہ گدھا بیمار ہے یا تندرست، وہ صبح سویرے گدھے کو گاڑی میں باندھتا اور سارا دن کام کے سلسلے میں ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جاتا رہتا۔ خود تو دوپہر کو پیٹ بھر کر کھانا کھاتا مگر گدھے کی خوراک کا کوئی خاص خیال نہیں رکھتا تھا۔ کم خوراک کی وجہ سے اس کا گدھا دن بہ دن کمزور ہوتا جارہا تھا مگر اسے کوئی پروا نہ تھی۔
آخرکار ایک دن گدھا اتنا بیمار ہوگیا کہ اس سے اٹھا بھی نہ گیا اور وہ زمین پر گر گیا۔ اکرم کو گدھے پر بڑا غصہ آیا، اس نے گدھے کو خوب مارا مگرگدھے میں اتنی ہمت ہی نہیں تھی کہ وہ کھڑا ہوسکے۔ اکرم تھک کر چلا گیا تاکہ دوست سے گدھا گاڑی لے کر کام پر جایا جائے۔
شام کو جب اکرم کام سے واپس آیا تو اس کی بیوی نے بتایا کہ گدھا مرچکا ہے۔ اکرم کو اس پر افسوس نہ ہوا کیونکہ وہ تو پہلے ہی اس سے جان چھڑانا چاہتا تھا۔ وہ اس کے کسی کام کا نہیں رہا تھا، اسی لیے اکرم کو کوئی پروا نہ تھی۔
دوسرے دن اکرم نے اپنے دوست سے پیسے ادھار لیے اور نیا گدھا خرید لایا۔ اس گدھے کے ساتھ بھی اکرم نے وہی سلوک روا رکھا۔ اکرم کی بیوی اسے سمجھاتی کہ وہ ایسا نہ کرے کیونکہ اسی گدھے کی وجہ سے تو وہ سارا دن روزی کماتا ہے اور اسے اس کا خاص خیال رکھنا چاہئے، نا کہ اس کے ساتھ برا سلوک کرے مگر اکرم اس بات کو کوئی اہمیت نہ دیتا تھا۔ ایک دن اکرم گدھے کو لے کر صبح صبح کام پر چلا گیا۔ اس نے گدھے کو چارہ بھی کھانے نہیں دیا تھا، اس لیے گدھے کو بہت بھوک لگی تھی مگر اکرم نے اس بات کو اہمیت نہ دی کہ گدھا بھوکا ہے۔ اکرم گدھے کو لے کر ادھر سے ادھر جاتا رہا، یونہی دوپہر ہوگئی، اب اکرم کو بھوک نے ستایا تو وہ ایک ہوٹل میں چلا گیا اور خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا مگر گدھے کو کوکچھ نہ دیا۔ اکرم نے سوچا کہ کچھ ہی دیر بعد گھر توچلے جانا ہے ،اس لیے گھر جاکر ہی اسے کھانا دے گا مگر اکرم کو یہ علم نہ تھا کہ گدھا کم خوراک کی وجہ سے کمزور ہوچکا ہے۔ اکرم گھر کے لیے روانہ ہوگیا۔ راستے میں گدھا آہستہ آہستہ چل رہا تھا مگر اکرم کو اس پر بھی غصہ آیا کہ گدھا آہستہ کیوں چل رہا ہے، اس نے گدھے کو مارنا شروع کردیا مگر گدھا پھر بھی آہستہ چلتا رہا۔ اکرم نے غصہ میں آکر گدھے کو اتنا مارا کہ اس کی ایک ٹانگ توڑ دی اور یوں یہ گدھا بھی اکرم کے لیے بے کار ہوگیا۔
اب اکرم نے اپنے ایک اور دوست سے ایک اور گدھا خریدا۔ اب ہونا تو یہ چاہئے کہ اکرم اس نئے گدھے کا خاص خیال رکھتا اور اسے وقت پر دانہ پانی دیتا مگر اکرم نے اس گدھے کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا، جو باقی دونوں گدھوں کے ساتھ کیا تھا۔ اکرم نے اسے بھی خوب مارا اور اس کے جسم پر بڑے بڑے زخم ڈال دیئے، ان زخموں پر سارا دن مکھیاں بھنبھناتی رہتیں اور اکرم ان پر مرہم بھی نہ لگاتا اور اس طرح تیسرا گدھا بھی اکرم کی وجہ سے موت کے منہ میں چلا گیا۔
اب اکرم چوتھا گدھا خریدنے کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اچانک خود بیمار پڑگیا، اتنا بیمار ہوا کہ اس سے اٹھ کر چلا بھی نہیں جاتا تھا۔ اکرم کا بہت علاج کیا گیا مگر اسے کوئی آرام نہ آیا۔ اس کو اب سمجھ آئی کہ آدمی پر خود گزرتی ہے تو تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔اکرم اب خود محتاج تھاتووہ بیوی بچوں کو کس طرح کما کردیتا۔ اکرم سمجھ چکا تھا کہ یہ اس کے مظالم کی سزا ہے۔ اس نے توبہ کی کہ آئندہ وہ اپنے گدھوں کا خوب خیال رکھے گا۔ وہ چونکہ خود بیمار ہوچکا تھا، اس لیے جان چکا تھا کہ ان کی بیماری میں کیا حالت ہوئی ہوگی، جب وہ خود اس کے محتاج تھے اور اکرم الٹا انہیں مارتا پیٹتا تھا۔
پیارے بچو! ہمیں چاہئے کہ اپنے گھر میں موجود جانوروں کا خاص خیال رکھیں کیونکہ وہ ہمارے محتاج ہوتے ہیں اور ہم سے کچھ مانگ نہیں سکتے۔ ہم پر فرض ہے کہ ان کے کھانے پینے کا خیال رکھیں اگر ہم نے ان کا خیال نہ رکھااور اکرم کی طرح ان پر ظلم کیا تو ہمیں اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دینا ہو گا۔

حصہ