آبی قتل

398

ارشد ابرار ارش
میری آنکھ پیاس لگنے کی وجہ سے ہی کھلی تھی، اور پیاس بھی ایسی جیسے برسوں سے صحراؤں اور دشت کا بھٹکا ہوا مسافر پانی کو ترسا ہوتا ہے، گویا اس کے لیے پانی ہی زندگی کی آخری امید ہو۔ میرا گلا بھی مجھے صحرائی ریت کی طرح خشک محسوس ہورہا تھا، گویا نمی نام کو بھی نہ ہو۔ تبھی میں حواس باختہ شخص کی طرح اپنی چارپائی پر اٹھ کے اپنا گلا مسلنے لگا۔ مجھے اپنے حلق میں کانٹے سے چبھتے محسوس ہونے لگے۔ میں پانی پینے کے لیے جلدی سے اٹھ کے گھڑونچی کی طرف بھاگا، مگر گھڑے کو الٹا کرنے پر بھی گلاس میں پانی کا ایک قطرہ تک نہ ٹپکا۔ گھڑے کے اندر جھانک کے دیکھا تو وہ اندر سے اپنے پیندے تک ایسے خشک پڑا تھا جیسے اس گھڑے کی برسوں سے پانی کی ایک بوند سے بھی ملاقات نہ ہوپائی ہو۔ لمبی سی گھڑونچی پر رکھے ہوئے دوسرے اور تیسرے گھڑے کو بھی میں نے الٹا ڈالا، مگر اگلا پل مجھے حیرت میں ڈالنے کے لیے کافی تھا کیونکہ گھڑونچی پر رکھے تینوں گھڑے اپنے پیندوں تک سوکھے پڑے تھے۔
وہیں گھڑونچی کے پاس کھڑے مجھے اپنی دماغی حالت پر شبہ سا ہونے لگا۔ میں کتنے عرصے بعد نیند سے جاگا ہوں؟ یا پھر گھر میں کتنے دنوں سے پانی بھرنے کی زحمت نہیں کی گئی تھی…؟
دیوار کے سائے میں چارپائی رکھے، منے کو اپنی گود میں اٹھائے اماں کی طرف جب میں نے مدد طلب نظروں سے دیکھا تو ان کی نگاہوں میں بھی مجھے وہی خالی پن نظر آیا جو کچھ لمحے پہلے میں تینوں گھڑوں میں ملاحظہ کرچکا تھا۔ اماں کی آنکھیں بھی خالی اور قحط زدہ سی محسوس ہورہی تھیں اور ان کی گود پر قبضہ جمائے بیٹھا منا بھوک اور پیاس سے ’’بھیں بھیں‘‘ کے جانے کون سے راگ کے ریاض میں مصروف تھا۔
’’اماں… پانی‘‘۔ باوجود کوشش کے میں اپنے خشک گلے سے بمشکل یہی دو لفظ نکال پانے میں کامیاب ہوسکا۔ گلاس ابھی تک میرے دائیں ہاتھ میں پھنسا ہوا تھا۔
’’بیٹا ملک میں پانی ختم ہوگیا ہے۔ جتنے ذخیرے تھے سب استعمال ہوگئے، ہمسایوں نے بھی پانی پر بند باندھ دیئے ہیں۔ اب کہیں بھی پانی کی بوند تک باقی نہیں رہی‘‘۔ خالی آنکھوں والی میری ماں نے جانے کتنی طاقت لگا کے میری سماعتوں پر بم پھوڑا۔ گلاس پر میری گرفت ڈھیلی پڑنے لگی۔ تھوک نگل کر میں نے اپنا حلق تر کرنے کی کوشش کی، مگر پیاس اتنی تھی کہ میرا تھوک بھی سوکھ چکا تھا اور میں اپنا حلق تر کرنے میں ناکام ہی رہا۔
’’جاؤ پتر… کہیں سے پانی ڈھونڈ کے لاؤ، ورنہ اب منا پیاس کی شدت سے بے ہوش ہونے کو ہے‘‘۔ مزید دیر کیے بغیر میں بالٹی اٹھا کے باہر نکل آیا۔
اپنے غریب محلے کی تنگ و تاریک گلیوں سے گزر کر میرا رخ اب مرکزی سڑک پر بنے ہوئے پانی کے پلانٹ کی طرف تھا۔
ہمارا چھوٹا سا گھر اندرون راولپنڈی کے ایک چھوٹے سے محلے میں واقع تھا جہاں زیادہ تر غریب طبقے نے اپنے سر چھپانے کو آڑھے ترچھے ٹھکانے بنا رکھے تھے۔ اپنے محلے کی تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے مجھے آج خلافِ معمول عجیب سی افراتفری نظر آنے لگی۔
یہ سب میرے شناسا چہرے تھے جو اب بالٹیاں، بوتلیں اور پانی جمع رکھنے کے دوسرے برتن اٹھائے افراتفری میں بھاگے بھاگے پھر رہے تھے۔ گویا پانی کی قلت کا سامنا صرف میرے گھر کو نہیں، بلکہ سب کا یہی حال تھا۔ اماں کی بات پھر سے میرے کانوں میں گونجنے لگی۔
واٹر پلانٹ پر لوگوں کا ایک جم غفیر تھا، وہاں مال گاڑی کے ڈبوں کی طرح لوگوں کی ایک لمبی اور بے ہنگم لائن سی بنی ہوئی تھی۔ اور باقی لوگ بھاگ بھاگ کر اس لائن کی طوالت میں مزید اضافہ کررہے تھے۔ سبھی عجیب سی ہیجان آمیز کیفیت میں مبتلا تھے۔ لوگ ایک دوسرے سے لڑ جھگڑ کر اور دھکوں کی مدد سے نل کے قریب تر پہنچنے کی تگ و دو میں مصروف تھے۔ جیسے آفت زدہ ملک میں خوراک بانٹے جانے پر سب ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے ہیں وہی حالت اب میں اپنی آنکھوں سے اس واٹر پلانٹ پر دیکھ رہا تھا۔
مگر اگلے ہی پل ایک اور بری خبر ہم سب کی منتظر تھی۔
سب سے آگے پہنچے ہوئے خوش نصیب نے گلا پھاڑ کر اعلان کیا کہ واٹر ٹینک میں بھی اب پانی کی بوند تک باقی نہیں ہے۔ اس خبر نے نشر ہوتے ہی لوگوں میں دھکم پیل اور چیخ و پکار میں کئی گنا اضافہ کردیا۔ مجھے اس اعلان پر سازش کا شبہ ہونے لگا کہ کہیں کسی منصوبہ ساز ذہن نے لوگوں کی اس دھکم پیل کو کم کرنے کے لیے جھوٹ نہ بولا ہو۔ مگر اگلے کچھ لمحوں میں مجھے اپنے شک کو جھٹلانا پڑا کیونکہ واٹر ٹینک واقعی خالی ہوچکا تھا۔ وہ اعلان تھا یا کوئی صور پھونکا گیا تھا کہ آدھے سے زیادہ لوگوں نے وہیں ٹینک کے آس پاس بیٹھ کے رونا شروع کردیا۔ ملک میں پانی کا قحط ضرور پڑا تھا مگر ملک کے باشندوں کی آنکھوں میں آنسوئوں کی اب بھی فراوانی تھی۔
’’یہاں بیٹھ کے رونے اور آنسو ضائع کرنے سے پانی نہیں ملنے والا‘‘۔ یہی سوچ میرا رخ تبدیل کرنے کا سبب بنی۔ ٹانگیں میرے بے جان وجود کا بوجھ اٹھائے مجھے بے سمت گھمانے لگیں۔ میرے بائیں ہاتھ نے اب بھی بالٹی کو مضبوطی سے جکڑ رکھا تھا۔
ہر گزرتے لمحے کے ساتھ میری حیرتوں میں بھی اضافہ ہونے لگا، اور اپنے شہر کی ویرانی کو دیکھتے ہوئے میری دل اور آنکھوں کی ویرانی بھی بڑھنے لگی۔ فٹ پاتھ کے کناروں پر پہلے جہاں سبز گھاس کا مخملیں قالین بچھا ہوتا تھا اب وہاں زرد پڑتی گھاس کے چند ایک تنکے رہ گئے تھے۔ پارکوں کی ہریالی مفقود تھی، اور ٹنڈ منڈ درختوں کو دیکھتے ہی میرا دل کچھ اس طرح پھڑپھڑا کر بجھ گیا جیسے تیز ہوا میں باہر رکھے کسی دیئے کی لو پھڑپھڑانے کے بعد بجھ جاتی ہے۔ املتاس کے درختوں نے اپنے پیلے پھول گرا دیئے تھے، صنوبر کے اونچے درختوں نے بھی اپنے سبز پتوں کے لباس اتارکے اپنی ٹہنیوں کو برہنہ کردیا تھا، اور مقامِ حیرت تو یہ تھا کہ ہر طرف نگاہیں گھمانے کے بعد بھی مجھے کوئی ایک پرندہ تک کہیں نظر نہ آیا، نہ ہی اونچے اونچے درختوں کی برہنہ ٹہنیوں پر اور نہ ہی اونچے لمبے بجلی کے کھمبوں کے تاروں پر۔
اپنے شہر کی یہ حالت اور ویرانی دیکھ کر مجھے حقیقتاً دشت کا خیال آنے لگا۔ اس ویرانی سے میرا دل ایسا ڈوبا کہ میں اپنی پیاس تک بھول گیا۔ اپنے ہاتھوں میں بالٹی پکڑے میں یہ تک بھول گیا کہ گھر سے مجھے کس مقصد کے لیے بھیجا گیا تھا اور اماں کی گود میں روتا منا کس لیے بھیں بھیں کی بین بجا رہا تھا۔
اب شہر کا بارونق حصہ شروع ہوچکا تھا۔ یہاں زندگی اب بھی اسی رفتار سے رواں دواں تھی۔ دھواں چھوڑتی اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوششوں میں گاڑیاں شہر کی فضاء کے بوجھل پن میں مزید اضافہ کررہی تھیں۔ میری آنکھوں کے سامنے اب میٹرو بس کا اونچے ستونوں پر اٹھایا گیا فلائی اوور تھا جس کے مضبوط اور موٹے موٹے ستون زمین کے سینے میں اندر تک اترے ہوئے تھے۔
کچھ نوجوان لڑکے شہر بھر میں پانی کے قحط سے بے خبر پل کے نیچے دائرہ بنائے تاش کی بازی سجائے بیٹھے تھے۔ ان کی بے خبری اور لاپروائی مجھے ہولانے لگی۔ جب شہر کا شہر پانی کے لیے مرا جا رہا ہے، یہ نوجوان کس طرح کان کی بالی اتارے بے فکری سے تاش کے پتے بکھیرے بیٹھے ہیں؟
تھوڑے فاصلے پر بنی سنگی بینچ پر ایک بھکارن کا بچہ نیم مُردہ حالت میں بے ہوش پڑا تھا اور وہ بھکارن اپنے دوپٹے کا کونا منہ سے تر کرکے بچے کے چہرے، آنکھوں اور لبوں پر تھپک رہی تھی۔ میرے بس میں نہیں تھا کہ اپنے بچے کے لیے تڑپتی بے بس بھکارن کی ممتا پر قربان ہوجاؤں۔ خدا جانے سارے ملک کا پانی یوں اچانک ایک دم سے کیسے ختم ہوگیا! ایسا آبی قحط پہلے تو کبھی نہ آیا تھا۔
میرے دماغ میں ماسٹر صاحب کے جملے ہتھوڑے کی طرح برسنے لگے، وہ کہتے تھے ’’بہت جلد ایک بڑی لڑائی ہو گی۔ یہ لڑائی پانی کے حصول کے لیے لڑی جائے گی، تب زندگی مفلوج ہوجائے گی، یہ لڑائی قیامتِ صغریٰ کا منظر برپا کردے گی۔ اس وقت کو آنے سے پہلے روکنے کی تدبیریں کرلو۔‘‘
کیا پانی کے لیے اب لڑائی کا وقت آپہنچا تھا؟ اور کیا پھر ماسٹر صاحب کے مطابق ایک قیامت ہمارے انتظار میں ہے؟ میرے دل کو یہ سب سوچتے ہی ایک کپکپی سی لگ گئی، بجلی کا ایک کوندا سا میرے پورے وجود میں دوڑ گیا۔ مجھے اپنے دل کی دھڑکن خزاں میں پاؤں تلے روندے جانے والے پتوں کی ہولناک کھڑکھڑاہٹ کی طرح سنائی دینے لگی۔
اس سنگی بینچ پر بیٹھی مجبور و لاچار ماں سے تھوڑے فاصلے پر ایک لاغر کتا پیاس سے تڑپتا اپنی سرخ زبان نکالے زمین پر پڑا تیز تیز سانس لے رہا تھا۔ کتے میں اپنی ٹانگوں پر کھڑے ہونے کی طاقت باقی نہیں تھی۔ وہ اپنی زندگی کی آخری سانسوں کی گنتی کررہا تھا۔ میں ابھی کتے پر نظریں جمائے کھڑا تھا کہ میرے سر کے اوپر اٹھائے گئے پل پر سے لال رنگ کی بڑی سی میٹرو بس زن سے گزر گئی۔
بھکارن نے امید بھری نظروں سے پہلے اوپر اور پھر اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کردیا، مگر اُسے پانی کی بوند تک کہیں نظر نہیں آئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ دیوانہ وار ایک سمت میں بھاگی اور زمین پر ایک چھوٹے سے گڑھے نما نشیب میں جمع پانی میں اپنا دوپٹہ بھگونے لگی۔ مجھے اگلا منظر دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ میں جانتا تھا ایک ماں اپنی اولاد کو زندگی دینے کے لیے اپنی سانسیں تک گروی رکھ سکتی ہے۔
اس منظر کو دیکھنے سے بچنے کے لیے میں نے وہاں سے آگے کی طرف قدم بڑھا دیئے۔ اگلے دو ستون چھوڑ کے تیسرے ستون کی چھاؤں تلے ایک مجمع لگا نظر آیا۔ میرا تجسس اور اشتیاق میرے قدموں کو اُس مجمع کی جانب کھینچنے میں کامیاب ہوگیا۔ عوام کی حالت یہاں بھی واٹر پلانٹ والے منظر سے مختلف نہ تھی، مگر یہاں سب لوگ اپنے اپنے پانی کے برتن پکڑے منظم انداز میں بیٹھے ایک بابے کو خاموشی سے سن رہے تھے۔ نحیف بوڑھا اپنے خشک اور سوکھے لبوں پر زبان پھیرتا ان لوگوں سے مخاطب تھا۔ میں بھی اپنی بالٹی تھامے ایک نوجوان کے ساتھ جگہ بنانے میں کامیاب ہو ہی گیا۔
’’لوگو! ہماری اس حالت کا ذمے دار کوئی اور دشمن نہیں بلکہ ہم خود ہیں۔ ہم سب اپنی ذمے داریوں سے غفلت برتتے رہے ہیں۔ ہم نے اپنا اور آگے آنے والی اپنی نسلوں کا نہیں سوچا۔ کسی نے نہیں سوچا کہ جب ہمارے پاس پانی کی ایک بوند تک باقی نہ رہے گی تب مدد کے لیے کس کے در پر دستک دیں گے؟ کس کے آگے ہاتھ پھیلائیں گے؟ کس سے اپنی سوالی آنکھوں کے ساتھ کہیں گے کہ ہمیں دو بوند پانی ادھار دے دو؟‘‘
لوگ سکتے کی سی کیفیت میں بیٹھے سن رہے تھے۔ بوڑھا اب اپنی پسلیاں پکڑے ہانپ رہا تھا، اس کے سوکھے لبوں پر پیاس سے ایک پپڑی سی جم چکی تھی۔ کچھ لمحے وقفہ لے کر وہ ایک بار پھر عوام سے مخاطب ہوا:
’’بارشیں برستی رہیں، سیلاب آتے رہے، پہاڑوں کی برف پوش چوٹیاں پگھلتی رہیں۔ ہم پانی ضائع کرتے رہے، ہمیں کبھی خیال نہ آیا کہ آنے والے وقت کے لیے اس پانی کو محفوظ کرلیا جائے، اور نہ ہی ہمارے منتخب کیے گئے چند راہبروں کو خیال آیا کہ مستقبل کے لیے پانی کو ذخیرہ کرلینا چاہیے۔ ہم نے خوشی خوشی ان چند ناکارہ لوگوں کو اپنی باگ تھما دی، اور نتیجتاً اب ہماری دوڑیں لگی ہوئی ہیں۔
دوستو! جان رکھو کہ یہ سب ہمارے اپنے اعمال اور گناہوں کا نتیجہ ہے جو ہم پر ایسے ناکارہ لوگ مسلط کیے گئے ہیں۔ یہ میری بات نہیں بلکہ بڑے مالک کا فرمان ہے۔ لوگو! اپنا محاسبہ کرو، جھانکو اپنے گریبانوں میں، اپنے سامنے آئینے رکھو اور پوچھو خود سے کہ کیا یہ سب ہمارے اپنے اعمال نہیں ہیں جو آج ہم سب کے سامنے یوں آکھڑے ہوئے ہیں…؟‘‘
بوڑھا واعظ اب تھک کر بیٹھ چکا تھا۔ پیاس سے بلکتے لوگ اپنے گریبانوں کے بجائے اپنی بغلیں جھانکنے لگے۔ وہاں موجود لوگوں میں ہونے والی چہ میگوئیاں مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی شکل اختیار کرنے لگیں۔
بوڑھا اپنی پسلیاں پکڑے، خشک لبوں کو زبان سے تر کرتا ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ تھوڑی دیر پہلے اٹھنے والی مکھیوں کی بھنبھناہٹ پر لوگوں نے خاموشی کی چادر پھیلا دی ۔ لوگوں نے اپنے لب سی کر چپ کی مہر کچھ ایسے لگا لی جیسے وہاں موجود ہر بندے کو سانپ سونگھ گیا ہو۔
’’پرندوں نے اپنے گھونسلے چھوڑ کر ٹھکانے بدل لیے، وہ تمہارے ملک سے ہجرت کرکے چلے گئے ہیں۔ اب تمہارے مویشی پیاس کی شدت سے اپنی رسیاں توڑ کر پانی کی تلاش میں بھاگ جائیں گے۔ تم سب کہاں جاؤ گے؟ کون پناہ دے گا تم سب کو؟ کوئی نہیں۔ جان رکھو کہ تمہارے لیے کوئی ایک در بھی وا نہیں ہوگا۔
اب پھر جنگ ہوگی، گھمسان کا رن پڑے گا۔ اب تیسری اور تمہاری زندگیوں کی آخری جنگ ہوگی۔
جاؤ چلے جاؤ یہاں سے۔ جاؤ پانی ڈھونڈو، پانی جمع کرو، پانی کے ذخیرے بناؤ… اپنے لیے، اپنے بچوں کے لیے، اپنی آنے والی نسلوں کے لیے…‘‘
بوڑھے نے تھک کر ایک بار پھر ہانپنا شروع کردیا تھا۔ لوگوں پر واعظ کا اب بھی کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ وہ سب اب بھی اسی حالت میں اپنے پانی کے کشکول پکڑے مجسمے بنے بیٹھے تھے۔
بے حس عوام پر اپنے واعظ کا کوئی اثر نہ دیکھ کر بوڑھا افسوس سے اپنا سر ہلاتا پیٹھ موڑے آہستہ قدموں سے مخالف سمت کو بڑھنے لگا۔
میری نگاہیں اس نحیف بوڑھے کی پشت کو گھور رہی تھیں۔ مجھے بوڑھے کی پیٹھ پر ایک اسکرین سی بنی دکھائی دینے لگی۔ اسکرین پر اب وہی مناظر دکھائے جا رہے تھے جن کی پیش گوئی بوڑھا تھوڑی دیر پہلے کر کے گیا تھا۔
اسکرین پر مجھے اپنے اور ہمسایہ ملک کے تباہ حال شہر اور جلے کٹے، چیخ و پکار کرتے لوگ دکھائی دینے لگے۔ ایک چھوٹی سی قیامت برپا تھی۔ اور میں خود زخمی حالت میں دیوانہ وار اپنے تباہ حال شہر کے باسیوں کی جلی کٹی لاشوں کے ڈھیر میں اپنی ماں اور پیاس سے بلکتے منے کو تلاش کررہا تھا۔

حصہ