صبر اور شکر کا پھل

434

بشریٰ طاہر
کسی گائوںمیں ایک لکڑہارا کریم رہتا تھا، جو بہت محنتی اور ایماندار تھا۔ اس کی ایمانداری کی لوگ مثالیں دیا کرتے تھے۔ ایک روز کریم درخت سے لکڑی کاٹ کر لارہا تھا کہ راستے میں اسے ایک معزز آدمی ملا، اس نے لکڑہارے سے پوچھا۔ ’’بتائو تم کو کس چیز کی پریشانی ہے؟‘‘
اس نے کہا۔’’ جناب! میرا گزارا ان چند لکڑیوں کو بیچ کر نہیں ہوتا، جن کو میں اپنی محنت سے کاٹ کر لاتا ہوں اور ایمانداری سے فروخت کردیتا ہوں۔‘‘
امیر آدمی نے اس لکڑہارے کو ایک موتی دیا اور کہا کہ اس کو بیچ کر اپنی ضرورت پوری کرلو۔
کریم بڑا خوش ہوا، گھر کے راستے میں ایک دریا پڑتا تھا۔ کریم دریا کے کنارے آیا اور پانی پینے لگا تو اس کا موتی دریا میں گرگیا۔ کریم نے لاکھ چاہا کہ موتی مل جائے مگر وہ نہ ملا۔ وہ پریشان ہوکر گھر گیا اور اپنی بیوی کو یہ داستان سنائی تو اسے بھی بہت افسوس ہوا۔
دوسرے روز لکڑہارا لکڑیاں کاٹنے جارہا تھا کہ اسے وہ امیر آدمی پھر ملا اور اسے پریشان دیکھ کر کہا۔ ’’ میں نے تم کو جو کل موتی دیا تھا ،وہ کہاں ہے۔ تم نے اس موتی کو بیچا نہیں؟‘‘
لکڑہارے نے کہا۔ ’’جناب! وہ موتی تو دریا میں گرگیا۔‘‘
اس نیک دل آدمی نے کریم کو ایک لال رنگ کی تھیلی دی، جس میں ایک بیش قیمت موتی تھا اور کہا کہ اس موتی کو احتیاط سے رکھنا، لکڑہارا بہت خوش ہوا اور اس نے جنگل کا رخ کیا۔ جنگل میں وہ اپنی چیزیں اور وہ تھیلی، جو امیر آدمی نے دی تھی زمین پر رکھ کر لکڑیاں کاٹ رہا تھا کہ ایک چیل آئی اور اس تھیلی کوجھپٹ کر لے گئی، جس میں موتی تھا۔ لکڑہارا بہت غمزدہ ہوا اور گھر چلاگیا، اس نے اپنی بیوی کو یہ بات بتائی تو اس کی بیوی کو بھی بہت رنج ہوا۔
ایک بار پھر کریم جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لارہا تھا کہ وہ نیک بخت آدمی اسے راستے میں پھر ملا اور اس نے موتیوں کے بارے میں دریافت کیا، بدنصیب لکڑہارے نے سارا واقعہ کہہ سنایا۔
نیک دل آدمی نے کچھ دیر سوچنے کے بعد فیصلہ کیا کہ اس بدنصیب لکڑہارے کو ایک موقع اور دیا جائے۔ نیک دل آدمی نے کریم کو ایک موتی اور دیا اور کہا کہ اس موتی کو اپنے گھر میں لکڑی کے چولہے کے نیچے رکھ دینا چنانچہ کریم نے ایسا ہی کیا۔ اس کی بیوی نے کہا۔’’ برسات کا موسم ہے، کہیں بارش نہ ہوجائے ،آپ لکڑیاں اور کھانے کیلیے مچھلی بھی لے آئیں۔ ‘‘لکڑہارا لکڑیاں لینے چلا گیا۔ اس کی بیوی گھر میں کام کررہی تھی کہ پڑوس میں سے ایک عورت آئی اس نے کہا۔ ’’بہن مجھے چولہے میں سے جلی ہوئی راکھ دے دو۔‘‘
لکڑہارے کی بیوی نے کہا۔ ’’میں برتن دھورہی ہوں ،تم خود ہی راکھ لے لو۔‘‘
وہ عورت جلی ہوئی راکھ لے رہی تھی کہ اس کی نظر اس موتی پر پڑی، اس عورت نے وہ موتی اٹھالیا اور اس برتن میں ڈال دیا، جس میں وہ جلی ہوئی راکھ لینے آئی تھی اور اس موتی کو لے کر وہ اپنے گھر چلی گئی۔ پڑوسن عورت کی نیت بہت خراب تھی مگر اس کا بیٹا بہت نیک اور ایماندار تھا۔
تھوڑی دیر بعد کریم لکڑیاں اور مچھلی لے کر گھر آیا تو اس کی نظر چولہے پر پڑی۔ اس کو خیال آیا کہ اس موتی کو دیکھ لیا جائے، جو اس امیر آدمی نے دیا تھا، اس نے لکڑی کے چولہے کے پاس جاکر دیکھا تو وہاں وہ موتی نہیں تھا، اب تو کریم بہت پریشان ہوا، اس نے اس بیش قیمت موتی کو بہت ڈھونڈا مگر وہ نہ ملا۔ رات ہوگئی اور دونوں میاں بیوی سوگئے۔ صبح ہوئی تو پڑوسن کے گھر سے اس کی اور اس کے بیٹے کی کسی معاملے پر جھگڑنے کی آواز آنے لگی۔ کافی دیر بعد وہ عورت اور اس کا بیٹا لکڑہارے کے گھر آئے اور معذرت کے ساتھ موتی اس کو دے دیا، جو اس کی ماں لے کر گئی تھی۔اب لکڑہارے نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ مچھلی جو میں کل لے کر آیا تھا، پریشانی کی وجہ سے کھانا نہیں کھایا تھا ،اس کو کاٹ کر پکالو۔ لکڑہارے کی بیوی نے مچھلی کا پیٹ چاک کیا تو وہ موتی جو دریا میں گرا تھا، وہ اس مچھلی کے پیٹ میں سے نکلا، لکڑیاں ختم ہوگئی تھیں چنانچہ جب کریم لکڑیاں لینے جنگل گیا تو جس درخت سے وہ لکڑیاں کاٹ رہا تھا، اس کے اوپر ایک چیل کا گھونسلہ تھا، جب اس نے درخت کو کاٹا تو اس گھونسلے میں سے ایک لال تھیلی گری، اس میں وہی موتی تھا، جو اس نیک آدمی نے دیا تھا۔ اس دن اس غریب لکڑہارے کریم کے دن پھرگئے اور وہ امیر آدمی بن گیا۔

مسکرائیے

٭ استاد ’’بچوں یہ بتائو تارے دن میں کیوں نظر نہیں آتے‘‘۔
ایک شاگرد: ’’سر انہیں اپنی طات کا اندازہ ہے وہ سورج کے راستے میں ٹانگ اڑانا نہیں چاہتے۔
٭٭٭
٭ استاد (شاگرد سے) ٹیبل یاد کرلیے؟
شاگرد: جی سر
استاد: سنائو
شاگرد: ڈریسنگ ٹیبل، ڈائنگ ٹیبل، ٹائم ٹیبل، ٹیبل ٹینس
٭٭٭
٭ ایک شخص ڈاکٹر کے پاس گیا اور کہا۔
ڈاکٹر صاحب میرا حافظہ بہت کمزور ہو گیا ہے کوئی بھی بات یاد نہیں رہتی۔
ڈاکٹر: تمہیں یہ شکایت کب سے ہے۔
مریض کون سی شکایت
٭٭٭
٭ استاد (شاگرد سے) لفظ سر کار پر جملہ بنائو۔
شاگرد: میرے سرکار چلا رہے ہیں۔
٭٭٭
٭ بڑا بھائی (چھوٹے بھائی سے) واچ مین کسے کہتے ہیں
چھوٹا بھائی: گھڑی بیچنے والے کو

حصہ