اچھی نیت کا پھل

882

عفان احمد
شہر سے دور ایک چھوٹا مگر انتہائی خوب صورت گائوں جس کے باشندوں کا ذریعہ معاش صرف اور صرف کھیتی باڑی تھا۔گائوں کی آبادی زیادہ نہیں تھی چالیس سے پچاس گھرانوں پر مشتمل یہ گائوں خوب صورتی اور امن کے لحاظ سے ایک نمونہ تھا اس گائوں کے ایک رہائشی عبدالرحیم جس کے پاس زراعت کے لیے ایک چھوٹا سا زمین کا ٹکڑا تھا جس پر کاشت کرکے وہ اپنی زندگی گزار رہا تھا۔ کچھ دنوں سے وہ خاصا پریشان تھا اس کا بیٹا فہیم اسکول میں پڑھنے سے ضد کر رہا تھا اسکول گائوں سے ایک گھنٹے کی مسافت پر تھا درمیان میں کئی گائوں آتے تھے اور تعلیمی اخراجات پورا کرنے کے لیے اس کے وسائل نہیں تھے ابتدائی دینی تعلیم تو فہیم کو مسجد کے مدرسے میں دلوا دی تھی مدرسے میں تعلیم کے دوران ہی مولوی صاحب کی گفتگو سے اسے پڑھنے کا شوق پیدا ہوا تھا اس کے لیے وہ اب اپنے باپ سے ضد کر رہا تھا عبدالرحیم کی پریشانی یہ تھی کہ وہ فہیم کی خواہش جو کہ اب ضد میں تبدیل ہو چکی تھی جائز سمجھتا تھا لیکن وسائل کہاں سے لاتا وہ چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا ہی نہیں بلکہ گائوں کا ہر بچہ علم حاصل کرے اسی فکر میں وہ اپنی زمین میں ہل چلا رہا تھا اس کے ہل سے کوئی چیز ٹکرائی اس جگہ کو عبدالرحیم نے مزید کھودا تو وہ ایک صندوق نکلا اس کو کھولا تو اس میں بڑی تعداد میں سونے کے سکھے تھے عبدالرحیم لالچی اور حریص نہیں تھا مگر ضرورت مند ضرور تھا اس نے صندوق اپنے گھر میں رکھنے کے بعد سوچا کہ نہ کس کا ہو سکتا ہے اور میری زمیں میں کہاں سے آیا گائوں کے کسی فرد کا تو ہو نہیں سکتا کیونکہ یہاں کوئی بھی اس حیثیت کا مالک نہیں عبدالرحیم نے اسے قدرت کا عطیہ سمجھتے ہوئے رکھ لیا اور اس عہد کے ساتھ کہ اس کو اجتماعی فلاح کے کام پر خرچ کروں گا کیونکہ فقدرت کے اس تحفے پر صرف میرا ہی حق نہیں میرے گائوں کے سب لوگوں کو اس سے فائدہ ہونا چاہیے عبدالرحیم نے پہلے تو اپنے بیٹے کو تعلیم کے لیے قریبی شہر کے ایک اچھے اسکول میں داخل کرایا تاکہ وہ زیور تعلیم سے آراستہ ہو اور گائوں میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر ایک اسکول کی بنیاد ڈالی جلد ہی اسکول تعمیر ہوا نہ صرف اس کے گائوں کے بلکہ قرب و جوار کے گائوں کے بچے تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہو گئے اور فہیم نے تعلیم سے فراغت کے بعد اس کو سنبھال لیا اور مزید بہتری کے اقدامات کیے اور آج یہ اسکول ایک اچھے اسکول کے طور پر مشہور ہے اور علم کا نور ہر سو پھیل رہا ہے۔

حصہ