شریک مطالعہ

442

نعیم الرحمٰن
احسن سلیم مرحوم کے ادبی جریدے ’’اجرا‘‘ کو اقبال خورشید بخوبی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اجرا کا چوبیس واں شمارہ احسن سلیم کے انتقال کے بعد شائع ہوا، لیکن وہ شمارہ مرحوم کا ہی مرتب کردہ تھا، جس کے بعد ہم جیسے قارئین کو ’’اجرا‘‘ کی بقا پر تشویش تھی۔ سلور جوبلی نمبر میں اقبال خورشید کی مدیرانہ صلاحیتیں قارئین کے سامنے بخوبی آشکار ہوئیں۔ تازہ چھبیس ویں شمارے سے واضح ہوا کہ اجرا محفوظ ہاتھوں میں ہے، جس کے لیے اقبال خورشید مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اب اس کی اشاعت میں احسن سلیم کے دورکی باقاعدگی لانے کا چیلنج اُن کے سامنے ہے۔ امید ہے وہ اس چیلنج پر بھی پورے اتریں گے۔ اس شمارے کی خاص بات پاکستان کے دوصفِ اوّل کے مرحوم مصوروں کے کام اور ان پر مضامین ہیں۔ تصدق سہیل اور انعام راجا کے بارے میں مختصر تاثراتی مضامین اقبال خورشید نے بہت عمدہ لکھے ہیں۔
مدیراعلیٰ محمد ناصر شمسی نے دورِحاضر میں ادب کے تقاضوں پر اداریے کے اختتام پر کچھ اہم سوال اٹھائے ہیں: ’’نئے انسان کے نئے تصورات، نئے خواب، نئے تقاضے، نئی توقعات کی بہتر تفہیم کے لیے کیا کرنا ہوگا، اور اس نئے عہدکے قاری کے لیے ادبی تخلیقات میں نئے رنگ، نئے زاویے، نئی چاشنی، نئے خیالات ہونا ناگزیر ہے؟ کیا یہ سوال اس بدلتے عہد کے ادیبوں کے لیے غیر اہم ہے؟ کیا اس پر ڈسکورس کا انعقاد مستحسن ہوگا؟‘‘
اقبال خورشید نے ’’اردو، ادیب اور المیہ‘‘ کے عنوان سے اردو ادب اور ادیب کا بے حد اہم اور بنیادی مسئلہ بیان کیا ہے جس میں اردو زبان کو درپیش مسائل کا ذکرکیا گیا ہے۔ اردوکی کمزور معیشت، متوسط طبقے کا انگریزی کے مقابلے میں احساسِ کمتری، انگریزی کی وسعت، قوت اور اثرپذیری اور بوسیدہ نصابی کتب سے نکال کر جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی سنجیدہ کوششوں کی کمی بڑے مسائل ہیں۔ انہوں نے اردو ادب کے عالمی ادب میں مقام، اور پیچھے رہ جانے کی وجوہ کا بھی عمدگی سے احاطہ کیا ہے اور پاکستان کے انگریزی ادیبوں بیپسی سدھوا، محسن حامد، محمد حنیف، کاملہ شمسی اور فاطمہ بھٹو کی عالمی شہرت اور مقام کا جائزہ لیتے ہوئے سوال کیا کہ یہ تخلیق کار کیا کرشن چندر، بیدی، منٹو، شوکت صدیقی، انتظار حسین، اسد محمدخان اور نیر مسعودکے ہم پلہ ہیں؟ اقبال خورشید نے ایک اہم مکالمے کاآغاز کیا ہے۔
پرچے کا آغاز جان کاشمیری اور صفدر صدیق رضی کی بہت خوب صورت حمد سے ہوا ہے جن کا ایک ایک شعر:

ہر منظرِ حیات ہے اس بات کا گواہ
اللہ بادشاہ ہے اللہ بادشاہ

اور

جزا و عزت و اکرام بھی رضا تیری
سزا و ذلت و دشنام بھی رضا تیری

سلیم کوثرکی دو، غالب عرفان اور صفدر صدیق رضی کی ایک ایک نعت شامل ہے۔ سلیم کوثرکی نعت کے کچھ اشعار:

وہ جس کو ہے اختیار مجھ پر وہی تو مجھ کو بدل رہا ہے
جو لڑکھڑا کر گرا تھا مجھ میں وہ آدمی اب سنبھل رہا ہے
فضائے نعت و درود میں سانس لے رہا ہوں سو حال میرا
کہ جیسے سینے میں دل نہیں کوئی سنگ ہے جو پگھل رہا ہے

موضوعِ سخن کے عنوان سے قیصرعالم کا ’’پوسٹ ماڈرن ازم: لمحۂ فکریہ‘‘ اور عاکف محمود کے مضامین اپنے موضوع سے انصاف کرتے ہیں۔ شاگردِ عزیز پروفیسر شاہد کمال نے ’’پاکستانی شاعری کے رجحانات‘‘ پر طویل مضمون پیش کیا ہے۔ شاہد کمال نے کئی عمدہ تنقیدی کتب تحریر کی ہیں جو پاکستان ہی نہیں بھارت میں بھی شائع ہوئیں اور قارئین کی بھرپور داد حاصل کی۔ اپنے مضمون میں انہوں نے ہندوئوں کی اردو کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے باوجود اس کی مخالفت کے بارے میں بتایا ہے۔ لکھتے ہیں ’’ہندوستانی فلمیں جنہیں دنیا بھر میں دیکھا اور پسند کیا جاتا ہے، ان کے اردو ہونے میں کسی کو کیا شک ہے! محض ہندی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے یا رسم الخط دیوناگری کرنے پر انہیں ہندی فلمیں کہا جاتا ہے۔ حالانکہ ان فلموں کی زبان اسی قدر ہندی ہوتی ہے جس قدر اردو بولنے والا روزمرہ گفتگو میں ہندی الفاظ بولتا ہے۔ نجی چینلزکے ڈراموں کی پاکستان میں مقبولیت کے بعد باقاعدہ طور پر ان ڈراموں کے اسکرپٹس میں ایسے الفاظ شامل کیے جا رہے ہیں تاکہ ان ڈراموں کو اردو بولنے والوں کے نزدیک کرکے زیادہ پیسہ کمایا جاسکے۔ لیکن انہیں بھی ہندی ڈراما کہا جاتا ہے۔‘‘ مضمون میں پاکستانی شاعری کے رجحانات کا بہت عمدگی سے احاطہ کیا گیا ہے۔
علاقائی اور بین الاقوامی ادب سے باقر نقوی نے فرینک اسٹاکٹن، اور محمد عباس نے نوبیل انعام یافتہ ڈورس لیسنگ کے تراجم کیے ہیں۔ باقر نقوی تو اردو کے اہم ترین مترجم ہیں، جنہوں نے نوبیل انعام کے موقع پر کی جانے والی تقاریرکے علاوہ بھی بہت شاندار تراجم کرکے اردو قاری کو بین الاقوامی ادب سے متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
فلک آثار کا عنوان نظموں اور ہائیکو کے حصے کو دیا گیا ہے، جس میں حسن منظر، سلیم کوثر، عباس رضوی کی نظموں کے علاوہ عباس رضوی کے ہائیکو نے متاثر کیا۔ عباس رضوی بہت عمدہ شاعر اور اچھے افسانہ نگار ہیں۔
کیاپوچھ ہو یار
کانٹے سجن بیلی ہیں
پھول قرابت دار
اور
چلے نہ من کازور
راہی اپنی اورچلے
رستہ اپنی اور
سبحان اللہ، کیا دلکش انداز ہے۔ سخن سخن میں 17شعرا کی 29 غزلیں ہیں۔ سلیم کوثرکی غزل کے دو اشعار

چشمِ نظارہ کہیں اور تھی دل اور طرف
قائم اس بار مساوات نہیں کی میں نے
تیری خواہش کو بہرحال مقدم جانا
بے وفائی تو ترے ساتھ نہیں کی میں نے

نجم الثاقب کا کلام پہلی بار گلوکار سلامت علی اور عذرا ریاض کے البم میں سنا تھا۔ پھر ان کا دل چھو لینے والا ناول سامنے آیا۔ ان کی شاعری ہمیشہ متاثرکرتی ہے:

موت حقیقت، عمر تماشا، قصہ ختم
بند کیا کوزے میں دریا، قصہ ختم
جان تھی اُس کی جس پر کوئی کھیل گیا
کھیل تھا جو اپنوں نے کھیلا، قصہ ختم

دیگر غزلوں کا انتخاب بھی متاثرکن ہے۔ داستان سرا کے زیرِ عنوان 13 مصنفین کے افسانے دیے گئے ہیں، جو سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ رشید امجد، ڈاکٹر سلیم اختر، حسن منظر اور محمد حمید شاہد کا تو نام ہی عمدہ افسانے کی ضمانت ہے۔ طاہرہ اقبال کے افسانے بھی اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔ یہاں اخلاق احمد کے افسانے’’بڈھا ہنسا‘‘ کا ذکر کروں گا، جس میں مصنف نے انسانی تہذیب اور ترقی کا کلیہ بڑی خوبی سے بیان کیا ہے۔ افسانے کا بڈھا ایک مزدور سے ٹھیکیدار بنا، پھر اس کے بیٹے کاروبار میں شریک ہوئے تو انہوں نے دوسروں کے گھروں کی تعمیر کے بجائے زمین کی خریداری کے بعد گھر بناکر بیچنے کا آغاز کیا۔ بڈھا بیوی کے انتقال کے بعد گھر میں محدود ہوگیا۔ پھر ایک روز اس نے بیٹے اور پوتے کا مکالمہ سنا جس میں پوتا گھروں کے بجائے فلیٹس بنانے کا کہہ رہا تھا، جسے سن کر بڈھا مدت بعد ہنسا۔ بہترین موضوع پر شاندار اور پُراثر افسانہ ہے۔
راشد اشرف اور شبنم امان نے معروف مصنف اور ماہرِ موسیقی ایس ایم شاہد کا بہت اچھا انٹرویو کیا ہے، جس میں موسیقی اور ادب کے کئی موضوعات پرگفتگو کی گئی ہے۔ ایس ایم شاہد کی آپ بیتی کا انتظار رہے گا۔
’’نافۂ نایاب‘‘ میں ڈاکٹر غلام شبیر رانا نے مشکور حسین یاد کی یادیں اور باتیں قارئین سے ’’ہماری بات حکایت نہیں جو ختم ہوئی‘‘ میں شیئرکی ہیں۔ مضمون کا عنوان یاد صاحب کے شعر ’’ہماری بات حکایت نہیں جو ختم ہوئی، یہ حرفِ حق ہے عبارت نہیں جو ختم ہوئی‘‘ سے لیا گیا ہے۔ 25 جون کو اجرا کے بانی مدیر احسن سلیم کی دوسری برسی تھی۔ اس موقع پرکاوش عباسی نے مرحوم کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ پیغام آفاقی کے افسانوی مجموعہ ’’مافیا‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ باسط آذر اور نورالعین سائرہ نے کیا ہے۔ ادیب، شاعر، ماہر لسانیات، صحافی شان الحق حقی ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ اُن کی زندگی کے متعدد گوشوں میں سے ایک، صحافت کا جائزہ ڈاکٹر عرفان شاہ نے پیش کیا ہے۔’’نیر مسعود کے افسانوں میں تجربے کی نوعیت‘‘ کے عنوان سے احسن ایوبی نے مختصر اور عمدہ مضمون پیش کیا ہے۔
’’یادِ رفتگاں‘‘ میں بزرگ شاعر رسا چغتائی پر ’’درویش رخصت ہوا‘‘ کے نام سے اخلاق احمد نے بہت اچھا مضمون تحریر کیا ہے۔ مختصر بحر میں دل چھو لینے والی غزلیں کہنے والے رسا چغتائی کی رخصتی کے ساتھ ایک تہذیب رخصت ہوگئی۔ ان کے اشعار زبان زد عام ہیں:

تیرے آنے کا انتظار رہا
عمر بھر موسمِ بہار رہا

جیسے شعر کون بھلاسکتاہے!مرحوم کی طویل بحر کی خوبصورت غزل کے دواشعار

میں نے سوچا تھا اس اجنبی شہر میںزندگی چلتے پھرتے گزر جائے گی
مگر کیا خبر تھی کہ تعاقب میں ہے ایک نادیدہ زنجیرِ ہمسائیگی
٭
یہ درختوں کے سائے جوچپ چاپ ہیں ہم محبت زدوں کے یہ ہمرازہیں
اب یہیں دیکھنا رات پچھلے پہر دو دھڑکتے دلوں کی صدا آئے گی

رساچغتائی ہی کے بارے میں مرحوم احسن سلیم کا مضمون قندِمکرر کے طور پرشامل کیا گیا ہے جس میں شامل رسا چغتائی کا شعر کیا حسب ِ حال ہے:

ہوئے رسا نہ ہوئے مرزا محتشم علی بیگ
وگرنہ ہوتے تجمل حسین خان کی طرح

اقبال خورشید نے ’’برگد کا گھنا اور خاموش درخت‘‘ کے عنوان سے سدا بہار اداکار قاضی واجدکے بارے میں تحریر کیا ہے۔ اقبال خورشید نے ہی مصور تصدق سہیل کو ’’تلخ رنگوں کا تنہا شاعر‘‘ کے نام سے خراج تحسین پیش کیا ہے۔ دونوں مضامین مختصر اور جامع ہیں۔
ظفر سپل کے فلسفے اور تصوف سے متعلق مضامین اب مختلف ادبی جرائد میں شائع ہورہے ہیں۔ اجرا کے لیے ظفر سپل نے ’’سلسلہ چشتیہ …غیر معتدل آزاد خیالی کے خلاف پہلی بابرکت آواز‘‘ کے نام سے شیخ عبدالحق محدث دہلوی، خواجہ باقی باللہ اور شیخ احمد سرہندی کے بارے میں معلومات افزا مضمون تحریر کیا ہے۔ شاندار تحریر ہے۔
وسعت ِ بیان کا نام دیا گیا ہے تبصروں اور جائزوں پر مبنی تحریروں کو، جس میں غالب عرفان نے نجیب عمرکی تحریروں پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ سید ایاز محمود نے شوکت عابد کی شاعری کا جائزہ لیا ہے۔ مرزا اطہر بیگ کے ناول ’’غلام باغ‘‘ کا جائزہ رفاقت حیات، اور طاہرہ اقبال کے ناول’’نیلی بار‘‘ کا تجزیہ جمیل حیات نے کیا ہے۔ غرض اجرا کا یہ شمارہ صفحہ اول سے اختتام تک قابلِ مطالعہ ہے، اورہرادب دوست کے زیرِ مطالعہ آنا چاہیے۔ اتنا عمدہ پرچہ شائع کرنے پر اقبال خورشید اوران کی پوری ٹیم کو بھرپور مبارک باد۔امید ہے کہ اجرا کا ہرشمارہ خوب سے خوب تر کی جانب گامزن رہے گا۔

حصہ