ایم ایم اے کے امیدوار سومار برفت سے خصوصی انٹرویو

249

ابواشجع
این اے 236 کراچی میں قومی اسمبلی کا پہلا حلقہ ہے۔ اسی لیے جب بھی کوئی فہرست مرتب ہوتی ہے توسب سے پہلا نام NA-236 کے حلقہ کا ہی آتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس حلقہ کے بارے میں عوام کی معلومات انتہائی کم ہیں لیکن میڈیا کے ذرائع بھی بہت سی باتوں سے بے خبر ہیں۔ آج ہم قارئین جسارت کے لیے اس کا ایک اجمالی خاکہ یہاں کے امیدوار قومی اسمبلی محمد سومار برفت سے انٹرویو کی صورت میں پیش کررہے ہیں۔
سنڈے میگزین:آپ کا تعلق کس جماعت سے ہے اپنے سیاسی سفر کے حالات بتائیں اور یہ جو آپ کے نام میں برفت آتا ہے اس کا صحیح تلفظ بتائیں۔
سومار برفت: جی نام تو آپ نے میرا بتا ہی دیا ہے جو آپ کہہ رہے ہیں وہی ہے اور برفت کا تلفظ حرمت کی طرح ہے۔ میرا تعلق جماعت اسلامی سے ہے، میں جماعت اسلامی کے زون گڈاپ وسطی کا امیر ہوں اور متحدہ مجلس عمل کی جانب سے NA-236 پر امیداوار ہوں۔ گڈاپ کے دیہہ وان کنڈ میں میرا آبائی گوٹھ ہے۔ یہ گوٹھ یوسی موئیدان میں واقع ہے۔ میرے سیاسی سفر کا آغاز جئے سندھ سے ہوا جس کا میں ایک سرگرم کارکن تھا۔ میں ڈسٹرکٹ سینٹرل میں جئے سندھ کا نائب صدر بھی رہا۔ ایک موقع پر پولیس نے گرفتار کرکے حوالات میں ڈال دیا۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے مشہور و معروف سماجی رہنما عبدالرشید بھیا نے بھاگ دوڑ کر مجھے رہائی تو دلوادی لیکن عمر بھر کے لیے جماعت اسلامی کا اسیر کردیا۔
سوال: NA-236 کا حدود اربع کیا ہے؟
جواب: ہمارا حلقہ کراچی کے 50 فیصد سے زائد رقبہ پر پھیلا ہوا ہے اس میں بند مراد، ہمدرد یونیورسٹی سے گھگھر پھاٹک تک اور پورٹ قاسم سے لے کر حب ڈیم تک علاقے شامل ہیں۔ معروف مقامات میں کوزی واٹر پارک، دیہہ مندرو سیٹلائٹ اسٹیشن، گڈاپ شہر، بقائی میڈیکل یونیورسٹی، بحریہ ٹائون، کاٹھور، DHA سٹی، کھادیجی اولڈ تھانہ، مراد میمن گوٹھ، درسانوچنہ، دنبہ گوٹھ، اسٹیل ٹائون، گلشن حدید، شاہ لطیف ٹائون، شاہ ٹائون، پپری اور دھابیجی کے علاقے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کیرتھر نیشنل پارک جو کہ کراچی کے 20 فیصد رقبہ پر محیط ہے وہ بھی پورا اس NA میں شامل ہے۔ کراچی کی تمام بڑی بڑی برساتی ندیاں اسی کیرتھر کے پہاڑوں سے نکلتی ہیں جیسے کہ حب ندی، ملیر ندی اور لیاری ندی وغیرہ۔ سپر ہائی وے اور نیشنل ہائی وے اس کے درمیان سے گزرتی ہیں۔
سوال: اتنا بڑا علاقہ ہے تو ووٹر کتنے ہیں اور آبادی کتنی ہے؟
جواب: ہمارے حلقہ انتخاب کی مثال ایسی ہے جیسی کہ پاکستان میں بلوچستان کی۔ ہمارے NA میں 2 لاکھ 31 ہزار ووٹرز ہیں۔
سوال: اس علاقے کے اہم مسائل کیا ہیں؟
جواب: حلقہ انتخاب 2 طرح کے علاقوں میں تقسیم ہے۔ ایک شہری آبادی اور اس سے ملحقہ کچی آبادیاں اور دوسری جانب مضافات میں واقع پسماندہ گوٹھ ہیں۔ دونوں کے مسائل علیحدہ علیحدہ ہیں۔
پسماندہ گوٹھوں میں علاج و معالجہ کی سہولت میسر نہیں۔ موئیدان، کنڈ جھنگ اور مہر جبل کے گوٹھوں سے مریض کو ڈاکٹر کو دکھانے کے لیے گڈاپ شہر لانا پڑتا ہے۔ اس کے لیے ایک بس صبح گائوں سے لے کر گڈاپ روانہ ہوتی ہے، کرایہ ڈیڑھ سو روپے یکطرفہ اور اگر مریض بس میں سفر کے قابل نہیں تو پرائیویٹ کار کے ذریعے جس کا کرایہ کم از کم 2 ہزار ہوتا ہے مریض کو گڈاپ لایا جاتا ہے۔ کم و بیش یہی صورت حال دیگر دور دراز کے گوٹھوں کی بھی ہے۔ اگر کسی کو دل کا دورہ پڑ جائے تو ابتدائی طبی امداد مریض کو پہنچانے کے لیے کس قدر مسائل ہوتے ہیں۔
گورنمنٹ کی جانب سے تقریباً ہر علاقے میں ڈسپنسری قائم ہے لیکن برسوں سے یہ عمارتیں خالی ویران پڑی ہیں۔ گڈاپ شہر میں بارہ تیرہ سال سے ایک شاندار اسپتال کی عمارت تیار کھڑی ہے لیکن ابھی تک علاج و معالجہ کا کام شروع نہیں کیا جاسکا۔ نہ جانے کتنا بجٹ اور کتنی تنخواہیں یہ خالی عمارتیں ہر سال ہڑپ کرجاتی ہیں۔
دوسری جانب شہری آبادیوں میں تو یہ عمارتیں بھی موجود نہیں۔ عوام پرائیویٹ مہنگے علاج کرانے پر مجبور ہیں۔ شاہ لطیف ٹائون جیسے علاقے میں ایک بھی سرکاری ڈسپنسری موجود نہیں۔
دوسرا اہم مسئلہ تعلیم کا ہے، ملیر ضلع میں بے شمار سرکاری اسکول کی عمارتیں موجود ہیں لیکن ان کا حال بھی ڈسپنسریوں کی طرح ہے۔ ایک گوٹھ میں طلبہ سے خالی اسکول میں جانے کا اتفاق ہوا تو اس کی الماریوں میں طلبہ میں تقسیم کیے جانے والی بے شمار کتابیں بھری پڑی تھیں۔ یعنی کے سرکار کے ریکارڈ پر یہ اسکول چل رہا تھا اور بے شمار طلبہ کے داخلے موجود تھے۔ پورے گڈاپ میں صرف ایک ڈگری کالج ہے کونکر ڈگری کالج۔
دیہی آبادی میں روزگار کا بڑا ذریعہ زراعت اور گلہ بانی ہے۔ لیکن زیر زمین پانی کی سطح کم ہونے سے یہ دونوں ذرائع ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ بیشتر علاقوں میں پانی کی سطح پانچ سو فٹ سے زیادہ ہوچکی ہے۔ اتنی گہرائی سے پانی نکال کر آبپاشی کرنے سے جو لاگت آتی ہے وہ فصل میں پوری نہیں ہوتی۔
اسی طرح مال مویشیوں کی چراگاہیں بارشیں نہ ہونے کے سبب ختم ہوتی جارہی ہیں۔ حکومت جو چھوٹے چھوٹے ڈیم بناتی ہے وہ اپنے سیاسی کارکنوں کی زمینوں کے پاس بناتی ہے جس سے عام آبادی کا کوئی بھلا نہیں ہوتا اور حکومت کے کارندے مفت میں مزے کرتے ہیں۔ بہت سے علاقوں میں تو مقامی باشندوں کے لیے بننے والے ڈیموں سے ٹینکر مافیا کا کاروبار چمک رہا ہے۔
آپ کو یہ جان کر بھی حیرت ہوگی کہ کراچی کے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں موبائل کے سگنل نہیں آتے یہ بھی ہمارے حلقہ میں شامل ہیں۔ یہاں نہ بجلی ہے نہ فون ہے، گیس اور پانی کا تو پوچھنا ہی کیا۔
باقاعدہ پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام موجود نہیں، ایک ہی بس میں بکرے، دنبے اور انسان ایک ساتھ سفر کرتے ہیں، اسی میں اناج کی بوریاں بھی اور خریدوفروخت کا سامان بھی ہوتا ہے۔ بعض مقامات پر بسوں کی جگہ پرانے زمانے کے ’’کیکڑے ٹائپ‘‘ ٹرک پر لکڑیاں، بکریاں اور انسان ایک ساتھ سفر کرتے ہیں۔
سوال: یہ علاقہ اتنا پسماندہ کیوں ہے؟
جواب: دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسا ان لوگوں کے ساتھ ہوتا آرہا ہے جو ہر دور میں حکومتی پارٹی کو ووٹ دیتے آرہے ہیں۔ یہاں کے لوگ برادری، نسل اور قوم کے مسئلوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ الیکشن کا وقت آتا ہے تو ایک وڈیرہ یا قوم کا سردار پوری برادری کے ووٹوں کا فیصلہ کردیتا ہے۔
ووٹ لے کر جانے والا پھر اگلے انتخاب کے موقع پر ہی نظر آتا ہے۔ جیتنے کے بعد پوری مدت تک ایسا غائب ہوتا ہے کہ لوگوں کی عیادت اور تعزیت تک سے دور رہتا ہے پھر جب دوبارہ انتخابات کا موقع آتا ہے تو ہر تعزیت والے گھر جا کر دعا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ ایسے ہی ایک میت والے گھر میں ایک سابق ممبر قومی اسمبلی دعا کرنے گئے تو جذباتی ہو کر کہنے لگے کہ ’’مرحوم میرے بہت اچھے دوست تھے‘‘ تو کسی نے کان میں کہا میت مرحوم کی نہیں مرحومہ کی تھی۔
حالات کے جبر نے اس علاقے میں سیاسی مسابقت کو قائم نہیں ہونے دیا۔ ایک ہی جماعت اس علاقے میں مسلط رہی۔ جس کے نتیجے میں عوام یہ سوچنے پر ہمیشہ مجبور رہے کہ سرکردہ جماعت اور بااثر شخصیات کی مخالفت کی تو جو تھوڑا بہت مل رہا ہے اس سے محروم کردیے جائیں گے۔ لہٰذا حکومت کو کھل کر گالیاں دینے کے باوجود کوئی دوسرا راستہ پاتے تھے۔
سوال: موجودہ صورت حال میں آپ کیا سمجھتے ہیں؟
جواب: گزشتہ بلدیاتی الیکشن میں جماعت اسلامی میدان میں ڈٹ کر موجود رہی۔ اگرچہ کہ کم ووٹ حاصل کیے لیکن لوگوں کے سامنے متبادل کے طور پر آگئی۔ لوگوں نے دیکھا کہ جو جماعت سارا سال لوگوں کی خدمت کے لیے موجود رہتی ہے، لوگوں کی غمی خوشی میں ان کے ساتھ ہوتی ہے، جرأت اور حوصلہ سے مقابلہ کرنے والی ہے تو اس سے عوام کا رجوع جماعت کی طرف ہوا ہے۔ ظلم کے نظام سے باغیوں کو جدوجہد کا ایک پلیٹ فارم میسر آگیا ہے۔ اور ان شاء اللہ یہ جدوجہد فتح سے ہمکنار ہوگی۔
سوال: سارا سال آپ کیا خدمت کرتے رہتے ہیں؟
٭جواب: ہم الخدمت اور مخیر حضرات کے تعاون سے فراہمی آب کے چھوٹے برے کام کرواتے ہیں۔ گزشتہ پانچ سالوں میں 600 سے زائد۔
٭ الخدمت رورل ہیلتھ پروگرام کے تحت ہفتہ بھر موبائل ڈسپنسری دور دراز گوٹھوں میں جاتی ہے۔ جہاں مریض کرایہ نہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر تک نہیں پہنچ پاتے۔ پانچ سالوں میں ایک لاکھ سے زائد۔
٭ پیما کے اشتراک سے موتیا کے مریضوں کا آپریشن اور بینائی کی بحالی گزشتہ 2 سالوں میں 4 سو مریضوں کی بینائی بحال کی۔
٭ ہر سال رمضان میں ایک ہزار سے زائد مساکین میں راشن کی تقسیم ۔
٭ 70 سے زائد مدارس میں قرآن کی تعلیم۔
٭ گزشتہ پانچ سالوں میں 200 سے زائد یتیم لڑکیوں کے لیے جہیز بکس۔
٭ گزشتہ پانچ سالوں میں 1500 جانوروں کی قربانی اور گوشت کی تقسیم۔
اسی طرح بے روزگاروں کے روزگار کے مواقع، ہر سال عید میں عید گفٹ، رمضان میں افطار وغیرہ شامل ہیں۔

حصہ