دھماکے اور سوشل میڈیا

341

ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک ملعون سیاسی رہنما اور حزب اختلا ف کے لیڈرگیرٹ ولڈر نے ایک بار پھر اپنے اسلام دشمن ایجنڈے کو آگے بڑھایا۔وہ پہلے بھی ایسے قبیح عمل کر چکا ہے ، جس سے اس کی اسلام، قرآن ، اللہ پاک، نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ سے زبردستی کی دشمنی ظاہر ہوتی ہے ۔دنیا بھر کے مسلمانوں کا ہر سطح پر سخت رد عمل سامنے آیا ۔ٹوئٹر ، فیس بک، انسٹا گرام سب پر بھر پور مذمت کی گئی کئی ۔ ایک جانب میڈیا پر ہالینڈ کی مصنوعات خصوصاً اینگرو کی مصنوعات پر پابندی کی مہم جاری ہے دوسری جانب عالمی سطح پر بھی ہیش ٹیگ بنے ٹوئٹر ٹرینڈ بنے اور احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ۔پاکستان میں الیکشن کے شور میں شاید تحریک لبیک کے سوا کسی کواس ایشو پر ہوش نہیں آیا ، جس سے پتہ چلا کہ سب ناموس رسالت ﷺ کا نام صرف تبھی لیتے ہیں جب وہ مقامی عوامی ایشو بن جائے ۔اُس ملعون نے نبی کریم ﷺ کے خاکوںکا ایک عالمی مقابلہ کروانے کا اعلان کیا تھا ، جس کی نمائش وہ ہالینڈ کی پارلیمنٹ میںکرنے جا رہا تھا۔یہ اعلان 14جون کو اُس نے کیا تھا جس کے بعد وہ اب تک سوشل میڈیا پر ہی اپنے پروگرام کی تشہیر میں مصروف ہے ۔تحریک لبیک کے سربراہ کی جانب سے ہالینڈ کو ختم کر دینے کی دھمکی والی خبر بھی اُس نے اپنی ٹوئٹر وال پر شیئر کر رکھی ہے یہ بتانے کے لیے کہ وہ اپنے اسلام دشمن عزائم پر قائم ہے ۔
پاکستان میں انتخابی مہم کا سلسلہ جاری ہے ۔اسے ہم دھماکے دار الیکشن مہم کا آغاز بھی کہہ سکتے ہیں۔ ویسے تو سی پیک کے بعد ہم دیکھ رہے تھے کہ اچانک ملک میں چین کی بانسری بجنا شروع ہو گئی تھی۔ اندرون سندھ ڈاکوؤںکا صفایا، ملالہ بھی صحیح سلامت پاکستان کا پر امن دورہ کر کے چلی گئی ، تحریک طالبان کے بجائے پر امن اور انتہائی اعلیٰ و مہذب قوم سے تعلق رکھنے والے ریمنڈ ڈیوس اور کرنل جوزف جیسوں کے ہاتھوں پاکستانی مارے گئے ۔کراچی میںتو مسلم لیگ ن نے نعرہ ہی یہ لگایا کہ ’یہ جو کراچی میں امن ہے اس کے پیچھے مسلم لیگ ن‘ ہے ۔جیسے ہی مسلم لیگ ن کی حکومت گئی ، دھماکوں کا سلسلہ دوبارہ لوٹ آیا ۔اس ایک ہفتے میں صوبہ خیبر پختونخوا جہاں اتفاق سے تحریک انصاف کی حکومت تھی وہاں دوشدید بم حملوں نے سب کچھ تلپٹ کر دیا۔ویسے تو اِن دھماکوںکی ٹائمنگ، حالات، ٹارگٹ سب کچھ ایک خاص پیغام کے ساتھ تھے۔پہلا دلخراش، افسوسناک اور شدید قابل مذمت واقعہ پشاور میںعوامی نیشنل پارٹی کے ایک صوبائی رہنما اور اُمیدوار صوبائی اسمبلی بیرسٹر ہارون بلورکی کارنر میٹنگ میں ہوا جس میں وہ خود اور 22مزید افراد جاں بحق ہوئے۔ اس کے بعد جمعہ کے روز متحدہ مجلس عمل کی جانب سے بنوں سے نامزد اُمیدوار اکرام خان درانی پر ہوا جس میں وہ تو بچ گئے مگر 4 افراد جاںبحق ہوئے اور 22 کے قریب افراد زخمی ہو ئے۔تیسرااور چوتھا دھماکہ بلوچستان میںہوئے ایک دس جولائی کو خضدار میں بلوچستان عوامی پارٹی کے الیکشن آفس کے قریب دوسرا دھماکہ 13جولائی کو مستونگ میںہوا جس میںبلوچستان عوامی پارٹی کی کارنرمیٹنگ کو نشانہ بنایا گیا ۔اس میں نواب زادہ سراج رئیسانی (امیدوار بلوچستان اسمبلی )سمیت70سے زائد جاںبحق،120سے زائد زخمی ہوئے ۔تمام دھماکوںکی ذمہ اری تحریک طالبان نے قبول کی۔پورے ملک میںہر جانب سے ان واقعات کی سخت مذمت کی ۔سوشل میڈیا پر بھی خاصا رد عمل نظر آیا۔مستونگ اور رئیسانی کا ٹرینڈ ایک گھنٹے میںہی ٹوئٹر لسٹ میں شامل ہو گیا۔
اس کے بعد اگلی دھماکہ خیز خبر میاں نواز شریف ،اُن کی بیٹی اور داماد کو نیب عدالت سے سزا کی تھی۔صرف سزا ہی نہیں سنائی گئی تھی بلکہ میاں صاحب اس سزاپر عمل درآمد کے لیے خود اپنی بیٹی کے ہمراہ پاکستان آ ئے ، اس سے دو دن قبل داماد صاحب نے گرفتاری دی۔ویسے لندن میں بھی اس سزا کے اعلان کے بعد خاصی ہلچل رہی جس کی ویڈیوز خوب وائرل ہوئیں۔تحریک انصاف والے اس ضمن میںصفائی دیتے رہے کہ وہ ایسا کچھ نہیں کر رہے ۔پھر پاکستان میںبھی جو کچھ ہوا اُس پر تبصرہ کرتے ہوئے گل بخاری نے ایک جامع ٹوئیٹ کی کہ ،’[نواز شریف کا خوف: فون بند، 4G بند، سڑکیں بند، میڈیا بند، کارکن گرفتار۔‘‘سزا اور نواز شریف کی واپسی کے اعلانات کے بعد تحریک انصاف نے سوشل میڈیا پراپنے بے جان موقف کا بھرپور اظہار کیا اور اپنے حق میں رائے عامہ استوار کرنے کی کوشش کی۔بے جان ان معنوں میں کیونکہ دیگر اطراف سے خودپی ٹی آئی پر ’لوٹوں‘ کی شمولیت اور خود اُن کے درمیان کرپٹ عناصر کی بھر پور نشاندہی جاری رہی۔ سلیم صافی کی پونے دو لاکھ روپے کی چائے وال معاملہ بھی خوب موضوع بنا ۔سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختون خواہ نے سرکاری خزانے سے پونے دو لاکھ روپے کی چائے کا بل سلیم صافی و دیگر کے کھاتے میں ڈالا کر اپنے انصاف اور کرپشن سے پاک ہونے کا بین ثبوت عوام کو دکھایا۔وہ کہتے ہیںنا کہ نیت صاف نہ ہو تو کام میں برکت نہیں آتی ، تو ایسا ہی کچھ عمران خا ن کی کسی جگہ آمد کے موقع پر تحریک انصاف کے ساتھ ہوا جب انہوں نے ساؤنڈ سسٹم پر عمران خان کی آمد پر ’’ دیکھو دیکھو کون آیا ، چور آیا چور آیا ‘‘ کا ترانہ لگا دیا پھر کچھ دیر بعد خیال آیا کہ یہ تو الٹا ہو گیا ۔ یہ کلپ جیو نیوز نے جاری کیا اور اتنا وائرل ہوا کہ اوپر دی گئی مثال ثابت ہو گئی۔اسی طرح خان صاحب کے جوش خطابت میں نواز شریف کے استقبال کو جانے والوں کو گدھا کہنا بھی بھاری پڑ گیا۔سوشل میڈیا کسی کو معاف نہیں کرتا۔دوسری جانب نواز شریف کی سزا پرتحریک لبیک کی جانب سے ناموس رسالت ﷺ اور شہید ناموس ممتاز قادری ؒ سے جوڑ کر اپنا موقف پیش کیاگیا۔ متحدہ مجلس عمل کی جانب سے یہ بیلنس موقف تھا کہ صرف نواز کا ہی نہیں بلکہ باقی اور چوروں کو بھی پکڑا جائے اور قومی دولت واپس لائی جائے ۔ اس کے فوراً بعد ہم نے آصف علی زرداری اور ادی فریال کے گرد ایف آئی اے کا گھیرا تنگ ہوتا دیکھا مگر جانے کونسی ’گیدڑ سنگی‘ ہے آصف زرداری کے پاس کہ وہ کنی کترا کر نکل گئے ، بولا کہ الیکشن کے بعد دیکھیں گے۔
برطانوی پریس سے تازہ تازہ ۔بلکہ ایک دم تازہ۔مصنف کے پاس تقسیم کے تمام حقوق کی تنبیہہ کے ساتھ ۔لو آگئی وہ کتاب۔۔جس کے شائع ہونے کا تھا کئی لوگوں کوانتظار۔ ایک مخصوص ایڈیشن پی ڈی ایف میں بھی با آسانی دستیاب۔بہترین ٹائمنگ۔اعلیٰ اسکرپٹ۔مصالحے دار۔ چٹ پٹی اور بہت کچھ کے ساتھ۔ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں عام انتخابات میں صرف 12دن باقی ہوں۔سابق وزیر اعظم نواز شریف کو نیب عدالت نے دس سال کی سزا سنائی ہو۔(اُن کی بیٹی و داماد کو بھی )داماد گرفتاری دے چکا ہو۔اپنی بستر مرگ پر موجود اہلیہ کو اپنے دو بیٹوں کے پاس چھوڑ کر اپنی بیٹی کے ساتھ وہ گرفتاری دینے اپنے ملک واپس آ رہے ہوں۔ملک میں انجانی قوتوں نے اُن کی جماعت کو سخت ترین گھیرے میں لے رکھا ہو۔عجیب انداز سے گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہو۔تحریک انصاف کے سربراہ کسی اشارے پر شیروانی کا ناپ کروا لے نے کا تاثر دے رہے ہوں۔سارا میڈیا بلا بلا کر رہا ہو۔ ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کے نام پر ایک پارٹی کے ساتھ نرمی محسوس ہو رہی ہو۔پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگ اسد درانی کے کرانیکلز یکسر بھلا بیٹھے ہوں۔جی یہ عظیم گناہ سر زد ہو جانے کے بعد، کیونکہ اگر پاکستانی قوم نے اسد درانی کی کتاب پر پاک فوج کا خامو شی سے بھرا رد عمل نوٹس کرکے خود بھی چپ سادھ لی ہو تو یہ گناہ عظیم سے کم نہیں۔جو کچھ اسد درانی نے اس کتاب کو لکھ کر اور شائع کر کے پاکستان کے ساتھ کیا، پاک فوج کے ساتھ کیا ، پاک فوج کے تشخص کے ساتھ کیا وہ بھی بھارت سے مل کر تو عام تجزیہ تو یہی ہے کہ میاں صاحب نے تو اس کا عشر عشیر بھی نہیں کیا ہوگا پھر میاں صاحب کی سزا دیکھو اور اسد درانی کے لیے خاموشی ؟؟بہر حال بات ہو رہی تھی کتاب کی جس نے اپنے مصالحہ دار عنوان اور اشاعت سے قبل ہی اتنی جگہ بنا لی تھی کہ مارکیٹنگ کی ضرورت ہی نہیں پڑی ۔ ویسے کاغذی اشاعت کے ساتھ ہی آن لائن یعنی پی ڈی ایف فارمیٹ میں بھی اتنی تیز تقسیم بھی مخصوص ایجنڈے کی جانب اشار ہ کرتی ہے۔گو کہ ریحام خان نے اپنے ٹوئٹر میں واضح طور پر کہا ہے کہ اُن کی کتاب563صفحات پر مشتمل ہے جبکہ پی ڈی ایف والی کتاب کے صفحات365ہیں۔اب اصلی کتاب اور نقلی کتاب کون سی ہے یہ فیصلہ تو دونوں کو سامنے رکھ کر ہی ہوگا۔ ویسے ایک دوست نے بتایا کہ یہ وہ حمزہ عباسی والا ایڈیشن ہوگا ،جس کی بنیاد پر وہ کیس کرنے لگا تھا ۔ایک دوست 365والے مسودے کی روشنی میں لکھتے ہیں کہ اس کتاب کے چٹخاروں کا اندازہ اس بات سے کریں کہ ’’ ریحام خان کی انگریزی کی کتاب کا اردو ترجمہ پڑھنے والے حضرات ’’پارلیمنٹ سے بازار حسن ‘‘ پڑھ لیں۔اسلام آباد سے مہتاب عزیز لکھتے ہیں۔’’ذرا ٹائمنگ تو چیک کریں۔ریحام خان کی خبر اور ابتدائی مندرجات اس وقت لیک ہو کر پہلی بار میڈیا کی زینت بنے تھے،جب جنرل (ر) اسد درانی اور بھارتی خفیہ ایجنسی ‘را’ کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دلت کی مشترکہ کتاب میڈیا پر چھائی ہوئی تھی۔ لوگ حب الوطنی کے سر ٹیفکیٹ بانٹنے والوں کی اپنی حْب الوطنی پر سوال اٹھا رہے تھے۔ ان حالات میں ریحام خان کی کتاب لیک کر کے جنرل ریٹائر اسد درانی کے ایشو کو میڈیا سے غائب کیا گیا تھا۔مکمل کتاب کا انٹر نیٹ ایڈیشن آج ایک ایسے وقت میں آیا ہے۔ جب میڈیا میں نواز شریف اور مریم نواز کی آمد کی کوریج کو روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا یا جا رہا ہے ۔ پیمرا کی جانب سے تمام نجی چینلز کو سخت قسم کا ایک نوٹیفکیشن بھی جاری کیا جا چکا ہے جس میں واضح ہدایت ہے کہ میاں نواز شریف کی پاکستان آمد کی کوریج نہیں کی جائے گی۔کل کو ضرورت پڑی تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسی کتاب کی گواہی پر عمران خان کو غیر صادق اور امین قرار دے کر ناہل بھی کرا دیا جائے گا۔یہ محکمہ زراعت بہت بڑی چیز ہے اسے ہلکا نہیں لینا۔‘‘کتاب کی اشاعت کے ساتھ ہی تحریک انصاف کے چاہنے والے دفاعی پوزیشن میں آ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ٹوئٹر پر ’ریحام خان آٹو بائیگرافی‘ کا ٹرینڈ بن گیا۔ایک معروف ٹی وی اینکر نے اس کتاب کی اشاعت پر پہلے انٹرویو میں اس کتاب کو ’نیوکلیئر بم‘ سے تشبیہہ دیا۔انور لودھی لکھتے ہیں،’’ن لیگ والے کمال کے لوگ ہیں۔عورتوں کے سیاست میں استعمال کے ماسٹر ۔ایک طرف کلثوم نواز اور نوازشریف کی ماں کو دکھا کر ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف ریحام خان کی کتاب کو استعمال کر کے اپنے سیاسی مخالف پر گند بھی اچھال رہے ہیں۔‘‘ارشد وحید نے کتاب کا ایک اقتباس ترجمہ کر کے لکھا ہے کہ ،’’میں نے کتاب لکھ کر ہر چیز کو دستاویزی شکل دیدی ہے ، کوئی اب نہ مانے پانچ سال تک نہ مانے لیکن بیس سال کے بعد سب مان جائیں گے۔ ‘‘
یہی نہیں بلکہ اس بار عوام کے اندر سیاسی شعور کی ایک جھلک دیکھنے میں آئی جب کئی سیاسی رہنماؤں خصوصاً اندرون سندھ سے پیپلز پارٹی کے خلاف صدائے اور اُن کے امیدواران کو کی جانے والی لعن طعن کہ پانچ سال منہ کیوں نہیں دکھایا ۔کیا کام کرائے ؟ کس منہ سے ووٹ مانگتے ہو؟ جیسے رد عمل بھی کسی دھماکے سے کم نہیں۔بہر حال یہ الیکشن ہر اعتبار سے اب تک کوئی مضبوط تجزیہ نہیں دے پا رہے ۔ یہ بات درست ہے کہ خلائی مخلوق کی جانب سے پی ٹی آئی کی جانب مضبوط اشارے ہیں لیکن زمینی حقائق بہت الگ رحجان دکھا رہے ہیں، خصوصاً نواز شریف کی سزا کے بعداُن کے پاس ووٹ بینک کم نہیں ہوگا۔جس حساب سے وہ پاکستان لوٹے ہیں اور جو انداز اُن کو دبانے کا اختیار کیا گیا وہ تو ایسا ہی کچھ بتا رہا ہے ۔پھر بھی لوگ دل کھول کر سیٹوںکے تجزیے کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور ایسا کرنے میں وہ سوشل میڈیا کی وجہ سے بالکل آزاد ہیں۔آزاد سے یاد آیا کئی آزاد اُمیدوار بھی اپنے کم بجٹ کی وجہ سے سوشل میڈیا پر مہم چلا نے میںمصروف ہیں۔ان میںکراچی کے ایک حلقہ 247سے آزاد اُمیدوار جبران ناصر بھی ہیں جن کے مقابلے پر متحدہ مجلس عمل کے مضبوط اُمیدوار محمد حسین محنتی ، سابقہ ایم این اے عارف علوی ، پی ایس پی کی فوزیہ قصوری ، تحریک لبیک ، ایم کیو ایم سمیت کئی اور اُمیدواران الیکشن لڑ رہے ہیں۔جبران ناصر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے ذریعہ ،شو بز سیلیبریٹیز کی حمایت کے ساتھ سوشل میڈیا پر خاصے متحرک ہیں۔

حصہ