تحریک انصاف کا منشور

605

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 2018ء کے عام انتخابات کے لیے اپنے انتخابی منشور کا اعلان کردیا ہے۔ سات ابواب پر مشتمل اس منشور کی اساس بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے اس فرمان پر رکھی گئی ہے جس میں انہوں نے قیام پاکستان کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ’’ہمیں ایک ریاست چاہیے جس میں ہم آزادی سے سانس لے سکیں، جہاں ہم اپنی تعلیمات اور ثقافت پر عمل پیرا ہوکر ترقی کرسکیں، اور جہاں اسلامی سماجی انصاف کے اصول پروان چڑھ سکیں‘‘۔ منشور کو مصورِ پاکستان علامہ اقبالؒ کے خودی، خودداری اور خودمختاری کے پیغام پر مبنی اس شعر سے بھی مزین کیا گیا ہے ؎

نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تُو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

انتخابی منشور کا اعلان کرتے ہوئے تحریک انصاف کے چیئرمین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہمارے پیش نظر سب سے بڑا چیلنج پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے جس کا نمونہ مدینہ منورہ کی ریاست تھی، اور مدینہ کی اس فلاحی ریاست کے اصول ہم نے منشور میں شامل کیے ہیں۔ اس منشور پر عمل درآمد کے لیے ہمیں سخت محنت کرنا پڑے گی۔ پاکستان کے مسائل کا حل آسان نہیں، آنے والی حکومت کے لیے نظام معیشت کی اصلاح ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ موجودہ نظام میں ایک مخصوص طبقہ امیر ہورہا ہے، ناکام پالیسیوں کے باعث اکثریت غریب ہورہی ہے۔
عمران خان نے آئندہ پانچ سال کے دوران ایک کروڑ نئی ملازمتیں پیدا کرنے اور پچاس لاکھ نئے گھر تعمیر کرکے دینے کا وعدہ کیا۔
انہوں نے اعلان کیا کہ ہم نیب کو خودمختار بناکر کرپشن کے تمام مقدمات کا پیچھا کریں گے، بلدیاتی اداروں کے ذریعے اختیارات اور فیصلہ سازی گائوں کی سطح تک منتقل کریں گے، ہم پختون خوا کی طرز پر غیر سیاسی پولیس کا ماڈل دیگر صوبوں میں بھی متعارف کروائیں گے، فوری انصاف کی فراہمی کے لیے عدالتی اصلاحات کریں گے، کراچی میں انقلابی تبدیلیاں برپا کریں گے، فاٹا کے پختون خوا میں انضمام کو کامیابی سے پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے، بلوچستان میں مفاہمت کو فروغ دیں گے، جنوبی پنجاب صوبے کی تحریک اٹھائیں گے اور گلگت بلتستان کو مزید اختیارات سونپیں گے، غربت کے خاتمے کے لیے اقدامات کریں گے، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کریں گے، قومی معاملات میں سمندر پار پاکستانیوں کے کردار میں اضافہ کریں گے، صنعتیں بحال کریں گے، آئی ٹی کے شعبے کو فروغ دیں گے، ایف بی آر میں اصلاحات متعارف کرائیں گے، ویلتھ فنڈ کے قیام کے ذریعے ریاست کے زیر ملکیت اداروں کی بحالی کے لیے اقدامات اٹھائیں گے، پاکستان کو کاروبار دوست بنائیں گے، دو طرفہ روابط قائم کرکے سی پیک کو گیم چینجر میں تبدیل کریں گے، توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے نقصانات کو کم اور دیہی علاقوں میں بجلی کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے، فوری طور پر ڈیم تعمیر کریں گے اور قومی واٹر پالیسی کا نفاذ یقینی بنائیں گے، تنازعاتِ آب کے حل کے لیے ہر ممکن فورم استعمال کریں گے، زراعت کو کسان کے لیے منافع بخش بنائیں گے، لائیو اسٹاک کے شعبے میں نمایاں بہتری لائیں گے، پاکستان کو دودھ اور دودھ سے حاصل ہونے والی مصنوعات میں خودکفیل بنائیں گے اور برآمدات میں اضافے کے لیے گوشت کی پیداوار بڑھائیں گے۔ ماہی گیری کی صنعت بحال کریں گے، تعلیم کی اصلاح کے مجموعی ایجنڈے کے تحت ملک بھر کے اسکولوں، جامعات، ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز اور دینی مدارس میں اصلاحات متعارف کرائیں گے۔ صحت کے شعبے میں بھی انقلاب لائیں گے، صحت انصاف کارڈ کا دائرۂ کار پورے ملک میں وسیع کریں گے، نوجوانوں پر سرمایہ کاری کریں گے، دس ارب درخت لگائیں گے، پاکستان کی قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے اندرونی اور بیرونی سلامتی پالیسی کے ڈھانچے کی اصلاح کریں گے، خارجہ پالیسی باہمی مفادات، دو طرفہ معاملات اور بین الاقوامی روایات کی پاسداری کے رہنما اصولوں پر استوار کریں گے اور تنازع کشمیرکے حل پر کام کا آغاز کریں گے، دہشت گردوں کے نظریے، انسانی وسائل، مالیات اور اسلحہ کو شکست دیں گے، کم از کم دفاعی اصلاحات یقینی بنانا ہماری دفاعی پالیسی کا مرکزی اصول ہوگا، جب کہ ہم عالمی سطح پر اسلحہ پر قابو پانے اور عدم پھیلائو کے اقدامات کے حوالے سے مساوات کے اصول کے پیش نظر بھارت کو اسٹرے ٹیجک مذاکرات کی دعوت دیں گے۔
بظاہر اس منشور میں کوئی نئی بات نہیں کہی گئی، کم و بیش انہی باتوں کا اعادہ کیا گیا ہے جو عمران خان اب تک کی انتخابی مہم کے دوران اپنی تقریروں میں کہتے چلے آئے ہیں۔ الفاظ کی حد تک یہ ایک نہایت خوش کن منشور ہے، جس نے ایک لحاظ سے ذوالفقار علی بھٹو کے دعووں اور نعروں کی یاد تازہ کردی ہے، وہ جو خود اس ملک کے چند بڑے جاگیرداروں میں سے ایک تھے مگر عوام کے سامنے خود کو جاگیرداری اور سرمایہ داری کے سب سے بڑے دشمن کے طور پر پیش کرتے رہے، اپنے پانچ برس کے اقتدار کے دوران اپنے دعووں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے چند نمائشی اقدامات کا اعلان بھی کیا، مگر جب وہ اقتدار سے رخصت ہوئے تو ملک میں جاگیرداری اور سرمایہ داری اپنی پوری آب و تاب سے موجود تھی اور غریب عوام جنہیں روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ دے کر بہلایا گیا تھا، پہلے سے غریب تر اور بے بسی و بے کسی سے دوچار ہوچکے تھے۔
عمران خان اپنی تقریروں میں جو سبز باغ پاکستان کے عوام کو دکھا رہے ہیں اور جن حسین خوابوں کی تعبیر کا وعدہ انہوں نے اپنے انتخابی منشور میں کیا ہے ان کی حقیقت بھی بھٹو کے قول و فعل اور گفتار و کردار کے تضاد پر مبنی وعدوں سے مختلف نہیں، کیونکہ مدینہ کی جس اسلامی فلاحی ریاست کو انہوں نے اپنے لیے نمونہ ٹھیرایا ہے اس کے لیے قیادت کا مثالی کردار بنیادی شرط ہے۔ مدینہ کی ریاست کے قائد محترم رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خلفائے راشدین و دیگر صحابہؓ کا کردار مثالی تھا۔ انہوں نے بلند بانگ دعوے کیے بغیر اپنی روزمرہ زندگی کو عام آدمی کی سطح بلکہ اس سے بھی کم تر سطح پر رکھا۔ جب کہ یہاں یہ صورت ہے کہ عمران خان اور ان کے دائیں بائیں حضرات اقتدار میں آنے سے پہلے ہی جس طرزِ بود و باش کے عادی ہیں اس میں ریاست مدینہ کے حکمران کی جھلک کہیں دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ خود عمران خان شاہانہ زندگی گزارنے کی شہرت رکھتے ہیں، لاہور اور اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہیں جس کی گواہی دیتی ہیں۔ اقتدار میں آنے سے پہلے ہی وہ چارٹرڈ طیارے میں عمرے ہی نہیں کرتے بلکہ اندرون ملک سفر کے لیے بھی وہ اپنے پارٹی رہنمائوں کی طرف سے فراہم کردہ طیاروں اور ہیلی کاپٹروں میں محوِ پرواز پائے جاتے ہیں، اور یہ رہنما وہی ہیں کہ نوازشریف کو بدعنوان ٹھیرا کر سزا سنانے والی پاکستانی عدالت جناب جہانگیر ترین کو بھی بدعنوان قرار دے چکی ہے، مگر وہ آج بھی عمران خان کی آنکھ کا تارا ہیں، کچھ ایسی ہی صورتِ حال لاہور کے جناب علیم خان کی بھی ہے جو بدعنوانی ہی کے الزامات کے تحت لاہور کے نیب دفاتر میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ کیا ایسی قیادت سے ریاست مدینہ کی طرز پر اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کی توقع کی جا سکتی ہے…! ایں خیال است و محال است و جنوں… !!!
جہاں تک ایک کروڑ ملازمتیں فراہم کرنے، معیشت کی بہتری اور معاشرتی نظام کی اصلاح جیسے دعووں اور وعدوں کا تعلق ہے تو اس ضمن میں اس حقیقت کو بہرحال فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ تحریک انصاف گزشتہ پانچ سال کے دوران صوبہ خیبر پختون خوا میں برسراقتدار رہی ہے اور ان وعدوں میں سے اکثر کا تعلق صوبائی حکومت کے دائرۂ اختیار ہی سے ہے، مگر عقل و خرد رکھنے والا ہر انسان صوبہ خیبر کی حکومت کی پانچ برس کی کارکردگی کو دیکھ کر اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس حکومت کے دوران تحریک انصاف کے منشور میں متعین کیے گئے اہداف کی جانب معمولی پیش رفت بھی نہیں کی گئی۔ چنانچہ ذی ہوش آدمی یہ یقین نہیں کرسکتا کہ تحریک انصاف کو اگر اقتدار مل گیا تو وہ واقعی منشور میں بیان کردہ وعدوں کی تکمیل میں کامیاب ہوسکے گی… ہاں البتہ دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے…!!!

حصہ