قیدی خواتین کی معاشی و روحانی نشوونما

616

قدسیہ ملک
یہ دردانہ کی کہانی ہے۔ جب بھی میں قیدی خواتین کو درسِ قرآن کی دعوت دینے ان کے کمروں میں جاتی، دردانہ اپنے بستر کے نیچے جاکر چھپ جاتی، کیونکہ وہ درس میں نہیں آنا چاہتی تھی۔ وہ ہیروئن اسمگلنگ کے الزام میں جیل میں قید تھی۔ اُس پر الزام ثابت ہوگیا تھا۔ وہ ہیروئن لے کر مختلف ممالک کا سفر کرتی تھی۔ وہ بنکاک، جرمنی، سنگاپور کا سفر کرچکی تھی۔ کسٹم حکام کی ملی بھگت اور روپے کی فراوانی کے باعث کبھی پکڑی نہ گئی۔ اِس دفعہ جب وہ قانون کے شکنجے میں آئی تو ہیروئن کی اسمگلنگ کروانے والے بڑے بڑے ناموں نے اس سے سارے تعلق توڑ لیے۔ وہ بالکل تنہا ہوگئی تھی۔ ایسے میں جب اسے وومن ایڈ ٹرسٹ (WAT) کی جانب سے قرآن کی دعوت دی جاتی تو اس کو یہی محسوس ہوتا کہ یہ لوگ بھی اس کا تمسخر اڑانے کی خاطر اس سے تعلق جوڑ رہے ہیں، بعد میں یہ لوگ بھی اس کا مذاق اڑائیں گے۔ وہ اسی لیے سب سے کٹ کر اکیلے اپنے بستر پر بیٹھی کوئی نہ کوئی کڑھائی کرتی رہتی تھی۔ انتہائی خوبرو اور خوددار عورت تھی۔ اپنے گھریلو حالات ‘ پریشانی اور دین سے دوری کے باعث وہ اس دھندے میں ملوث ہوئی تھی۔ جب بھی درس کا انعقاد کیا جاتا وہ اپنے کاموں میں مشغول ہوجاتی تھی۔ اس کے دو ہی شوق تھے: ٹی وی دیکھنا اور کڑھائی کرنا۔ اس کے سوا وہ کچھ کرنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ اپنے آپ کو بہت گنہگار عورت کہتی تھی۔ شاید اسی وجہ سے وہ نیک بننے اور اچھے کام کرنے سے کتراتی تھی۔ وہ رب کی رحمت سے بالکل ناامید ہوچکی تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ درسِ قرآن والی باجی کا نام سنتے ہی چادر ڈال کر اپنی مسہری کے نیچے چھپ جاتی تاکہ نہ کوئی اسے دیکھے، نہ اسے بلائے۔ اسی کشمکش میں 6 ماہ گزر گئے، لیکن ’’ویٹ‘‘ کی ممبر صفیہ بانو کے بقول ہم نے بھی اسے نہ چھوڑا اور اپنی سی کوششوں کے ذریعے اسے مختلف طریقوں سے قرآن کی دعوت دیتے رہے تاکہ وہ اپنے رب کی امید سے مایوس نہ ہو۔ ایک دن جب ’’ویٹ‘‘ ممبر قرآن کی دعوت دینے کمرے میں آئیں تو اس نے سورہ الحجر کی آیت کے بارے میں اُن سے کوئی سوال کیا۔ ویٹ ممبر نے اگلے ہفتے اسے بتایا کہ یہ آیت سورہ الحجر میں موجود ہے، اور اسے مولانا مودودیؒ کا ترجمہ قرآن بطور ہدیہ دیا تاکہ وہ خود دیکھ لے۔ اس کے بعد ہر ہفتے وہ درس لینے لگی۔ جیل خانہ جات میں موجود تجوید کی کلاسز کے ذریعے وہ اپنی تجوید بھی ٹھیک کرتی۔ وہ اب ویٹ کی ممبرز کا انتظار کرتی، جنھوں نے اس کی قرآن کے ذریعے کونسلنگ کی اور اسے ناامیدی سے نکال کر قرآن کے سایۂ رحمت میں آنے کی دعوت دی۔ وہ اپنے گناہوں کو یاد کرکرکے بہت روتی تھی۔ اس نے بتایا کہ وہ بارہا بیرونِ ملک اور پاکستان میں مختلف ڈسٹری بیوٹرز میں ہیروئن فروخت کرتی، جو اس لعنت کو لیے مختلف اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور چوراہوں، گلی محلوں، بازاروں، دکانوں، دیہات اور پبلک مقامات میں اپنے خریداروں کو فروخت کرتے تھے۔
۔تحقیق کاطریقہ کار(Research Methodology):
تحقیق کے لئے جس طریقہ کار کا انتخاب کیا گیا ہے اسے “عصری اکائی کا مطالعہ(Case Study)کہتے ہیں۔کیس اسٹڈی ایسی مشاہداتی(Observatory)اور تجربی(Empirical)تحقیق کو کہتے ہیں جوحقیقی سیاق و سباق (Real Life Context)میں کسی ایک عصری اکائی کے مطالعے کے لئے مواد حاصل کرتی ہے۔?6
“کسی ایک کی عصری و عمرانی اکائی کے دقیق (intensive)اور دور رس مطالعے کاکیس اسٹڈی کہتے ہیں۔یہ عمرانی اکائی ایک فرد کی شخصیت کاکوئی پہلو یاطریقہ کار کچھ لوگوں کا ایک گروہ،ایک واقعہ یا ایک تنظیم ،ایک پروگرام،ایک تحریک ،ایک عمل وغیرہ ہوسکتی ہے”۔?6
5۔تجزیاتی مشاہدہ(Coding and Findings):
پاکستان میں عورتوں کی اہم فلاحی سماجی این جی اووز:
٭عورت فاونڈیشن:
٭پاولاء فاونڈیشن
٭پاکستانی ویمن ہئیومن ا?رگنائزیشن(PWHRO)
٭ول(WILL)
٭ویٹ(WAT)
عورت فاونڈیشن:
سماجی رجسٹریشن ایکٹ 1860 کے تحت ایک قومی، غیر منافع بخش، غیر سرکاری تنظیم کے طورپر قائم اور انفارمیشن سروس فاو?نڈیشن (اورٹ فاو?نڈیشن / اے اے اے) صرف ایک جمہوریت کے لئے وسیع پیمانے پر ا?گاہ اور عزم پیدا کرنے کے لئے پرعزم ہے. پاکستان میں دیکھ بھال معاشرے، جہاں خواتین اور مردوں کو مساوات کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، اپنی زندگی کو اپنی عزت اور وقار کے ساتھ قیادت کرنے کے حق کے ساتھ گزشتہ 28 سالوں میں، عورت فاونڈیشن قومی اور بین الاقوامی طور پر ملک میں خواتین کی بااختارت کے لئے عوام کے دباو کو متحرک کرنے کے لئے اعتماد اور تعاون کو فروغ دینے کے لئے سول سوسائٹی گروپوں اور نیٹ ورکوں کو سہولت، بنانے اور اس کو مضبوط بنانے میں کامیاب اداروں میں سے ایک ہے.عورت فائونڈیشن کا ہیڈافس اسلام اباد میں ہے اور لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ اور گلگت میں 37 صوبائی دفتروں میں صوبائی قیدیوں میں پانچ علاقائی دفاتر ہیں. اس کے علاوہ، اس ملک میں 128 اضلاع میں رضاکارانہ شہریوں کے گروہوں اور انفرادی کارکنوں کا ملک بھر میں نیٹ ورک ہے. ان گروپوں میں شہری ایکشن کمیٹی (سی اے اے)، وسائل گروپ اور اوور فائونڈیشن ریسورس سینٹرز (اے ایف ا ارز) اور انفارمیشن نیٹ ورک سینٹرز (ائی این سی) شامل ہیں.فائونڈیشن سماجی معاشرتی تنظیموں کے لئے کمیونٹی کی سطح پر سماجی تبدیلی کے لئے کام کرنے والے ایک اہم سپورٹ ادارے کے طور پر بھی اگیا ہے4
ویمن ایڈ ٹرسٹ(WAT):
ویمن ایڈ ٹرسٹ کا قیام انسانی معاشرے کی حقیقی اور بنیادی ضرورت عورت کے حقوق اور مسائل کے ادراک اور ان کے حل کے ذریعے پورے انسانی معاشرے کی بھلائی کی ہمہ گیر جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے۔ اس کے مختلف شعبہ جات ہیں جن میں لیگل ایڈ، سماجی مشاورت، جیل میں خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے کام، سماجی فلاحی کام، تحفظِ ماحولیات کے شعبے اور تحقیقی مرکز شامل ہیں۔
WAT سے گزشتہ 18 برسوں سے مالیاتی امور کی انچارج کے طور پر وابستہ بشریٰ حیدر نے بتایا کہ اس ٹرسٹ کا قیام مشترکہ سوچ کی حامل چند ایسی خواتین کی وجہ سے عمل میں آیا، جو معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی لانا چاہتی تھیں۔ بشریٰ حیدر کے مطابق ’’جذبہ یہ تھا کہ جو نعمتیں اور خوشیاں ہمارے پاس ہیں، وہ دوسروں کے ساتھ بانٹی جائیں۔ ہم سات خواتین نے مل کر اس ٹرسٹ کی بنیاد رکھی۔ سبھی مختلف شعبوں سے منسلک تھیں۔ بہت تحقیق کے بعد ہمیں پتا یہ چلا کہ تب تک کوئی بھی جیلوں میں قید مصیبت زدہ خواتین کے لیے کچھ نہیں کررہا تھا۔ پھر ہم نے اڈیالہ جیل کا دورہ کیا۔ قیدی خواتین کے مسائل جاننے اور ان کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کی۔ معاشرے میں مجموعی طور پر خواتین کو ان کا صحیح مقام دلوانا ہی ہماری کوششوں کا مقصد اور ہمارا نصب العین ہے۔
ویمن ایڈ ٹرسٹ کی ڈائریکٹر شاہینہ خان سے انٹرویو:
اس تنظیم کے ارکان کی تعداد 40 کے قریب ہے، جن میں سے زیادہ تر رضاکار ہیں اور ٹرسٹ کی فنڈنگ بھی پاکستان کے اندر سے ہی کی جاتی ہے۔ شاہینہ خان نے اپنے ادارے کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا ’’ہمارا مقصد خاندان جیسے بنیادی ادارے کی بقا اور بھلائی کے لیے جدوجہد کرنا اور ایسی ہر جدوجہد میں تعاون کرنا ہے۔ قانونی اور سماجی مشاورت کی فراہمی، عورتوں اور بچوں کی فلاح کے منصوبے، دستکاری اور فنی مہارت کے پراجیکٹ، خودکفالتی اسکیموں کا آغاز اور ایسے تربیتی پروگراموں کا اہتمام جن کے ذریعے معاشرے میں خواتین کے حقوق و فرائض سے متعلق شعور میں اضافہ کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ سوشل ریسرچ، اعداد و شمار جمع کرنا، چھوٹی سطح پر تعلیمی اور تربیتی پبلی کیشنز اور مختلف تربیتی پروگرام… ان جملہ مقاصد کے ساتھ ہم صوبہ پنجاب کی تین جیلوں میں مختلف منصوبوں پر عمل درآمد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
کراچی ویمن ایڈ ٹرسٹ کی صدر سے انٹرویو:
2006ء میں جیلوں میں ویمن ایڈ ٹرسٹ کی طرف سے کمپیوٹر سکھانے کاکام شروع کیا۔ ایم ایس ورڈ، آئی جی سندھ کا مرتب کیا ہوا نصاب خواتین جیلوں میں کروایا جاتا ہے۔ اس میں قیدی خواتین کی دلچسپی کا پہلو یہ ہے کہ اس کورس کو کرنے سے اُن کی سزا میں 6 ماہ کی تخفیف کردی جاتی ہے، جس کی وجہ سے قیدی خواتین دلچسپی سے کمپیوٹر پر کام سیکھتی ہیں۔ پھر ہم آئی جی کے ذریعے نصاب مکمل ہونے کے بعد ان خواتین کو سرٹیفکیٹ بھی دلواتے ہیں، جس سے ان کی حوصلہ افزائی کے ساتھ جیلوں سے باہر بھی انہیں ایک باعزت روزگار مل جاتا ہے۔
قیدی اور جیل کے بارے میں ماہرین نفسیات سے انٹرویوز:
1۔ پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد جامعہ کراچی کے’’شعبۂ نفسیات‘‘ کے مایہ ناز ادارے ’’انسٹی ٹیوٹ آف کلینکل سائیکالوجی‘‘ کے سربراہ ہیں۔ آپ کلینکل سائیکالوجی میں ڈاکٹریٹ ہیں اور گزشتہ 20 سال سے انتظامی امور کے علاوہ کلینکل سائیکالوجی کے شعبے میں محقق کی پیشہ ورانہ تربیت سے وابستہ ہیں۔ نفسیات سے متعلق مختلف موضوعات پر آپ کے تحقیقی مقالے قومی اور بین الاقوامی سطح پر شائع ہوچکے ہیں۔ ذہنی و نفسیاتی مسائل کی تشخیص اور اُن کے علاج پر آپ مہارت رکھتے ہیں۔ آپ پاکستان سائیکالوجیکل ایسوسی ایشن(PAA) اور پاکستان کونسل آف کلینکل سائیکالوجی (PCCP) کے رکن بھی ہیں۔ اس کے علاوہ سائیکالوجی سے متعلق مختلف بین الاقوامی اداروں سے بھی منسلک ہیں۔ ڈاکٹر ریاض پاکستان جرنل آف سائیکالوجی اور پاکستان جرنل آف کلینکل سائیکالوجی کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ کئی پی ایچ ڈی اور ایم فل اسکالر کے نگران رہے ہیں جو کلینکل سائیکالوجی کے شعبے میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر ریاض سے ذہنی امراض اور سماجی مسائل سمیت کئی اہم موضوعات پر گفتگو کی گئی۔
سوال: ہمارے یہاں ذہنی صحت زوال پذیر ہے، اعصابی تنائو میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے ہر شخص کسی نہ کسی ذہنی بیماری کا شکار ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں جرائم بڑھ رہے ہیں۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد: معاشرے میں ذہنی صحت سے متعلق منفی رجحانات، بیماریوں، ذہنی پریشانیوں، پریشان خیالی اور نسبتاً کم صحت مند رجحانات کی بڑی وجہ خواہشات کا بڑھ جانا اور تعیشاتِ زندگی کے حصول کے لیے مقابلے کے رجحان نے خصوصاً ان حالات میں جب وسائل محدود ہوں، لوگوں میں بے اطمینانی اور تنائو کو جنم دیا ہے۔ آپس کے تعلقات میں کھنچائو اور لاتعلقی در آنے سے افراد میں تنہائی کا احساس بڑھ گیا ہے۔ خوشی کے مواقع اور معاشرتی اور سماجی سپورٹ کی کمی بڑی حد تک انسان کو بے چین اور خوفزدہ کردیتی ہے۔ یہی عوامل جب حد سے بڑھ جائیں تو ذہنی بیماریوں کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ خاندانی نظام، والدین کے متضاد رویّے، اساتذہ کی اپنے شاگردوں کے بارے میں عدم دلچسپی، غیر منصفانہ نظام اور معاشی تفریق بھی ذہنی پسماندگی کے اسباب ہیں۔
سوال: انسان کو غصّہ کیوں آتا ہے، اور یہ کب ایک بیماری کی صورت اختیار کرلیتا ہے؟ اس سے کس طرح بچا جاسکتا ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد: غصہ آنا فطری عمل ہے۔ یہ ایک انسانی جذبہ ہے جس سے فرار ممکن نہیں۔ غصے کے اظہار کا ’’طریقہ‘‘ اس کو صحیح اور غلط بناتا ہے۔ جب غصے کو دبایا جاتا ہے یا اسے غیر حقیقی انداز میں برتا جاتا ہے تو انسان مسائل کا شکار ہوسکتا ہے۔ اگر افراد کو یہ سکھادیا جائے کہ غصے کا مثبت انداز میں کیسے اظہار کیا جاسکتا ہے اور اپنے آپ پر قابو رکھتے ہوئے کس طرح اپنا نکتہ نظر دوسرے فرد تک پہنچایا جاسکتا ہے تو فرد اپنے اور دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث نہیں بنتا۔ بنیادی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں میں Assertive Communication Skillsکی کمی کے باعث غصے کا اظہار ایک منفی رخ اختیار کرجاتا ہے۔ خودپسندی اور اپنی رائے ہی کو صحیح سمجھنا بھی غصے کے اسباب ہوسکتے ہیں۔
سوال: کیا یکسوئی کا نہ ہونا بھی کوئی ذہنی مرض ہے؟ زندگی میں یکسوئی کس طرح پیدا ہوسکتی ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد: یکسوئی کا نہ ہونا بجائے خود کوئی ذہنی مرض نہیں، مگر یہ مختلف ذہنی امراض یا پریشانیوں کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔ اکثر ڈپریشن میں مبتلا مریض یکسوئی سے متعلق مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ یکسوئی ایک صحت مند معمولِ زندگی اور بامقصد زندگی کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ اگر آپ کو کوئی کام پسند ہے یا بالفرض آپ اپنی پسندیدہ کتاب پڑھ رہے ہوں یا فلم دیکھ رہے ہوں تو آپ دیکھیں گے کہ آپ اس میں کتنے مگن اور یکسو ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ کی زندگی کا ایک مقصد ہو جو آپ کی پسند کے مطابق ہو تو یکسوئی کے ساتھ کام کرنا ممکن ہے۔ یعنی عدم دلچسپی، ناکامی کا خوف اور احساسِ کمتری جیسے مسائل یکسوئی میں کمی کا باعث ہوسکتے ہیں۔ موبائل فون کا کثرت سے استعمال یا صحت کے مختلف مسائل اس کا نتیجہ ہوسکتے ہیں۔ ذہنی صحت کے لحاظ سے موبائل فون کا استعمال اگر زیادہ ہو تو یہ فرد کے تنہائی کا شکار ہونے، اپنے آس پاس کے لوگوں سے کٹ جانے، باہمی ربط و ضبط میں خرابی اور بڑھتی ہوئی بے چینی کا باعث ہوسکتا ہے، جو بعد میں تشدد پر ابھارتا ہے۔
2۔ ماہرنفسیات اقبال النساء کلینکل سائیکالوجی کی طالبہ رہی ہیں۔ ایک این جی او سے بھی وابستہ ہیں جو جیلوں میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کررہی ہے۔ ذہنی و نفسیاتی مسائل کی تشخیص اور اُن کے علاج پر آپ مہارت رکھتی ہیں۔ ان سے ہم نے یہ سوال کیا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جیلوں میں جانے والے نوآموز مجرم عادی مجرم بن کر نکلتے ہیں؟ ڈاکٹر صاحبہ کا کہنا تھا کہ اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ہماری جیلوں میں قیدیوں کی ذہنی نشوونما کے انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں جس کے باعث قید خانے جرائم کی آماج گاہ بن چکے ہیں۔ وہ ساتھ آنے والے قیدیوں سے جرائم کے مختلف طریقے سیکھ کر نت نئے انداز میں جرائم کی شرح کو معاشرے میں بڑھا رہے ہیں اورجیل آنے والے نوآموز مجرم عادی مجرم بن چکے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جیل اور قید خانے ہمارے معاشرے میں اپنا اتنا منفی اثر چھوڑ چکے ہیں کہ معاشرے میں جیل جانے والے فرد سے تمام عزیز و اقرباء روابط و رشتے ختم کردیتے ہیں۔ بد اچھا بدنام برا کے مصداق رہائی کے بعد بھی لوگ ایسے رشتہ داروں سے ملنا پسند نہیں کرتے۔ جب معاشرہ ایسے لوگوں کو قبول نہیں کرتا تو وہ افراد دوبارہ بآسانی گناہوں کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ اسی لیے جیلوں سے رہائی پانے کے بعد لوگ دوبارہ جرائم کرنے اور جیل آنے کو عار نہیں سمجھتے۔ ان کا واحد مطمح نظر صرف ہر ذریعے سے ناجائز دولت کمانا رہ جاتا ہے۔
نتائج(Findings):
مفروضے کی بنیاد پر تحقیق کی غرض سے رفعت بانو نامی خاتون کی جیلوں اور رہائی کے بعد کی زندگی کی عصری اکائی کا مطالعہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں ان کے ساتھ مدد کے طور پر پیش آنے والی این جی او ’’ویٹ‘‘کا بھی مطالعہ کیا گیا۔ اسی ضمن میں صدر این جی او سے رفعت کے انٹرویو کے بارے میں سوالات کیے گئے، جس کی انہوں نے تصدیق کی۔ بعد ازاں جیل کا دورہ کیا گیا جہاں خواتین جیل کی ہیڈ پولیس شیبا شاہ نے کمپیوٹرروم اور سلائی و کڑھائی کے روم بھی دکھائے جہاں قیدی خواتین کمپیوٹر و سلائی سیکھتی ہیں۔ لیکن اسی پر اکتفا کافی نہیں۔ معاشرے کی اصلاح کے لیے اس سے زیادہ اصلاحات کی ضرورت ہوتی ہے، جن کے بغیر معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کیا جاسکتا۔
زیر نظر تحقیق سے اس امر کی وضاحت ہوئی کہ حکومت کی مجرموں کی بہتری کے لیے کی جانے والی اصلاحات بہت محدود ہیں، اور جو ہیں بھی، اُن کے لیے حکومت این جی اوز پر انحصار کرتی ہے۔ این جی اوز معاشرے کی بھلائی کے لیے کام تو کررہی ہیں لیکن اُن کا کام بہت محدود پیمانے پر ہے۔ چند نامور این جی اوز کے علاوہ زیر تحقیق این جی او بھی معاشرے کی ترقی کے لیے جیلوں کے علاوہ رہائی کے بعد فرد کی فکری و معاشی ترقی میں اپنا کردار ادا کررہی ہے۔ جیلوں میں دورے کے دوران ویٹ کے کام کی وضاحت بھی ہوئی کہ ان کا بیان محض دعویٰ نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ہے۔ ذہنی نشوونما کے لیے یہ لوگ فرد کا تعلق اپنے خالق سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں کہ توبہ کے بعد انسان بالکل ویسا ہی ہوجائے گا جیسے کہ اس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو۔ اس کا مقصد قیدی کو رہائی کے بعد معاشرے کے غلط رویّے سے بچنے کے لیے مثبت سرگرمیوں میں مصروف کرنا ہے تاکہ وہ فرد جرم کی سزا کے بعد دوبارہ معاشرے کا کارآمد شخص بن سکے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ معاشرے کا ایک عام فرد اس این جی او پر اتنا بھروسا نہیں کرتا، لیکن رہائی کے بعد خواتین جو بالکل بے یارومددگار ہوجاتی ہیں اس این جی او پر مکمل بھروسا کرتی ہیں۔ تحقیق میں اس این جی او کے کوئی خفیہ مقاصد سامنے نہیں آئے۔ حب الوطنی، خدمت اور دیانت کے جذبے سے سرشار ہوکر فرائض کی انجام دہی کی جاتی ہے تاکہ معاشرے میں جرائم کی شرح کو کم سے کم کیا جاسکے۔

حصہ