بچوں پر تشدد نہیں پیار کیجیے

270

بنتِ عطا
کہتے ہیں بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔ یہ بات اس وقت بہت شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ جب ہمارے پڑوس میں کسی بچے کے رونے یا چلانے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ دل کرتا ہے بھاگ کر بچے کو گود میں لے کر بچا لیا جائے۔ وہ بچہ جس کا بھی اس کی آواز برداشت نہیں ہوتی۔ مگر یہ سب ہماری سوچ ہے معاشرے میں ایسا کچھ دیکھائی نہیں دیتا۔
گزشتہ دنوں ایک فیس بک پر پوسٹ پڑھی۔ ایک شخص نے لکھا ہوا تھا کہ اس کے محلے میں ایک بچے کو اس کا والد مار رہا تھا۔ جب وہاں کسی نے اسے نہیں چھڑایا۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں گیا اور جا کر بات کی تو اس کے والد نے الٹا مجھے ڈانٹ دیا۔ یعنی اب یہ حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ والدین اپنے بچوں کو جیسے بھی مارتے رہیں کوئی انہیں چھڑابھی نہیں سکتا۔ جب وہ بات کریں تو کہا جاتا ہے میرا بچہ ہے۔ یا پھر کہا جاتا ہے کہ اس نے فلاں شرارت کی۔ یا فلاں بات نہیں مانی تو اس لیے اسے مار رہا ہوں وغیرہ وغیرہ۔۔۔
بچوں کو مار سے نہیں بلکہ پیار سے سمجھایا جاتا ہے۔ بچوںکی تربیت والدین کی اولین ذمے داری ہے۔ تربیت کیسے کرنی ہے یہ بات یقینا اہمیت کی حامل ہے۔ بچوں کی تربیت میں ان چند باتوں کا خیال رکھیں انشا اللہ یہ بچے کے بہترین مستقبل کے لیے بہت کار آمد اور معاون ثابت ہوں گے۔
بچوں کو اچھے ناموں سے پکاریں نام کا بچے کی شخصیت پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ عموما گھروں میں بچے کو کسی ایک مخصوص نام سے پکارا جاتا ہے وہ نام ایسے ہوں جو بچے کو خوشگوار احساس دیں انہیں ہتک محسوس نہ ہو۔
ہر ہر بات پر مسلسل وضاحت طلب کرنے سے بچہ چڑچڑا اور بدتمیز ہوجائیگا پھر ایک وقت آئیگا کہ وہ جھوٹ بولنا بھی شروع کردے گا ، لہٰذا غیر محسوس طریقے سے بچوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھئے اور دوستانہ انداز میں سوال کیجئے۔
بجائے دھمکیاں دینے اور ڈرانے کے اچھے اور مثبت الفاظ سے انہیں سمجھائیں۔ یہ انداز ان میں نمایاں تبدیل کا باعث بنے گا۔ منفی سوچ، جیسا کہ ڈرانا، دھمکانا، اس سے بچہ ہر وقت خوف میں مبتلا رہے گا۔ اس سے بچے کی نشوونما پر بھی گہرا اثر پڑے گا۔
بے جا سختی سے گریز کریں انہیں پیار سے سمجھائیں انکے حق میں کیا اچھا ہے کیا برا انہیں احساس دلائیں کہ آپکو ان سے کیا امیدیں ہیں۔ ضروری نہیں بچہ آپکی ہر نصیحت من و عن قبول کرے ان سے غلطیاں بھی ہونگی مگر ان غلطیوں پر آپکا طرز عمل کتنا مثبت یا منفی ہوگا یہ بچے کی آگے کی زندگی کی کامیابی یا ناکامی طے کرے گا۔بچوں کو بہترین تعلیم و تربیت دیں انہیں معاشرے کا مفید اور کارآمد شہری بنائیں دنیا کے ساتھ ساتھ انہیں دین کی بھی تعلیم دیں اسے غیر ضروری سمجھ کر نظر اندازنہ کریں۔
بچے عدم تحفظ کے احساس سے خوف کا شکار ہوجاتے ہیں انہیں احساس دلائیں کہ آپ ان کے بہترین دوست ہیں۔ آپ ہمیشہ ان کا ساتھ دیں گے ان کا ہر مسئلہ چٹکی بجاتے حل کردیں گے۔ وہ ہر بات آپ سے شیئر کرسکتے ہیں پھر اگر وہ کوئی مسئلہ آپ کے پاس لائیں تو اس پر ایک دم سے طیش میں نہ آئیں خوش اسلوبی سے حل کریں۔ طریقے سے بات کریں ، ورنہ آہستہ آہستہ وہ آپ سے ہر بات چھپانے لگ جائے گا۔
بڑے بچوں سے گھریلو معاملات میں مشورہ لیں انہیں احساس دلائیں کہ آپ کو ان کی رائے بہت پسند آئی اسے سراہیں اس طرح اس کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا ، اس میں قائدانہ صلاحیت پیدا ہوگی۔
ڈانٹ ڈپٹ کے بجائے اسے اپنے چہرے کے تاثرات کا عادی بنائیں ۔ اپنے چہرے کے تاثرات سے ظاہر کریں کہ آپ کو اس کی کوئی بات پسند نہیں آئی یا آپ ناراض ہیں ۔ اسے وہ محسوس کرے گا اور دوبارہ وہ غلطی نہیں دوہرائے گا۔
بچوں کو ان کے دوستوں کے سامنے ہر گز نہ ڈانٹیں بچوں کے احساسات بہت نازک ہوتے ہیں۔ ان کے دوستوں کے سامنے ہمیشہ اپنے بچوں کا اچھا تذکرہ کریں دوستوں کے سامنے تذلیل سے بچوں کے جذبات مجروح ہوجاتے ہیں پھر وہ آپ کو بھی خاطر میں نہیں لائے گا۔
بچوں کی ذہن سازی اس طرح کریں کہ انہیں مثبت سوچ کا عادی بنائیں ہر چیز میں مثبت پہلو اجاگر کریں انہیں منفی سوچ سے دور رکھیں۔
بچوں کے سامنے کبھی خاندانی سیاست پر بات نہ کریں اس سے بچپن سے ہی ان کے ذہنوں میں عداوت، بغض پختہ ہوتا جائے گا۔ بچے بچپن سے ہی اپنے خونی رشتوں سے متنفر ہونے لگیں گے۔
بچوں سے ہمیشہ برابری کا سلوک کریں ایک بچے سے زیادہ پیار دوسرے سے کم یہ چیز بچوں کو احساس محرومی میں مبتلا کردیتی ہے۔ جب بچے کو گھر پر توجہ نہ ملے وہ ادھر ادھر سے لینا شروع کردے گا۔
بچے پر تعریف اور تنقید یکسر انداذ میں انتہائی حد تک اثر انداز ہوتے ہیں اگر آپ بچے کو تعریفی جملوں سے نوازیں گے تو اس کے اندر مثبت تبدیلی اجاگر ہوگی۔ کچھ اچھا کرکے آپ کو خوش کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس کے برعکس اگر آپ اسے مسلسل تنقید اور طعنوں کی زد میں رکھیں گے تو وہ مایوسی کی کیفیت میں جا پہنچے گا۔ احساس کمتری کا شکار ہوکے خود اعتمادی زندگی بھر کے لیے کھو دے گا۔
آپ اپنے بچے کو اگر نکما، آوارہ اور بدتمیز بنانا چاہتے ہیں تو اسے ان القابات سے پکاریں ، ورنہ ان الفاظ سے اجتناب کریں۔ جو آپ اسے بنانا چاہتے ہیں اس سے ویسی بات کریں۔ جیسے کہ میرا بچہ تو بہت سمجھدار بہت ذہین ہے بہت تمیزدار ہے۔ اس سے اس کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوگا اور خود اعتمادی بڑھے گی۔
ایسے کئی دیگر باتیں ہیں جن کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ اپنے بچوں پر بہت زیادہ توجہ دیں۔ ان کی ایکٹویٹی پر توجہ دیں، سوشل میڈیا کا دور ہے تو موبائل اور کمپیوٹر پر وہ کیا کر رہے ہیں ان سب باتوں کا خیال رکھنا آپ کی ہی ذمے داری ہے۔

حصہ