بلا عنوان

971

رقیہ اکبر
ہائے ری غربت… کیا کیا رنگ دکھلاتی ہے، تُو کیسے کیسے آزماتی، رلاتی اور تڑپاتی ہے۔ تن سے کپڑا اور من سے خواہشیں اور امنگیں تک چرا لیتی ہے۔ اور پھر یہیں تک بس نہیں… عزتِ نفس کی دھجیاں بکھیر دیتی ہے۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کہہ گئے ’’قریب ہے کہ مفلسی تجھے کفر تک پہنچا دے‘‘۔
اے ربِّ کریم میری تو عقل مائوف ہوگئی ہے، ذہن سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی کھو بیٹھا ہے۔ یہ کیسا انصاف ہے تیرا، یہ کیسی تقسیم ہے تیری… یوں تو بے تحاشا رمز ہیں جو انسانی عقل سے ماورا ہیں، سمجھ سے بالاتر ہیں۔ مگر یہ کچھ انوکھا رمز ہے، کچھ اذیت ناک سا… ایک تو غربت… دنیا میں دنیا کی ہر نعمت سے محرومی، پیٹ کی بھوک، لباس کی طلب اور اوپر سے کفر۔
مانا کہ تُو کسی کو دے کر آزماتا ہے تو کسی سے لے کر… کسی کو زیادہ دے کر آزمائش کی بھٹی میں ڈالتا ہے، پرکھتا ہے کہ ’’دیکھوں تو تُو کتنا ظرف رکھتا ہے‘‘۔ اور کسی کو کچھ نہ دے کر آزماتا ہے’’چلو صبر کرکے دکھائو‘‘۔ کسی کو دے کر پھر سے لے لیتا ہے اور کسی کو ساری عمر محروم رکھتا ہے۔ الٰہی یہ کیا ماجرا ہے؟ کیوں ہے ایسا؟ سب تیرے ہی بندے ہیں اور تُو تو ماں کی طرح محبت کرتا ہے اپنے بندوں سے، پھر کیوں تضاد؟ یہ معاشی ناہمواری اور معاشرتی اونچ نیچ…
کل جب میں نے اپنی گلی میں غربت کو گتھم گتھا اور جوتم پیزار دیکھا تو میرا روزہ دور کھڑا مسکرا رہا تھا، مجھے آزما رہا تھا، اور میں سمجھ نہیں سکی کہ اب میرے روزے کے تقاضے کیا ہیں؟
راشن کی خاطر ایک دوسرے کے بال نوچتے، گریبان پھاڑتے، گالیاں دیتے، ہاتھ اور جوتے چلاتے ان بدقسمت غریبوں کو ڈانٹوں، دھتکاروں یا ان کی حالت پر رحم کروں! ان پر جہالت کا لیبل لگاکر ایک طرف ہوجائوں یا ان کی غربت کی مجبوری کو سامنے رکھ کر کوئی معاملہ کروں! انہیں یوں بے رحمی سے آٹے کے ایک تھیلے پر لڑتے ہوئے کوسنے دوں، یا ان کو بدانتظامی کا طعنہ دوں!
پھر سوچا یہ جہالت کا سرٹیفکیٹ یا بدانتظامی کا طعنہ ان غریب لاچار لوگوں کے لیے ہی کیوں؟ ان نام نہاد پیسے والوں، نیکی کمانے کے چکر میں راشن تقسیم کرنے والوں کو کیوں نہ کوسوں جنہوں نے راشن تقسیم کرنے کے نام پر انہیں کتوں کی طرح لڑنے پر مجبور کیا!
واہ رے نیکی، اور سلام ہے نیکی کمانے کے اس جذبے پر کہ چند کلو آٹے کے تھیلے، دو چار کلو چینی، پتی اور لال شربت کا لالچ دے کر ان کم نصیبوں کا مذاق اڑانے والے، انہیں اپنے در پر بلاکر ذلیل کروانے والے کیا تیری نیکی بارگاہِ الٰہی میں قبول ہوگی؟ اور آپس میں لڑتے جھگڑتے ان غریبوں کا روزہ کیا اب اپنی روح کھوچکا؟
خدا تو کہتا ہے کہ ’’نیکی کرو تو اس طرح کہ دوسرے ہاتھ کو بھی پتا نہ چلے‘‘۔ اور ہم ہیں کہ ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، اعلان کرواتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ غریب لاچار لوگ اَن پڑھ ضرور ہیں مگر بے حس نہیں، خودغرض نہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو بتائو گے کہ کل ہمارے ہاں راشن تقسیم ہوگا تو یہ اپنے جیسے کئی اور مظلوموں، بھوک سے بلکتے خاندانوں تک خبر پہنچا دیں گے، اور پھر وہی ہوگا جو منظر ان گنہگار آنکھوں نے کل دیکھا۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے پڑوسیوں نے راہ چلتے کچھ غریبوں کو عندیہ دیا کہ کل ہمارے ہاں راشن تقسیم ہوگا… اور پھر یہ خبر میڈیا کی خبر کی طرح زبان در زبان نشر ہوتی چلی گئی، اور پھر ایک جمِ غفیر اُمنڈ آیا دروازے پر۔ اتنے بڑے ہجوم کو سنبھالنا اب ان کے لیے مشکل ہوگیا تھا۔ آٹے کا ایک تھیلا لینے کے لیے ہر کوئی دوسرے کو کچلنے کی کوشش میں تھا۔ دوسرے کو پیچھے دھکیلنے اور اپنا راستہ بنانے کی اس تگ و دو میں کسی کا ہاتھ کسی کو لگا تو لڑائی کا آغاز ہوگیا، اور بس پھر وہ تماشا ہوا جس کا ذکر اوپر کرچکی ہوں۔ اہلِ محلہ بے بس نظر آئے۔ مرد و زن صرف اپنے اپنے گھروں کے ٹیرس یا چھتوں پر کھڑے یہ تماشا دیکھنے پر مجبور تھے۔ کچھ محظوظ ہورہے تھے اور کچھ پریشان… مگر حل کسی کے پاس نہ تھا۔ ناگاہ میرے ذہن میں خیال آیا کہ خادمِ اعلیٰ کی ایلیٹ فورس یا پھر ریسکیو کو بلایا جائے، ورنہ کسی کی جان بھی جا سکتی ہے۔ مگر بھلا ہو ایلیٹ کے جوانوں اور ریسکیو فورس کا، باوجود کال کرنے کے اتنی دیر لگا دی آنے میں کہ چند خواتین بے ہوش اور خاصے جوان زخمی ہوکر نڈھال ہوگئے اور لڑائی خودبخود تھم گئی، اور میںکھڑی سوچتی رہی کہ اس سارے قصے میں اصل قصوروار کون ہے؟ کیا یہ غریب غرباء، اَن پڑھ جاہل؟ کیوں پڑھے لکھے مہذب لوگوں کی طرح لائن میں لگ کر راشن وصول نہیں کیا؟ کیوں ایک دوسرے کے گریبان پھاڑے، تھپڑ مارے…؟ غریب ہیں ہی اس قابل۔ تمیز، عقل نام کو نہیں ان میں۔ بجا، یہ سارے الزامات بجا، سارے مشورے درست… مگر کیا یہ غربت، بھوک سے بلکتے بچے، دوائی کے انتظار میں تڑپتی ماں کا خیال کسی لائن میں لگنے کی اجازت دیتا ہے؟ کسی تہذیب کا دامن پکڑنے کی طرف مائل کرتا ہے؟ تو قصوروار وہ امیر کیوں نہیں جس نے اپنی دولت کے نشے میں مست ہوکر غریب کی عزتِ نفس کو نام نہاد نیکی کے بھاری بھرکم بوٹوں تلے کچل ڈالا…!
ارے نیک بختو! تم کیا کسی سلطان کی اولاد تھے جو اتنا وافر راشن تقسیم کرنے کا اعلان فرما دیا! دو چار تھیلے تقسیم کرنے کے لیے اعلانِ عام کی کیا ضرورت…! تمہارے دروازے پر برسوں سے تمہارے گھر کی گند سمیٹنے کے لیے معصوم فرشتوں جیسے کالے بھجنگ اَدھ ننگے بچے آتے ہیں، چپکے سے دو چار تھیلے انہیں پکڑا دیتے… تمہارے گھر کا کام کرنے کے لیے جو ماسیاں آتی ہیں وہ غربت سے مجبور ہوکر اپنی جوان جہان بچیوں کو بھی روزی روٹی کی خاطر در در کے برتن مانجھنے اپنے ساتھ لاتی ہیں، دو تھیلے چپکے سے اُن کے ہاتھ میں دے دیتے۔ بہت ہوا تو گلی کا گارڈ، سامنے والوں کی ماسی اور ایسے بہت سے غریب تمہارے اردگرد بکھرے پڑے تھے، چپکے سے نیکی کماتے۔ کسی کا چولہا جل جاتا، پیٹ کی آگ بجھ جاتی۔ مگر وائے بدبختی، نیکی سے زیادہ نیکی کی تشہیر کے جذبے نے غریب کو رسوا کرڈالا۔ کسی کے پیٹ کی آگ تو کیا خاک بجھتی… اسے لاتوں، گھونسوں کی جھلستی آگ میں دھکیل دیا۔ کسی کا چولہا کیا جلتا… سینے پر پڑے گھونسے اور پھٹے گریبان نے عزتِ نفس کا چولا جلا کر خاک کر ڈالا۔
ہماری بدقسمتی کہ نیکی کا یہ جذبہ بھی عجیب رخ اختیار کرچکا ہے۔ اب یہ اللہ کے حضور اپنا مقام و رتبہ بلند کرنے کے لیے نہیں ابھرتا، علاقے میں اپنی شوشا بڑھانے کے لیے ابھرتا ہے۔ نیکی رب کے ہاں مقبولیت پانے کے لیے نہیں کی جاتی، پڑوسیوں میں ممتاز مقام حاصل کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ غریب کو عزت سے اُن کا اپنی دولت پر حق سمجھ کر حصہ نہیں دیتے ہم لوگ، ہم تو انہیں اپنا احسان مند بنانے کے لیے چند کھوٹے سکے ان کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں، اور اپنی نیکی کو بھی گناہ بنا دیتے ہیں، اور انہیں غریب سے فقیر اور بھیک منگا بناکر اپنے در پر سوالی بناکر کھڑا کردیتے ہیں اپنی جھوٹی اَنا کی تسکین کے لیے… ارے او بندۂ خدا! نیکی کر اپنے نامۂ اعمال میں خیر کا پلڑا بھاری کرنے کے لیے، رب کی رضا کے لیے… نہ کہ کسی غریب کا مذاق اڑانے کے لیے، اسے ذلیل و رسوا کرنے کے لیے۔ ذرا سوچ تیرے یہ کھوٹے سکے تیرے رب کے ہاں مقبول ہوں گے بھی کہ نہیں؟

حصہ