مہرالنساء ، سچی کہانی

284

فارحہ شبنم (کینیڈا)
(چوتھی قسط)
وقت کے ساتھ ساتھ ابھیشک کے لیے بھی میری دعاؤں میں شدت آتی جارہی تھی۔ اُس نے یقینا میرے اندر تبدیلی نوٹ کی ہوگی مگر وہ اس سلسلے میں خاموش تھا۔ مجھے پوری امید تھی کہ میرا خدا مجھے مایوس نہیں کرے گا۔ اس نے ہمیشہ میری ہر طلب پوری کی تھی۔ اب یہ طلب تو میں ضد کرکے پوری کروانے کا وعدہ خود سے کرچکی تھی۔
رمضان کا آخری عشرہ تھا جب ایک کمپنی سے جہاں ابھیشک نے جاب کے لیے اپلائی کیا تھا، انٹرویو کی کال آئی۔اُس دن وہ بہت خوش تھا۔odd jab اور اتنے لمبے ورکنگ ہاورز کرکے وہ بھی بہت تھک چکا تھا۔ دوسری طرف میری نمازیں اور دعائیں اب صرف اپنی، اپنے شوہر اور آنے والی اولاد کی ہدایت کے لیے شروع ہوتیں اور اسی پر ختم ہوتیں۔ امی کو جب سے پتا چلا تھا کہ یہاں میری اتنی اچھی دوست بن گئی ہیں تو وہ بھی بہت مطمئن تھیں، ورنہ ان کو فکر تھی کہ میں کیسے سب کچھ اکیلے مینج کروں گی! عید کے چوتھے دن مجھے ہاسپٹل جانا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک بہت پیاری سی بیٹی سے نوازا تھا۔ میں اللہ کی اس نعمت پر بہت خوش اور نازاں تھی۔ ہم دونوں نے مل کر اس کا نام سونیا سوچا تھا۔ ہسپتال میں ہی باجی ثمرین کی فیملی، عاصم بھائی اور ان کی مسز جن کا نام عالیہ تھا، بہت سارے تحفوں کے ساتھ ہمیں ملنے آئے۔ باجی نے مجھ سے دھیمی آواز میں پوچھا ’’مہرالنساء بچی کے کان میں اذان دینی ہے؟‘‘ میں نے اشارے سے منع کردیا۔ میں یہ کام ابھیشک کے سامنے نہیں کروانا چاہتی تھی۔ ہاتھ کی بنی گرم گرم روٹی اور شوربہ باجی مجھے اپنے ہاتھ سے کھلا کر گئیں۔ ان کے جانے کے بعد میں اور ابھیشک جانے کب تک بیٹھے اپنی ننھی پری کو دیکھتے رہے، ہم نے خوب ساری تصویریں کھینچ کر عبیرہ اور ابھیشک کے بہن بھائیوں کو بھیجیں۔ وہ لوگ بھی ہمارے لیے بہت خوش تھے۔ میں اتنے دنوں سے موقع کی تلاش میں تھی کہ کب ابھیشک کو اسلام کی دعوت دے سکوں۔ مجھے اس کی خوشی دیکھ کر لگتا تھا کہ شاید اس کام کے لیے یہی دن بہترین ہوسکتا ہے، لیکن مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس طرح بات اُس کے سامنے رکھوں! اسی دوران نرس اندر آئی تو وہ کینٹین سے اپنے لیے کچھ کھانے کو لینے چلاگیا۔ تھوڑی دیر میں واپس آیا تو پھر سونیا کو گود میں لے کر بیٹھ گیا۔ وہ اس کی چھوٹی چھوٹی انگلیوں سے کھیلتے کھیلتے اچانک بولا ’’مہرو، تم نے اتنا حسین تحفہ مجھے دیا ہے کہ سمجھ میں نہیں آرہا کیسے تمہارا شکریہ ادا کروں۔‘‘ میں بہت تھک چکی تھی اس لیے خاموشی سے مسکرا دی۔
’’کچھ بولو تو مہرو، چپ کیوں ہو؟ اچھا چلو یہ بتاؤ کہ اب میں تمہیں کیا تحفہ دوں؟‘‘ وہ کرسی سے اٹھ کر میرے برابر آبیٹھا تھا۔ میںنے ایک لمحے کے لیے سوچا کہ اس سے بہتر اور کیا وقت ہوسکتا ہے! پھر اللہ کا نام لے کر دھیرے سے بولی ’’جو مانگوں گی دو گے، پکا؟‘‘
وہ بولا ’’ہاں ہاں کیوں نہیں۔‘‘ پھر آنکھ مار کر بولا ’’ارے مہرو رانی! اتنا سوچتی کیوں ہے؟آج تیرا دن ہے، جان بھی مانگے گی تو وار دوں گا۔‘‘
’’ابھیشک میں سیریس ہوں‘‘۔ مجھے لگا کہیں اُس کے مذاق میں یہ موقع میرے ہاتھ سے نہ نکل جائے۔
’’ہاں ہاں میری جان میں بھی سیریس ہوں ۔ بتاؤ ڈائمنڈ رِنگ لو گی؟ یا ایسا کرتے ہیں تمھاری پسند کا بیڈروم سیٹ خرید لیتے ہیں۔ اتنے دن سے بروشرز میں دیکھ دیکھ کر آہیں بھر رہی ہو۔ ارے اسی دن کے لیے تو اتنی کمائی کی ہے میں نے۔‘‘
’’ابھیشک…!‘‘ میں اتنا کہہ کر رک گئی۔ میری نظریں اُس کے روپہلے کف لنک پر جمی تھیں۔ مجھے لگتا تھا کہ میں نے اُس کی آنکھوں میں دیکھا تو میں کمزور پڑجاؤں گی۔ وہ صبح آفس کے لیے تیار ہورہا تھا جب میری وجہ سے ایمرجنسی میں ہاسپٹل آنا پڑا۔ آفس جوائن کرنے کے بعد سے اُس نے فارمل ڈریسنگ شروع کردی تھی اور بڑا ڈیشنگ دکھتا تھا۔ میں روز چپکے سے اُس کے اوپر نظر کی وہ دعا پڑھ کر دم کرتی تھی جو میں نے انٹرنیٹ سے ڈھونڈ کر نکالی تھی۔
اور آج تو وہ جب جب ننھی سونیا کو پیار سے دیکھتا، یا چومتا تو مجھے اپنی بیٹی کے ساتھ ساتھ اُس کے لیے بھی اپنے اندر ایک نئی محبت امنڈتی محسوس ہورہی تھی۔ میں ابھی اندر سے اتنی مضبوط نہ ہوئی تھی کہ مذہب کی بنیاد پر اُس کو چھوڑنے کے بارے میں سوچتی۔
’’ارے بول بھی دو ناں مہرو، اتنا ڈرامیٹک انداز! کتنا سسپنس کری ایٹ کردیا تم نے۔‘‘
’’ابھیشک میں… میں چاہتی ہوں کہ تم اسلام کو اسٹڈی کرو اور اس کی سچائی کو پہچانو۔‘‘
گیند کو بڑی مشکل سے اُس کے کورٹ میں پھینک کر اب میرے کان ہی نہیں رواں رواں اُس کا جواب سننے کے لیے بے چین تھا۔ مگر جواب میں اُس کی طرف سے مستقل خاموشی تھی۔ میری نظریں کف لنک سے بمشکل اُس کے ہاتھ تک گئیں تو اس کی انگلیاں جو چند لمحے پہلے تک سونیا کی انگلیوں سے کھیل رہی تھیں اب ساکت تھیں۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ اُس کو میری بات اچھی نہیں لگی۔ میری آنکھوں میں آنسو بھرنے لگے۔ کہیں یہ آج کا گولڈن چانس مس ہوگیا تو پھر نہ جانے کب یہ خواہش دوبارہ زبان پر لا سکوں گی۔
(جاری ہے)

حصہ